اجتماعی قربانی-احکام ومسائل

از: قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
8080697348
قربانی کے موسم میں اہل مدارس اجتماعی قربانی کانظم کرتےہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی صوبوں میں بڑے جانور(گائے، بیل ) کی قربانی پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ اس لئے ایسے صوبوں کے مسلمان ان صوبوں میں قربانی کروادیتے ہیں، جہاں پابندی نہیں ہے۔ جس سے لوگوں کویہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ پیسہ جمع کرانے کے بعد آزاد ہوجاتے ہیں،اُن کی طرف سے اہل مدارس قربانی کردیتے ہیں، گوشت ضرورتمندوں میں تقسیم کردیاجاتاہے، چمڑی بیچ کر مدرسہ میں پیسہ جمع کرلیاجاتاہے، اورقربانی کے بعد بچی ہوئی رقم بھی مدرسہ میں جمع کرلی جاتی ہے۔یہ دراصل اہل مدارس اور قربانی کرانے والے کے درمیان ہمدردانہ تعلق کی بات ہے؛ نیز اس سےمدارس کو خاطر خواہ رقم موصول ہوجاتی ہے۔
اِدھر چندسالوں سے اہل مدارس نے کچھ زیادہ ہی توجہ دینی شروع کردی ہے،جگہ جگہ اشتہارات چسپاں نظر آتے ہیں۔گوشت والے حصہ کی اتنی قیمت اوربغیر گوشت والے حصے کی اتنی قیمت،یعنی گویاکہ حصوں کی خریدووفروخت ہورہی ہے۔اندرون شہرقربانی کروانے کے لئے اتنی رقم اوربیرون شہر قربانی کرانے کے لئےاتنی رقم ،عام طورپر بیرون شہر قربانی کرانے کے لئے اندرون شہر سے تین گنازیادہ رقم لی جاتی ہے۔ غالبا ً اس میں مزدوری کی رقم بھی جوڑی جاتی ہے، لیکن بعض دفعہ جانورکی قیمت سے زیادہ اس کی مزدوری لینے کا گمان بلکہ یقین ہونے لگتاہے۔ مثلاً ایک اعلان نظر سے گزرا کہ بیرون شہر قربانی کرانے کے لئےیعنی گوشت نہ لینے کی صورت میں فی حصہ پندرہ سوروپئے، یعنی ایک جانور کی قیمت گویا کہ 10000(دس ہزار)روپئے۔جب کہ اندرون شہر قربانی کرانے کے لئے یعنی گوشت لینے کی صورت میں فی حصہ پینتالیس سورپئے۔گویا ایک جانور کی قیمت :31500(اکتیس ہزارپانچ سو)روپئے۔یعنی اصل جانور کی قیمت سے دو گنااس کی مزدوری لی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مزدوری کم، مدرسہ کے لئے تعاون زیادہ ہے۔ جب یہ صورت حال عام ہوگئی تو کچھ اہل مدارس اور بعض نادان دوستوں نے اس کو ایک بزنس کی طرح لے لیا۔ یعنی قربانی ان کے لئے ایک بہترین نفع بخش تجارت بن گئی ہے۔ وہ آپ سے زیادہ سےزیادہ پیسہ لینے کے بعددو سال کی عمر کامریل اور کمزورسے کمزورترجانور خرید کرقربانی کردیتے ہیں، اور بقیہ رقم مدرسہ میں یا اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔
میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ گجرات کے کچھ اصحاب خیر بہار کے بعض علاقوں میں جاتے ہیں اور جانوردیکھ کر قربانی کے لئے پیسہ دیکرواپس ہوجاتے ہیں۔اُن کی واپسی کے بعد ان جانوروں کی قربانی کی ہی نہیں جاتی ہے، بلکہ پوری رقم مدرسہ میں یا اپنی جیب میں رکھ لی جاتی ہے۔ ہاں یقین ہونے کے لئے دو چار جانوروں کی قربانی کرکے ویڈیوبنالی جاتی ہے ؛تاکہ ان کو بوقت ضرورت دکھایاجاسکے۔
