اک جنگ چل رہی ہے بتائے بغیر ہی

حجاب نامی چنگاری شعلہ کیسے بنی
شریف احمد شریف
کرناٹک
کرناٹک کے شہر اڈوپی کے ایک کالج سے اٹھی حجاب نام کی چنگاری کو اس قدر ہوا دی گئی کہ اب وہ شعلہ بن۔کر دیش بھر میں پھیل چکی ہے۔ دیش کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اب حجاب کو لے کر ماحول گرم ہے۔ مسلمان ماں بہنوں کو حجاب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا پے۔ آخر اس کے پیچھے مقصد کیا ہے؟ آر ایس ایس کا دیرینہ خواب ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔ اور مسلمان ان کی راہ کا کانٹا بنے ہیں۔ اسی لئے شروع سے آر ایس ایس نے مسلمانوں کانشانہ بنا کر انہیں ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔ اس وقت حجاب معاملہ اسی سازش کا حصہ ہے۔ اس وقت بہت زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ حجاب معاملہ بہت ہی نازک اور سنگین مدعا ہے۔ اس سے ہماری ماں بہنوں کی عصمت جڑی ہے تو وہیں یہ اسلام کا اہم جز ہے۔ آج اس مدعے کو اسکولوں اور کالجس کے ذریعہ چھیڑا گیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ یہیں تک محدود رہے گا۔ بہت جلد حجاب اور برقع کو لے کر ہر شعبہ میں پابندیاں دیکھی جائیں گی۔ مالس، شو روم، پارک، ہاسپٹل،بینک، سرکاری و نجی دفتر غرض ہر جگہ حجاب پہن کرآنا ممنوع قرار دیا جائے گا۔ باہر تختیاں لکھیں ہوں گی۔ حجاب پہن کر آنا منع ہے۔ جیسے کرونا کے بعد نو ماسک نو اینٹری والی تختیاں جگہ جگہ دیکھی جا رہی ہیں۔ کسی بھی شعبہ میں کام کرنے والی خواتین پر بھی یہ پابندیاں آئید کی جائیں گی۔ انہیں اگر جاب کرنا ہے تو بغیر حجاب کے ہی جانا ہوگا یا پھر ملازمت سے ہاتھ دھونا ہوگا۔
تاریخ میں ہندوستان کا ایک دور ایسا بھی گزارا ہے جہاں دلتوں کی عورتوں کو سینہ ڈھکنے کی اجازت نہیں تھی۔ یعنی بلاوز پہننے پر پابندیاں تھیں۔ بلاوز پہننے کے لئے ٹیکس ادا کرنی ہوتی تھی۔ جو اس وقت دلتوں کے لئے نا ممکن تھا۔ آج حجاب کے اس مدعے کو کچھ اسی طرح کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم خواتین کو پردے جیسی اہم روایت کو ترک کر ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔ اور اسلام کی پاسداری سے سبکدوش ہونا ہوگا۔ یہ ان کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے سامنے بہت بڑا چیلینج ہے۔ حجاب پہن کر آنے والی طالبات کو اسکولوں اور کالجس۔میں اندر نہیں لیا جا رہاہے۔ ایک طرف والدین اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ دوسری طرف بچیوں کے بے پردگی کا خوف اور غم ہے۔ کچھ بچیاں حجاب کو اپنا بنیادی حق بتا کر لڑ رہی ہیں۔ تو وہیں کئی مسلم بچیاں بغیر حجاب کے کلاسس جوائن کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ فی الحال ایک کشمکش ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس پر خاموش ہے۔ ایک آدھ احتجاج کر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا سمجھ لیا گیا ہے۔ علما کرام تو بالکل خاموش ہیں۔ ہر بار کی طرح دعا اور صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ کورٹ کے فیصلے کا انتظار کروایا جا رہا ہے۔ جبکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ پچھلے ستر سالوں میں کوئی بھی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں آیا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ وقت سے پہلے ان لوگوں نے ہار مان لی ہے۔ حکومت کا خوف ان پر غالب آ چکا ہے۔ یہ ظلم کی انتہا ہو نہ ہو ہاں مگر ظلم سہنے کی انتہا ضرور ہے۔ معاملہ ہماری بہن بیٹیوں کی عزت و آبرو تک آ پہنچاہے باوجود اس کے مسلمانوں کی خاموشی افسوسناک ہے۔
