Baseerat Online News Portal

سرکار کی ” اگنی پرکچھا ” کرے تو کیا کرے   

محمد طاہر ندوی

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر

 

بات کی شروعات ایک لطیفہ سے کرتے ہیں جو آج کل سوشل میڈیا میں کافی وائرل ہو رہا ہے کہ فوجیوں کو ” اگنی ویر ” سمجھ نہیں آیا۔ مسلمانوں کو ” سی اے اے ” سمجھ نہیں آیا۔ کسانوں کو ” زرعی قانون ” سمجھ نہیں آیا۔ کاروباریوں کو ” جی ایس ٹی” سمجھ نہیں آیا۔ تاجروں کو ” نوٹ بندی ” سمجھ نہیں آیا۔ صرف ایک ہی” عقل مند ” قوم بھارت میں رہتی ہے وہ ہے ” اندھ بھکتوں کی قوم ” کوئی بھی سرکاری اسکیم آئے سب سے پہلے انہیں سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اب پتا نہیں یہ اتنے عقل مند ہو کر بھی یہاں کیا کر رہے ہیں جبکہ انہیں تو یورپ کے کسی ترقی یافتہ ملک میں یا ” ناسا ” کی کسی سائنسی لیبارٹری میں ہونا چاہئے تھا۔

فوج میں شمولیت کو لے کر اگنی ویروں کے لئے بھارت سرکار ایک اسکیم لاتی ہے جس میں فوج میں بحالی کی مدت صرف چار سال رکھی گئی تھی۔ لیکن دیش کے "اگنی ویروں” کو اس اسکیم میں مودی سرکار کی” لالی پاپ ” نظر آنے لگی اور وہ سمجھ گئے کہ اگنی پتھ کے نام پر ہمیں ” لالی پاپ ” دیا جا رہا ہے۔ یہ اسکیم اس وقت بھارت سرکار کے گلے کی ہڈی بن گئی جب پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاجات ہونے لگے۔ اگنی پتھ کے خلاف احتجاج کی آندھی بہار سے شروع ہوئی اور دھیرے دھیرے راجستھان سے اتر پردیش، مدھیہ پردیش سے اتراکھنڈ، ہریانہ سے بنگال اور تلنگانہ ہوتے ہوئے ساؤتھ بھارت تک پہنچ گئی۔

اگنی ویروں کی آگ سینے سے نکل کر ملک کو جلا رہی ہے۔ صرف بہار کے مظاہرین نے بیس سے زیادہ ٹرینوں کو آگ کے حوالے کر دیا ہے۔ اتر پردیش کے لکھیم پور، بلیا اور علی گڑھ میں بھی ٹرینوں کو جلا دیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے اندور میں ٹرین کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ حیدرآباد کے سکندرآباد میں ٹرین کو آگ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

کئی اسٹیشنوں کو توڑ پھوڑ کر تہس نہس کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ بسوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ سڑکوں اور ہائیویز کو بند کر دیا گیا ہے۔ پبلک گاڑیوں اور پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا ہے۔ 

اس آندھی کی لپیٹ میں بی جے پی کے کچھ دفاتر راکھ میں تبدیل ہو گئے تو کچھ پر حملے ہوئے ہیں، عالی شان عمارتیں زمیں بوس ہو گئی ہیں، بی جے پی کے کئی لیڈرز اور ایم ایل ایز ” جان بچی تو لاکھوں پائے ” کہتے ہوئے بھاگتے نظر آئےہیں۔ اس آندھی کو روکنے کے لئے سرکار نے ” بابائے سیاست "کی پرانی روایت دہراتے ہوئے ” شری راج ناتھ سنگھ” نے اپوزیشن پارٹیوں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسٹوڈنٹس کی آڑ میں مخالف پارٹیاں سازش کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کے ہی ایک اہم لیڈر جناب ملت فروش، ضمیر فروش، شاہ نواز حسین نے بھی سرکار کی چاپلوسی اور جی حضوری کرتے ہوئے کہہ دیا کہ کچھ طاقتیں معصوم نوجوانوں کے کندھے پر سوار ہو کر اس آندولن کے ذریعے تشدد کے راستے پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ البتہ اس پورے معاملے میں ایک بات اچھی رہی کہ اب تک پڑوسی ملک کا نام کسی گودی میڈیا میں نہیں آیا ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں بھی حاشیہ پر رہتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کر تے ہوئے نظر آ رہی ہیں جبکہ انہیں اس معاملے کا پورا پورا فایدہ اٹھانا چاہئے تھا۔ لیکن وہ ٹویٹر اور فیس بک پر ہی سرکار کی ” کان کھنچائی ” کرکے اپنا حقِ اپوزیشن ادا کر رہی ہیں۔ مسلم رہنماؤں اور ملی تنظیمیں بھی گوشئہ تنہائی سے نکلنا نہیں چاہتی۔ شاید حکمت و مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ابھی گرمی کی شدت بہت زیادہ ہے موسم ذرا خوش گوار ہو تو گھروں سے نکلیں۔ البتہ کچھ سیکولر مسلمان اور سوشل ایکٹوسٹ ضرور یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان مظاہرین کو کب گرفتار کیا جائے گا؟ ان کے گھروں پر ” بلڈوزر بابا ” بلڈوزر لے کر کب جائیں گے ؟ کیا ان پر ” یو اے پی اے ” اور ” این ایس اے ” جیسے سخت قوانین لگائے جائیں گے یا یہ ساری سہولیات صرف مسلمانوں کے لئے ہے؟ تو ان کی جانکاری کے لئے بتا دیں کہ ان پر کوئی دھارا نہیں لگے گا کیونکہ یہ اگنی مظاہرین ہیں دنگائی یا فسادی نہیں ہیں۔

سرکار کی” اگنی پرکچھا ” شروع ہو چکی ہے۔ دھیرے دھیرے یہ اپنے اسکیم میں تبدیلی لا رہی ہے۔ تاکہ اگنی ویروں کی آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکے اور انہیں جھانسا دیا جا سکے جیسا کہ اب تک سرکار کی پرانی روایت رہی ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ” اگنی پتھ اسکیم ” کے تحت چار سال کی مدت پوری کرنے والے افراد کو ” سی اے پی ایف ” اور ” آسام رائفلز ” میں ہونے والی بھرتیوں میں 10 فیصد ریزرویشن دیا جائے گا۔ جبکہ ” دی ہندو ” کی رپورٹر ” وجیتا سنگھ ” کی پولیس آرگنائزیشن رپورٹ کے مطابق پچھلے چار سالوں میں” سی اے پی ایف ” میں شمولیت کو لے کر 80 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ 2020 میں کل 1.29 لاکھ ویکنسیز تھی جس میں 10,184 افراد کو نوکری دی گئی۔ 2017 میں 77,153 ویکنسیز تھی جس میں 58,396 افراد کو نوکری دی گئی ہے۔ 

یہ تو پولیس آرگنائزیشن کی رپورٹ ہے جو بتا رہی ہے کہ سرکار کے پہلے کی ویکنسیز کو اب تک نہیں بھرا گیا ہے تو ایسے میں وزارت داخلہ کا یہ کہنا کہ ” سی اے پی ایف اور آسام رائفلز ” میں نوکری دی جائے گی محض جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگنی ویروں کو چاہئے کہ وہ صرف ایک ہی نعرہ لگائیں جو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے ” وردی دو یا ارتھی دو "۔ باقی ملک کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں ۔ آپ کا دل جلا ہے اس کا احساس ہے لیکن دیش بھی جل رہا ہے آپ اس کا احساس کریں۔

Comments are closed.