Baseerat Online News Portal

سرکاری ملازمتوں کے حصول کی کوشش : ایک قومی فریضہ

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

قرآن مجید کی سورہ نمبر 62 کا نام ’’جمعہ‘‘ ہے ،جو گیارہ آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے ،اسی کے دوسرے رکوع آیت نمبر9 تا 11 میں نماز ِجمعہ کے احکام بیان کئے گئے ہیں ، بعض احکام صراحتاذکر کیے گئے ہیں اور بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس میں ہدایت دی گئی ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو لوگوں کو فورا مسجد کی طرف نکل جانا چاہیے ؛تاکہ وہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ جمعہ کا خطبہ بھی سن سکیں اور فرمایا گیا ہے کہ اذان کے بعد اپنے کاروبار کو بند کر دو،پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تواب زمین کی وسعتوں میں رزق کی تلاش کے لئے پھیل جاؤ اور اللہ تعالی کا فضل یعنی روزی تلاش کرو۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس ارشاد میں رزق کو اپنا’’فضل‘‘قرار دیا ہے ،یعنی حقوق واجبات کو ادا کرنے اور عزت و خود داری کے ساتھ اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے کسبِ معاش کی جدوجہد میں شامل ہونا اور اس کی تگ و دو کرنا کوئی بری بات نہیں ہے،جیسے اذان کے بعد نماز کے لئے آنا اللہ تعالی کا حکم ہے، اسی طرح نماز سے پہلے اور نماز کے بعد فارغ اوقات میں میں کسبِ معاش کی کوشش بھی دین کا ایک اہم حکم ہے۔

پس یہ آیت دین اور دنیا کوساتھ لے کرچلنے کے سلسلے میں بنیادی اصول کو واضح کرتی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی ضرورتوں کے لیے جدوجہد اور اللہ تعالی کے حق کو ضائع کئے بغیر بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہر مسلمان کا فریضہ ہے،اس کی کیا صورت ہو؟اس کی تفصیل لوگوں کی پسنداور ان کی صلاحیت پر چھوڑ دی گئی ہے،بعض مذاہب میں مختلف قبائل کے لوگوں کے لیے پیشے متعین تھے ، وہ اسی پیشے کے ذریعے کسبِ معاش کر سکتے تھے ،خاص کر ہندوستان میں ذات پات کی تقسیم کاجو غیر انسانی اور نامنصفانہ نظام مروج تھا، اس میں پیشے مقرر تھے اور بہت سختی کے ساتھ پابندی کی جاتی تھی کہ شودر برہمن اور اپنے سے اونچی ذاتوں کے پیشے اختیار نہیں کرسکتے ،قرآن نے اس آیت میں اس تصور کو رد کیا ہے اور کہا ہے :رزق کی تلاش کے لیے زمین میں پھیل جاؤ ،یعنی روزگار کے جتنے مواقع موجود ہیں،ان سے استفادہ کرو، کھیتی ،شجر کاری ،تجارت ،مویشی پالن ،صنعت و حرفت یا ملازمت، کسبِ معاش کی تقریبا تمام صورتوں کا قرآن و حدیث میں ذکر موجود ہے۔

معاش کے مختلف ذرائع میں سے ایک جائز اہم ذریعہ’’ملازمت‘‘ بھی ہے،جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’اجارہ‘‘بھی کہتے ہیں ، اجارہ اشیاء کا بھی ہوتا ہے جیسے مکان کو کرایہ پر حاصل کرنا ،اجارہ وقت کا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے اس کا وقت حاصل کیا جائے،جیسے ٹیچر سے تدریس کے لیے ،اور اجارہ عمل کا اور کام کا بھی ہوتا ہے جیسے کوئی شخص آپ کا کوئی سامان آپ کی منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرے اور اس کی اجرت متعین ہو، یہ ساری صورتیں جائز ہیں اور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ,موجودہ دور میں شہری زندگی میں کسب معاش کے دو ذرائع بہت اہم ہیں،ایک: تجارت، دوسرے: ملازمت،تجارت میں سرمایہ لگانا پڑتا ہے؛ اس لیے جو غریب و نادار لوگ ہیں وہ اس سے استفادہ نہیں کر پاتےہیں ، اور ملازمت کے لیے پہلے سے کسی سرمائے کی ضرورت نہیں، اور اس میں ایک متعین تنخواہ ملتی ہے جو کارکنان کے لیے اطمینان کا باعث بنتا ہے،اس لیے یہ کسبِ معاش کی نسبۃ آسان صورت ہے۔