خیر اس وقت معاملہ عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) میں ہے۔ سنوائی کے نام پر تماشہ چل رہا ہے۔ صرف گھنٹوں بحث ہو رہی ہے۔ فیصلہ نہیں آ رہا ہے۔ جس سے اندازہ جا سکتا ہے کہ اس معاملے کو طول دینا مقصد ہے۔ اسکول کالیجس کے امتحانات سر پر ہیں۔ مسلمان بچیوں کی پریشانی بڑھ رہی ہے کہ کیا ہوگا۔ اگر امتحانات ہونے تک فیصلہ نہیں آتا تو بغیر حجاب کے انتخابات لکھنے کے لئے جانا مجبوری ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سال بھر کی محنت ذائع ہو جائے گی۔ یعنی ایک طرف کنواں ایک طرف کھائی ہے۔ موت دونوں۔طرف منہ کھولے کھڑی ہے اب کنویں میں گرکر مرنا ہے یا کھا ئی میں گر کر یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ لیکن ابھی ہمارے نام نہاد لیڈر اور علماء کورٹ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ جبکہ جمہوری نظام مر چکا ہے۔ یا یوں کہیں کہ مار دیا گیا ہے۔ اگر جمہوریت زندہ ہوتی تو یہ مسئلہ اتنا بڑا نہ بنتا۔ ہندو راشٹر کا آئین لاگو ہونے سے پہلے ہی اس پر عمل جاری ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام کا کھلا اعلان کیا جمہوریت کا حصہ ہے؟ خواتین کے حقوق چھینا جانا کیا جمہوریت کا حصہ ہے؟ مسجد کی جگہ رام مندر کا فیصلہ کیا جمہوریت کا حصہ ہے؟ شریعت میں مداخلت کیا جمہوریت کا حصہ ہے؟ تین طلاق کا قانون کیا جمہوریت کا حصہ ہے؟ معصوم بچیوں پر ظلم کیا جمہوریت کا حصہ ہے؟ یہ سب جمہوریت کے خلاف جبرا” رائج کئے جا رہے فیصلے ہیں۔ جس کاصاف مطلب ہے کہ ہندوستان اب جمہوری ملک نہیں رہا۔
ان سب کے چلتے ایک بات خوب سمجھنے کی ہے کہ مسلمان کودیش کا دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔ سیکولرزم کو اب کوئی جگہ نہیں ہے۔ عنقریب اس بات کا ہم سب کو اندازہ ہو جائے گا۔ جب ووٹ دینے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔
*حجاب کا معاملہ کب تک چلے گا* حجاب کا معاملہ سپریم کورٹ تک جائے گا۔ کپیل سبل نے نین بینچ تک معملہ سونپنے کی بات کہی ہے۔ جو قابل غور ہے۔ کیوں اتنی جلد بازی دکھائی گئی؟ ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے سپریم کوٹ تک رسائی کی کیا ضرورت تھی۔ کیا یہ مسلمانوں سے ہمدردی ہے؟ مجھے تو ایسا۔نہیں لگتا۔ خیر جو بھی ہو معاملہ سپریم کورٹ جائے گا۔ دراصل اسے مرکزی مدعا بنایا جانا ہے۔ تاکہ پورے دیش میں حجاب پر پاندی عائد کی جا سکے۔ حجاب کو اس طرح پیش کیا جائےگا کہ آنے والے دنوں۔میں حجاب پہننے والوں سے دوری اختیار کی جائے گی۔ فی الحال اس طرح کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ جگہ جگہ حجاب کو لے کر تنازعات سامنے آئیں گے۔ حالانکہ اس وقت بھی کرناٹک کے علاوہ کئی ریاستوں میں حجاب کو لے کر تنازعات جاری ہیں۔ علی گڑھ میں فرقہ پرستوں نے حجاب کو لے کر ہنگامہ برپہ کیا اور برقعہ کو نذر آتش کیاہے۔ کل ملا کر پورے دیش میں اس معاملے کو ہوا دینے اور مسلمانوں کو حراساں کرنے کی مکمل کوشش جاری ہے۔
