فلسفہ معراج : عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

شمیم اکرم رحمانی
معاون قاضی شریعت مرکزی دارالقضا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نبوت سے سے سرفرازکیے جانے کے بعد اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب کار نبوت کی انجام دہی میں مشغول ہوئے تومصیبتوں کے تسلسل نے آپ کا جینا دوبھر کردیا۔سیرت اور تاریخ اسلام کی تمام کتابیں شاہد ہیں کہ تبلیغ دین کے نتیجے میں آپ پر پھول نہیں برسائے گئے بلکہ راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، خون اور نسل کے باندھے ہوئے تمام عہد وفا توڑ کر ظلم و بربریت کے وہ ریکارڈ بنانے گئے جن کا تذکرہ کرنا بھی آسان نہیں ہے ، قریش مکہ کی جانب سے دی جانے والی اذیتیں جب انتہا کو پہنچ گئیں، اور آپ کو اپنی کوششیں بظاہر بہت زیادہ بارآور ہوتی ہوئی نظر نہیں آئیں تو آپ نے مکہ کے علاوہ دیگر مقامات میں دعوت حق پھیلانے پر غور فرمایا اور اس مقصد کے لیے سب سے پہلے مکہ کے قریبی علاقے طائف کو منتخب کیا چنانچہ بعثت کے دسویں سال آپ حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ طائف پہونچے، کچھ دن وہاں ٹہرے، اور لوگوں کے سامنے اللہ کا دین پیش کیا لیکن سب کی طرف سے بے رخی کا مظاہرہ ہوا، آخر کار آپ طائف کے سرداروں عبدیالیل ، مسعود اور حبیب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان بدقسمتوں نے بھی آپ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت گستاخانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے آپ کا مذاق اڑایا اور وہاں کے اوباشوں کو جسم اطہر پر پتھر مارنے کے لیے لگا دیا، اوباشوں نے اس قدر پتھر مارے کہ خون سے نعلین مبارک بھر گئے، تفصیل کا یہاں موقع نہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ سفر طائف رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی اذیتوں اور آزمائشوں کا نقطہ عروج ہے،جبرمسلسل کے بعد اس سے آگے کسی اور جبر کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، چنانچہ ’’ہر کمالے رازوالے‘‘ کے اصول کے تحت رحمت خداوندی کے متوجہ ہونے کا وقت آیا، بلکہ رحمت خدا وندی متوجہ ہوئی، عرش بریں سے بلاواآیا اور آپ معراج کے سفر پر تشریف لے گئے، مشہور قول کے مطابق سفر معراج نبوت کے بارھویں سال اور رجب کی ستائیس تاریخ کو پیش آیا۔جس کا پہلا حصہ اسراء ہے، قرآن مجید نے اچھوتے انداز میں جامعیت اور اختصار کے ساتھ اسرا کی ضروری تفصیل کو بیان کیاہے جس کاترجمہ حسب ذیل ہے:
’’پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے لے کر مسجد اقصی تک کی سیر کرادی، جس کے اردگرد ہم نے برکتیں دے رکھی ہیں، تاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والاہے۔‘‘(بنی اسرائیل۔۱)
مذکورہ آیت سے واضح ہے کہ اللہ کے نبی نے اسرا کے سفر کا آغاز مکہ مکرمہ سے فرمایا اور اس مبارک سفرکااختتام بیت المقدس پرہوا۔ البتہ مکہ مکرمہ کی کس جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا آغاز فرمایا اس کی تفصیل کتب احادیث میں موجودہے جس میں بظاہر اختلافات بھی نظر آتے ہیں لیکن جن مقامات کا تذکرہ موجود ہے وہ سب آس پاس ہی میں ہیں اسی لیے فی الواقع وہ اختلافات محض لفظی نوعیت کے ہیں اور یہ بات سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی کے گھر سے حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ سفر معراج پر نکلے، حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت ام ہانی کے گھر آئے اور وہاں سے آپ کو لے کر پہلے حطیم کعبہ اور پھر بئر زم زم کے پاس گئے جہاں شق صدر کا واقعہ بھی پیش آیا،بعد ازاں حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں ہی آپ بیت المقدس تشریف لے گئے، بیت المقدس میں تمام انبیائے کرام کی امامت فرمائی، اور پھر وہاں سے معراج کے سفر پر نکلے، لیکن بیت المقدس کے بعد کے سفر کا ذریعہ کیا تھا، کیا بذریعہ براق ہی آسمانی دنیا پر آپ تشریف لے گئے تھے؟ اس سلسلے احادیث کے اندر واضح گفتگوموجودنہیں ہے ۔البتہ بعض روایات سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ آپ کے لیے ایک مخصوص اور نورانی سیڑھی نصب کی گئی جس کے واسطے سے آپ معراج کے سفر پر نکلے،چنانچہ جب آپ آسمان پر پہونچے تو مختلف آسمانوں پر مختلف انبیا ئے کرام سے ملاقاتیں ہوئیں ، حضرت آدم، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم الصلوات والتسلیمات سے ملاقات کا تذکرہ روایات میں موجودہے۔بعد ازاں آپ سدرۃ المنتہیٰ تشریف لے گئے جہاں پر آپ نے جبریل امین کو اصلی صورت میں دیکھا، نیز اللہ جل شانہ کی تجلیات و انوارات کا مشاہدہ کیا۔یہاں سے مقام صریف الاقلام اور پھر مقام صریف الاقلام سے بارگاہ ِ قدس میں پہنچے، وہاں بارگاہِ الہیٰ میں سجدہ بجالایا، بلاواسطہ کلامِ خداوندی سے سرفراز ہوئے، قرآن مجیدکی سورۃ النجم کی ابتدائی آیتوں میں انتہائی بلیغ انداز میں معراج کی کچھ تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ روایات کے مطابق بارگاہ قدس میں آپ کو پچاس نمازوں کا تحفہ عطا ہوا جو گھٹ کر پانچ رہ گئیں۔ روایت میں موجود ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید تخفیف کرانے کے لیے کہالیکن اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اب مزید تخفیف کی درخواست کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ (مسلم شریف 163)