ہمارے ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے جس میں بعض کام افرادی وسائل سے پورے کیے جاتے ہیں اور بعض مشینوں کے ذریعے انجام پاتے ہیں ،جہاں آبادی کم ہو ،وہاں مشین اور ٹیکنالوجی مفید ثابت ہوتی ہے اور کم پیسوں میں زیادہ آمدنی حاصل ہو جاتی ہے،اور جہاں آبادی زیادہ ہو جیسا کہ ہمارا ملک ہے، وہاں مشینوں کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ افرادی وسائل سے فائدہ اٹھانا بہتر ہوتا ہے ؛کیونکہ اس سے زیادہ لوگوں کو روزگار حاصل ہوتا ہے ،اور جب روزگار حاصل ہوتا ہے تو لوگوں کی قوتِ خرید کو بھی فروغ ملتا ہے،حکومت کو ٹیکس کی زیادہ آمدنی بھی ہوتی ہے،اور ہر جہت سے یہ بات مفید ہوتی ہے،اِدھر 2014 کے بعد سے سرکاری ملازمت میں نئی تقرری کا سلسلہ بڑی حد تک موقوف کردیا گیا تھا،بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے بے فائدہ مسائل اٹھائے جاتے ہیں،نفرت کا ایجنڈہ تلاش کیاجاتا ہے،اور اس کو پوری قوت کے ساتھ چلایا جاتا ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ اصل اور حقیقی مسائل کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹی رہے،بڑی مشکل سے حکومت نے خالی جگہوں کو پُر کرنے کی کوشش کا اعلان کیا ہے،مرکزی حکومت کی طرف سے بھی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے بھی،جس میں اعلیٰ ملازمتوں کے مواقع بھی ہیں،اور درجہ چہارم کے لئے بھی تقرری کا اعلان کیا گیا ہے،اس اعلان میں مذہب،نسل اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے،اگر چہ انٹرویو لینے والے عہدہ داروں میں بہت سے لوگ اپنی آنکھوں پر تعصب کے چشمے لگائے رہتے ہیں،لیکن صلاحیت بہر حال اپنے آپ کو منوالیتی ہے،اور تمام عہدہ داران تنگ نظر اور متعصب نہیں ہوتے ،اس کی مثال ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہے۔

اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان نوجوان،ہنر مند اور مختلف ڈگریوں کے حاملین پوری محنت اور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں،اور حوصلہ نہ ہاریں ،خاندان میں اگر ایک فرد کے لئے سرکاری ملازمت حاصل ہوجائے تو پورے خاندان کے حالات بدلتے ہیں،وہ خود بھی باعزت زندگی گزارتا ہے اور خاندان کے دوسرے کمزور اور پریشان حال لوگوں کے بھی کام آتا ہے،خاندان کے بچے تعلیم کے راستہ پر چل پڑتے ہیں،اگلی نسلوں کی زندگی بدلتی ہے،اور ان کو سماج میں عزت حاصل ہوتی ہے،اور ان میں بھی تعلیم کا جذبہ پروان چڑھتا ہے،اگر شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ملازمت میں مسلم وغیر مسلم اور حکومت کی ملازمت ياپرائویٹ ملازمت میں کوئی فرق نہیں ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے دس سال حضرت شعيب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں،یہ گویا پرائیوٹ ملازمت کی شکل ہے،حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا، یہ حکومت کی ملازمت ہے،اور وہ بھی ایک ایسی حکومت کی جس میں غیر مسلموں کو غلبہ حاصل ہے،ممانعت صرف ایسی ملازمت کی ہے جس میں انسان کو خلاف شرع کام کرنا پڑے،جیسے: سودی لین دین کا ذریعہ بننا پڑے،جوئے میں شرکت ہو،مال حرام کی تجارت کرنا پڑجائے وغیرہ،اگر کوئی ملازمت ایسی ہو جس میں بعض دفعہ خلاف شرع کام بھی ہوا کرتے ہو مگر وہ اس ملازمت کا مقصود نہیںہوتے،اور وہ اصل مقصد کے اعتبار سے جائز ہو تو اس کی ملازمت بھی درست ہے،جیسے: محکمہ پولس کے لوگوں کا ظلم و زیادتی میں شریک ہونا عام بات ہے؛ لیکن اس کا اصل مقصد امن و امان کو قائم رکھنا ہے جو ایک جائز مقصد ہے،اس لئے اس شعبہ کی ملازمت اختیار کرنا نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ موجودہ حالات میں فوج اور پولس میں شامل ہونے کی مسلمانوں کو خصوصی کوشش کرنی چاہیے ؛تاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی نمائندگی ہو۔

یہ ملک کی بھی خدمت ہے،قوم کی بھی،اپنے لئے بھی سربلندی کا ذریعہ ہے،اور قوم کے لئے بھی عزت و وقار کا سبب ہے،جب ہم مسجد سے باہر نکلتے ہیں اور دونوں طرف ٹوپی اور برقعہ پہنے ہوئے بھکاری مردوں اور عورتوں کی لائن نظرآتی ہے،تو کیا اس سے صرف اس شخص کی رسوائی ہوتی ہے؟،نہیں،بلکہ یہ پوری قوم کے چہرہ پر ذلت و رسوائی کا بدنما داغ ہے،آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ جسم فروشی کے اڈے پر دھاوا بولا گیا،اور اس میں فلاں فلاں عورتیں گرفتار ہوئیں،جن کے نام مسلمانوں کے سے ہوتے ہیں،کیا یہ واقعہ پوری ملت کو شرمسار نہیں کرتا؟آئے دن ایسی داستانیں اخبارات کی زینت بنتی ہیں،جن کے مطابق مسلمان خواتین نے غیر مسلم مردوں کےہاتھ تھام لئے، اس سے بڑھ کر شرم کی بات اور کیا ہوگی؟، یہ اور اس طرح کے واقعات کے پیچھے جو چیز کارفرما ہوتی ہے،وہ ہے’’غربت و افلاس‘‘اور’’بے روزگاری‘‘اس لئے مسلمانوں کا مزاج بننا چاہیے کہ وہ محنت و مزدوری کریں،کسی بھی حلال کام کو چھوٹا نہ سمجھیں،کسب معاش کی جد وجہد میں آگے بڑھیں،شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے معاشی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دیں اور ملازمت کے جو بھی مواقع ملیں ،ان کو حاصل کرنے کی بھرپور جد وجہد کریں۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.