*حجاب کے بعد اگلا نشانہ کیا ہوگا؟* حجاب کے بعد اگلا۔نشانہ کیا ہوگا؟ یہ سوال جتنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ اتنا ہی اہم بھی ہے۔ اس لئے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ طوفان اب کسی صورت رکنے والا نہیں ہے۔ حجاب کے بعد یا اسی کے چلتے مسلمان مردوں کے لباس کو بھی ضرور نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مذہبی لباس جیسے جبہ داڑھی ٹوپی پر بھی ان کی گندی نظر ٹکی ہے۔ سوشیل میڈیا پر فرقہ پرستوں کی جانب سے اس پر حملے جاری ہیں۔ اذان کو لے کر ایک ہلکا سوشہ پہلے ہی چھوڑا جا چکا ہے۔ اب دوبارہ اس پر بھی بوال ضرور مچے گا۔ فی الحال آر ایس ایس کے گنڈوں کی جانب سے اذان کو بند کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ وقف پر حکومت کا قبضہ ہے۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں مسجدوں کا نظام وقف کے اشارے پر چلے گا۔ مسجد انتظامیہ وقف کی کٹپتلی بن کر رہ جائیں گے۔ ویسے بھی اماموں کو تنخواہ دے کر قابو میں کر لیا گیا ہے۔
مسلمان کیا کر رہے ہیں؟
مسلمانوں کے موجودہ حالات پر غور کیا جائے تو بے حسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہر خاص و عام اپنی سی زندگی میں مگن ہے۔ غریب کو کما کر کھانے سے فرصت نہیں تو امیروں کو عیاشی سے فرصت نہیں ہے۔ ایک طرف حجاب مسئلے کو لے کر ہماری بچیاں لڑ رہی ہیں۔ ان۔کا مستقبل داو پر لگا ہے تو دوسری طرف قوم کے بڑے بڑے لوگ ان سب سے بے خبر اپنی شان و شوکت میں چور ہیں۔ عرس اور قوالیوں کے اسٹیج پر جھوم رہے ہیں۔ شعرا حضرات مشاعروں میں حسن و عشق، لب و رخسار کے قصے سنا کر واہ واہی لوٹ رہے ہیں۔ یہاں ہماری بیٹیوں کے سروں سے چادریں چھینی جا رہی ہیں اور وہاں مزاروں پر مہنگی چادریں چڑھاکر عقیدت کا حق ادا کیاجا رہا ہے۔ گلی گلی میں لیڈر لاکھوں روپئے برتھ ڈے کے نام پر اڑا رہے ہیں۔ ایک طرف شادی کو سادی بنانے کی تحریک چلائی جاتی ہے۔ تو وہیں دن بدن مہنگی سے مہنگی شادیاں عروج پر ہیں۔ ڈالبی اور آرکیسٹرا والی شادی کو اسٹینڈرڈ سمجھا جا رہا ہے۔ یہاں شریعت پر حملے ہو رہے ہیں۔ مسلم خواتین کی عصمت تک معاملات پنچ چکے ہیں۔ اور مسلمان ابھی مسجدیں بنوانے میں لگے ہیں۔ لاکھوں کے مینار بنائے جا رہے ہیں۔ پچھلے ستر سا لوں یہی کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے قیام کو گناہ کی طرح ترک کر دیا گیا۔ جس کا صلہ آج ہماری بچیاں بگھت رہی ہیں۔
مسلمانوں کو کرنا کیا ہوگا؟
یہ ایک اہم سوال ہے کہ ان۔سب حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں لو آخر کرنا کیا ہوگا؟ اس وقت ہم ‘ڈو آر ڈائی” یعنی کرو یا مرو کے موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہاں کھل کر حالات کا سامنا کرنا ہی ایک واحد راستہ ہے۔ اس وقت ہم میدان جنگ میں ہیں۔ بگل بجا دیا گیا ہے۔ یہاں بزدلی کی موت مرنے سے بہتر ہے اپنے حق کے لئے ایمان کو بچانے اور اپنی نسلوں کے تحفظ کے لئے لڑنا ہوگا۔ بدر، احد اور خندق کے وقعات دل بہلانے کے لئے نہیں تھے۔ بلکہ سبق حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ آج ایک بار پھر اسی تاریخ کو دہرانے۔کا وقت ہے۔ اگر آج بھی ہم غفلت کی نیند سے نہیں جاگے تو ہماری نسلیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جائیں گی، ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔
Comments are closed.