معراج کا سفر جب مکمل ہوا تو آپ آسمانی دنیا سے بیت المقدس تشریف لائے اور پھر صبح ہونے سے قبل بیت المقدس سے مکہ مکرمہ آئے،صبح ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کو معراج کا واقعہ بتایا،تو چہ میگوئیوں کا بازار گرم ہو گیا، کفار مکہ مذاق اڑانے لگے، الٹے سیدھے سوالات کرنے لگے، اسی دوران کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ وہ راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کو گئے ؟‘‘انہوں نے فرمایا: کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟کفار مکہ نے کہا: جی ہاں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا اگر انہوں نے کہا تو بلاشبہ سچ کہا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسی واقعہ کے بعد آپ آپ کا لقب صدیق پڑا، گرچہ واقعہ معراج سے باخبر ہونے کے بعد تمام مسلمانوں نے واقعہ معراج کی تصدیق کی تھی لیکن اگر پس منظر کو سامنے رکھاجائے تو حضرت ابوبکر صدیق کی تصدیق بڑی اہمیت کی حامل نظر آتی ہے۔
واقعہ معراج کا حق ہونا قرآن مجید کے ساتھ بے شمار روایات سے ثابت ہے، کم از 25/صحابہ کرام سے معراج کا واقعہ منقول ہے اس لیے واقعہ معراج کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے جو لوگ محض عقل کی بنیاد پر اور سفر معراج کے مختصر وقت میں مکمل ہونے کی وجہ معراج کاانکار کرتے ہیں وہ نہ عقل کی حقیقت سے واقف ہیں اور نہ ہی معجزہ کی تعریف سے آشنا، لہٰذاان کا انکار بھی قابل تعجب نہیں، بقول علامہ اقبال
تو معنی’’ والنجم ‘‘ نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج
ہاں یہ سوال اہم ہے کہ سفر معراج خواب میں پیش آیا عالم بیداری میں؟ سوال کی اہمیت کی وجہ روایات کا ظاہری اختلاف ہے، علمائے کرام جانتے ہیں کہ دونوں موقف کی تائید میں بظاہر روایات موجود ہیں، جس کی وجہ سے فطری طور علماء کی آراء مختلف ہوئی ہیں چنانچہ جمہور علماء جہاں معراج کے عالم بیداری میں ہونے کے قائل ہیں وہیں بعض علما معراج کے عالم خواب میں ہونے کے بھی قائل ہیں تاہم جمہور علماء کا موقف زیادہ درست ہے، اسی لیے اگر معراج کا واقعہ خواب میں پیش آتا تو کفار مکہ واقعہ معراج کو سننے کے بعد اس کا انکار کیوں کرتے؟خواب میں تو کوئی بھی کچھ دیکھ سکتا ہے جس کا بدیہی ہونا کفار مکہ کے نزدیک بھی مسلم تھا حتی کہ آج کے سائنسی دورمیں بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی چند منٹوں میں سیر کی تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے، ہاں اس بات کا قوی امکان ہے کہ عالم خواب میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معراج کا واقعہ پیش آیا ہو، اس صورت میں بات بہت واضح ہوجاتی ہے، دونوں طرح کی روایات کا محمل بھی متعین ہوجاتا ہے، ان تمام باتوں سے قطع نظر سائنسی ترقی کے اس دور میں یہ بات زیادہ اہم ہے کہ معراج النبی کا واقعہ انسانی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے،جس کے نتیجے میں تسخیر کائنات کے بند دروازوں کو کھولنے کی ابتدا ہوئی ہے، آج سے چند سو برس قبل انسان جن باتوں کے وقوع کے از روئے عقل محال تصور کرتا تھا،وہ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے،چنانچہ انسانی علم اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے جہاں ہوائی جہاز فضائوں میں محو پرواز ہیں، وہیں بے شمارسیٹلائٹ خلا میں مْعلّق ہیں، بلکہ انسان کی بنائی ہوئی راکٹ کی طاقت سے خلائی شٹل چاند پر پہنچی اور واپس صحیح سالم اْتر آئی، اس طرح سے آنے والے دنوں میں انسان مزید کس برق رفتاری سے ترقی کرے گا اور معاملہ کہاں تک جائے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خلائی سفر کا نقطہ آغاز سفر معراج ہی ہے، جو تاریخ انسانی کا سب سے لمبا اور سب سے کم وقتوں میں مکمل ہونے والا وہ سفر ہے جو اپنے اند بے شمار نصائح رکھنے کے ساتھ ساتھ انسان کا مقام و مرتبہ بتاتاہے اور انسانی ترقی کا رخ بھی متعین کرتا ہے، بقول اقبال :
سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردْوں
سفر معراج کی معنویت شروع سے ہی تسلیم شدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کی معنویت پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے دروس و نصائح کے بے شمار پہلوؤں کو اہل علم نے اجاگر کیا ہے، جن میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری انسانیت کا نبی ہونا،سابقہ تمام شریعتوں کا منسوخ ہونا ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں گہرے ربط کا ہونا،پیغامات رسول کی تصدیق کا واجب ہونا خواہ وہ خلاف عقل ہی ہوں،بیت المقدس کی حفاظت کا مسلمانوں کے ذمہ ہونا اور اخلاص کے ساتھ کی گئی کوششوں کا بارآورہونا اہم ہیں۔
٭٭٭٭

 

Comments are closed.