شب معراج کے بدعات کی حقیقت

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ :”۲۷/رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے ، اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے ، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے؛ بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“ اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دئیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں ، خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں ، خوب سمجھ لیجئے:یہ سب بے اصل باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷/ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے ؛ کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں آنحضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے اس سے آپ خوداندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی،اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا؛لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷/رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷/رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے ، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیااور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی ، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ۲۷/رجب کی شب کو حاصل نہیں ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایات کے مطابق)یہ واقعہ معراج سن ۵/ نبوی میں پیش آیا ، یعنی حضور ﷺ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شبِ معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد۱۸/ سال تک آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا حکم دیاہو ، یااس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، نہ تو آپ کا ایسا کو ئی ارشاد ثابت ہے ،اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے ، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکارِ دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینا میں موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷/رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو؛ لہٰذا جو چیز حضورِ اکرم ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی ، اس کودین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قراردینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسامعاملہ کرنا بدعت ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (العیاذ باللہ)حضور ﷺ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل کیا تو میں اس کو کروں گا تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں“(اصلاحی خطبات :۱/۴۸-۵۱،میمن اسلامک پبلشرز)
”حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا؛ لہٰذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے؛لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔“(اصلاحی خطبات:۱/۵۱،۵۲، میمن اسلامک پبلشرز)
ہزاری روزہ
عوام میں یہ مشہور ہے کہ ۲۷/ رجب کو روزہ کی بڑی فضیلت ہے؛ حتی کہ اس بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس ایک دن کے روزے کا اجر ایک ہزار روزے کے اجر کے برابر ہے، جس کی بنا پر اسے ”ہزاری روزے “کے نام سے جاناجاتا ہے؛حالانکہ شریعت میں اس روزے کی مذکورہ فضیلت صحیح روایات میں ثابت نہیں ہے،اس بارے میں اکثر روایات موضوع ہیں اور بعض روایات جو موضوع تو نہیں، لیکن شدید ضعیف ہیں، جس کی بنا پر اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے اعتقاد یا اس دن کے روزے پر زیادہ ثواب ملنے کے اعتقاد پر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے،اس بارے میں اکابرین، علماء امت نے امت کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی خاطر راہنمائی کرتے ہوئے فتاوی صادر فرمائے ،جو ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں :
”فتاویٰ رشیدیہ “:
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ماہِ رجب میں ہونے والی ”رسمِ تبارک“ اور ”رجب کے ہزاری روزے“ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اِن دونوں امور کاا لتزام نادرست اور بدعت ہے اور وجوہ اِن کے ناجائز ہونے کی (کتاب)اصلاح الرسوم، براہینِ قاطعہ اور اریجہ میں درج ہیں“(فتاویٰ رشیدیہ،ص:۱۴۸،ادارہ اسلامیات)۔
”فتاویٰ محمودیہ“ :
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”ماہِ رجب میں تواریخ ِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں ؛ لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہٴ صحت کو نہیں پہنچتیں ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ما ثبت بالسنة“میں ذکر کیا ہے کہ:”بعض (روایات) بہت ضعیف اور بعض موضوع(من گھڑت)ہیں“۔(فتاویٰ محمودیہ:۳/۲۸۱،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:”عوام میں ۲۷/ رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے؛ مگر وہ غلط ہے، اس فضیلت کا اعتقاد بھی غلط ہے، اِس نیت سے روزہ رکھنا بھی غلط ہے،”ما ثبت بالسنة “میں اِ س کی تفصیل موجود ہے۔“(فتاویٰ محمودیہ:۱۰/۲۰۲،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ :
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جسے عوام”ہزارہ روزہ“کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں ، اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔ “(فتاویٰ دارالعلوم دیو بند مکمل و مدلل:۶/۴۰۶، مکتبہ حقانیہ ، ملتان)
”فتاویٰ رحیمیہ “:
حضرت مولانا مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :”ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں، وہ موضوع اور ضعیف ہیں ، صحیح او ر قابل ِ اعتماد نہیں؛ لہٰذا ستائیسویں رجب کا روزہ عاشوراء کی طرح مسنون سمجھ کر ہزار روزوں کا ثواب ملے گا، اس اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے“۔(فتاویٰ رحیمیہ :۷/۲۷۴، دارالاشاعت،کراچی)
”بہشتی زیور “:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (رجب کے چاند کے بارے میں )لکھتے ہیں کہ:”اس کو عام لوگ ”مریم روزہ کا چاند“کہتے ہیں،اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک روزہ میں ہزار روزوں کا ثواب ملتا ہے، شرع میں اس کی کوئی قوی اصل نہیں ، اگر نفل روزہ رکھنے کو دل چاہے، اختیار ہے، خدا تعالیٰ جتنا چاہیں ثواب دیدیں، اپنی طرف سے ہزار یا لاکھ مقرر نہ سمجھے ، بعضی جگہ اس مہینے میں ”تبارک کی روٹیاں“پکتی ہیں، یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے، شرع میں اس کا کوئی حکم نہیں ، نہ اس پر کوئی ثواب کا وعدہ ہے، اس واسطے ایسے کام کو دین کی بات سمجھنا گناہ ہے“۔(بہشتی زیور:۶/۶۰،دارالاشاعت، کراچی)
”عمدة الفقہ“:
حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”ہزاری روزہ یعنی ستائیس رجب المرجب کا روزہ ، عوام میں اس کا بہت ثواب مشہور ہے، بعض احادیثِ موضوعہ (من گھڑت احادیث)میں اس کی فضیلت آئی ہے؛ لیکن صحیح احادیث اور فقہ کی معتبر کتابوں میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ بعض روایات میں ممانعت آئی ہے، پس اس کو ضروری اور واجب کی مانند سمجھ کر روزہ رکھنا یا ہزار روزہ کے برابر ثواب سمجھ کر رکھنا بدعت و منع ہے“۔(عمدة الفقہ: ۳/۱۹۵،زوار اکیڈمی)
خلاصہ کلام
مندرجہ بالا تفصیل سے ۲۷/ رجب کے روزے کی بے سند و بے بنیادمشہور ہوجانے والی فضیلت کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے،کہ اس دن کو خاص فضیلت والا دن سمجھ کر یا خاص عقیدت کے ساتھ مخصوص ثواب کے اعتقاد سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
اللہ رب العزت محض اپنے فضل وکرم سے صحیح نہج پر اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اور ان کو اوروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
Comments are closed.