قیام قضاء قرآن وسنت کی روشنی میں!

ازقلم: جسیم اختر مظاھری
قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ میراروڈ، ممبئی
قیامِ قضاء یعنی ایسا نظام جہاں مسلمانوں کے باھمی تنازعات بالخصوص عائلی مسائلوں میں گھریلو اور فیملی جھگڑوں کو اللہ کےاتارےھوئے قانون کےمطابق حل کیا جائے۔
یاد رھے کہ خدائی قانون (جن کا نفاذ اپنے بس میں ھے)کے مطابق معاملہ حل کرانا یہ فرض ھے۔ اس سے گُریز موجبِ وعید ھے؛کیوں کہ اللہ تعالیٰ جو ھماراخالق ھے۔ اُسی کا حکم مخلوق پر چلناچاھئیے۔ جس طرح خَلْق میں اور دوسری صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی طرح وہ اپنے حکم میں بھی کسی کو شریک نہیں بناتا۔
قرآن کی شہادت موجود ہے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا: خبردار۔ خَلْق یعنی پیداکرنا اور حکم فرمانا اسی کا کام ھے۔ حکم کسی کا نہیں۔ سوائے اللہ کے۔ اور اللہ اپنے حکم کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (اعراف:۵۳/انعام:۵۷/کہف:۲۶)
دراصل ھر دور اور ھر زمانہ میں انبیاء علیہم السلام نے اللہ کے اتارے ھوئے قانون کے مطابق لوگوں کے باہمی نزاعات کو حل فرمائے۔ چنانچہ سیدنا داؤد علیہ السلام کو حکم دیا گیا جو خود اللہ تعالیٰ کاقول حق ھے : کہ اے داؤد ھم نے تجھے ملک میں نائب بنایا،پس فیصلہ کر لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ اور نہ چل خواھش نفس پر کہ وہ تجھکو بھٹکادے اللہ کے راستے سے۔( ص: ۲۶) ۔
الغرض: اللہ کے قانون کے مطابق معاملہ کا تصفیہ کرنا انبیاء علیہم السلام، اھل اللہ اور علماء کا شعار رھا ھے، اس لئے کہ وہ کتاب اللہ کے محافظ تھے۔(مائدہ: ۴۴).
اب ھم یکے بعد دیگرے قیامِ قضاء کی فرضیت کے تعلق سے آیاتِ قرآنی (مفاھیمِ آیات) ترتیب وار پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ھو!
۱) پہلی آیت اطاعتِ خدائی قانون ونفاذ بین الناس : یعنی ھمارے آخر الزماں تاجدار مدینہ وشھنشاہ بطحی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی اور نبیوں کی طرح یہی حکم دیا گیا کہ لوگوں کے مابین نزاعات کا تصفیہ اللہ تعالیٰ کے اتارے ھوئے قانون کے ذریعہ کریں۔
چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور آپ پر ھم نے سچی کتاب اتاری، تصدیق کرنے والی سابقہ کتابوں کی، اور ان کے مضامین پر نگہبان، سو آپ لوگوں کے درمیان اللہ کے اتارے ھوئے قانون کے مطابق حکم فیصلہ کریں۔ اور حق راستہ چھوڑ کر لوگوں کی خوشی پر نہ چلیں۔ (مائدہ:۴۸).
۲) دوسری آیت اللہ کے قانون سے فرارموجبِ عذاب اوراطاعت باعثِ خیر: یعنی اللہ کے اتارے ھوئے قانون سے فرار عذاب کا موجب ھو گا۔ ایسا کرنا فسق ھے۔ یاد رھے کہ اللہ تعالی کا فیصلہ سب سے اچھا اور بھتر ھے۔ (مائدہ: ۴۹).
۳) تیسری آیت فرضی وعملی حکم : مسلمانوں کو حکم دیاگیا کہ اللہ تعالی، اس کے رسول اور اولی الامر (مسلمانوں میں سے حاکم، امیر، قاضی، عالم) کی اطاعت کریں اور اپنے باھمی تنازعات یعنی گھریلو جھگڑوں کو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی طرف لوٹائیں۔ اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے اور اسی میں( دین دنیا دونوں جگہ )خیر اور بھلائی اور انجام کی خوبی ھے۔( نساء:۴۹)
۴) چوتھی آیت اتباعِ حکم وعدمِ پیروی نفس: یعنی حکم دیا گیا ہے کہ رب کی طرف سے اتاری ھوئی شریعت کی اتباع کی جائے۔ دوسروں کی خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ (الجاثیہ:۱۸/اعراف:۳)
۵) پانچویں آیت تسلیمی وقطعی حکم:
مومن کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے نزاعات میں رسول الله ﷺ کو حاکم تسلیم کرے اور ان کے فیصلوں کے سامنے برضا ورغبت سر تسلیم خم کردے۔یادرھے! اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اس معاملہ میں کسی کا کوئی اختیار باقی نہیں رھتا۔ (نساء:۶۵/احزاب).
۶) چھٹی آیت فلاح و کامیابی والے: یعنی جب مسلمانوں کو خدا اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلوں کی طرف بلایا جائے تو ان کا طریقہ یہی ھوناچائیے” سمعنا واطعنا” یعنی ھم نے سن لیا اور ھم نے اطاعت کی۔ یاد رکھیں! خدائی قانون کے سامنےسمع وطاعت کا سر جھکادینا یہی راستہ فلاح کا ھے۔ (نور: ۵۱).
۷) ساتویں آیت بمتعلق زجروتوبیخ: اللہ تعالی کی اتاری ھوئی شریعت کو فیصلہ کی بنیاد نہیں بنانا سخت موجبِ وعید ھے۔ اس طریقہ کو قرآن نے تین لفظوں میں بیان کیاھے۔ قرآن نےایک جگہ کُفر، دوسری جگہ ظُلم، تیسری جگہ فسق سے تعبیر کیاھے۔ (مائدہ:۴۷/۴۵/۴۴).
۸) آٹھویں آیت منافقوں جیسی صفت رکھنے والے: یعنی ایک طرف ایمان کا دعویٰ اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول کے قوانین سے گریز کرنا۔ ایسے لوگوں کے لئے قرآن نے سخت مذمت کی ھے۔
(نساء: ۶۰/ نور: ۴۸).
مختصراً اکٹھی چند آیتوں کے مفہوم درج کئے گئے اور بھی مزید آیتیں ھیں، جن سے قیامِ قضاء کی فرضیت ظاھروباھر ثابت ھے۔ (مستفاد:اسلامی عدالت)
خلاصہ یہ ہے کہ ھمیں اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمایا ھے، پھر زندگی بخشی، چھوٹے سے جوان کیا، عقل و شعور دیا، غلط وصحیح نیز نفع ونقصان کو پہچاننے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کا احسان ھے۔ لہذا جو خالق ھے اسی کی اطاعت ھرآن اور ھمہ وقت ضروری ہے، ھمارے جسم وذات پر اسی حکم چلنا ضروری ہے، تنازعات کی صورت میں ھم اللہ اور اس کے رسول کے قانون کو (جس بجاآوری ھمارے بس میں ھے) چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا نہایت ھی خسارہ اور موجب عذاب ہے۔
اللہ ھمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔آمین
نوٹ:قیامِ قضاء کا ثبوت سنت سے، یہ دوسری اشاعت میں ان شاءاللہ۔ منتظر رھیں۔

 

Comments are closed.