ایک صاحب نے توحدکردی، مجھ سے کہنے لگا کہ ہم قربانی کرانے کے لئےایک حصہ کے لئے دو ہزارروپئے لیتے ہیں،اوراُن کی طرف سے قربانی کردیتے ہیں۔ میرے ذمہ ان کی قربانی کراناہے، میں قربانی کردوں گاتو میں بری ہوجاؤں گا، یہ میرے اوپر ہے کہ میں کس جانورکی قربانی کروں، اورکس طرح کروں۔قربانی کرانے والے کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔ایسے لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے پوری مسلم برادری بدنام ہوتی ہے۔حالاں کہ چوں کہ یہ مالی عبادت ہے، اورعوام نےان پر بھروسہ کرکے ان کو اپنی رقم سونپی ہے تاکہ وہ شریعت کےدائرہ میں رہتے ہوئے قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے،اس کو انجام دیں۔ ایسی صورت میں اُن کی حیثیت وکیل اورامین کی ہوگی۔وکیل اورامین پر شرعاًلازم ہے کہ اس کو جس چیز کے لئے وکیل بنایاگیاہے،اور جس طرح انجام دینے کا حکم دیاگیاہے، اور اس سے جس طرح انجام دئیے جانے کی امید ہے اُسی طرح انجام دیاجائے۔اس پر لاز م ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوف کھاتے ہوئے جو رقم دی گئی ہے اسی میں یا اس سے قریب ترین قیمت پر جانور خرید کرقربانی کریں۔ اگرخدانخواستہ وہ امانت میں خیانت کرتے ہیں تو ان کی پکڑ ہوگی۔ اگر وہ دنیا میں باز پرس سے بچ جاتے ہیں تو یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کے دن نہیں بچیں گے۔اللہ کے یہاں ایسے لوگوں کی ضرورباز پرس ہوگی۔نیزچوں کہ ایسے امورکا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لئےجس نے قربانی کرانے کے لئے پیسہ دیاہے، اس کےمعاف کئے بغیر معافی بھی نہیں ہوگی۔
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر قربانی درست نہیں ہوئی تو اس کاذمہ دارکون ہوگا؟ قربانی کرانےوالے سمجھتے ہیں کہ ہم پیسہ دیکر بری ہوگئے، حالاں کہ ایسانہیں ہے، جب تک صحیح اور درست قربانی نہیں ہوجاتی ہے وہ بَری نہیں ہوں گے۔ اس لئے ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف معتبر اوربھروسہ مندلوگوں کو قربانی کرانے کے لئے پیسہ دیں، ہر اعلان پر بھروسہ نہ کریں۔ اچھی طرح سے تحقیق کرنے کے بعد پیسہ دیں۔
قربانی کرنے میں جانورکی تعیین:
فقہاء کرام نے اس پر بحث کی ہے کہ اگر کسی عبادت کو انجام دینے کے لئے اس کی تعیین ضروری ہے یانہیں؟ چنانچہ فقہ حنفی کے مطابق اگر عبادت انجام دئے جانے والے وقت میں کوئی دوسرا عمل کرنابھی ممکن ہو تو اُس عمل کی تخصیص ضروری ہے، مثلاً ظہر کے وقت ظہر کی نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے اور عشاء اورعصر کی قضاء بھی پڑھی جاسکتی ہے، اس لئے اگر کوئی آدمی ظہر کے وقت میں ظہر کی نماز پڑھے تو ظہر کی ادا نماز کی تعیین ضروری ہے؛تاکہ ظہر کی نماز عشاء،و عصر وغیرہ کی نماز سےالگ اورخاص ہوجائے۔اسی طرح قربانی کے دنوں میں قربانی کے جانور کے علاوہ دوسرا جانور بھی ذبح کیاجاسکتاہے، اسی طرح قربانی کے علاوہ گوشت کھانے، ولیمہ کرنے کے لئے بھی جانور کو بھی ذبح کیاجاسکتاہے۔ اس لئے جانور کی تعیین کے ساتھ ساتھ قربانی کی نیت کرنابھی ضروری ہے۔ اسی طرح چوں کہ جانوروں میں تعدد ہے، اورقربانی کرانے والےبھی بہت ہیں، اس لئے اس بات کی تعیین ضروری ہے کہ کونسا جانور کس کی طرف سے ذبح کیاجارہاہے۔ بغیر تخصیص کےقربانی درست نہیں ہوگی۔(بدائع الصنائع:٥/۷١،قربانی کے مسائل کا انسائکلوپیڈیا:مادہ: اجتماعی قربانی:٢٥)
قربانی کے بعد بچی ہوئی رقم کا مصرف:
قربانی کرنے کے بعد جو پیسہ بچ جاتاہےعام طورپر قربانی کرنے والے حضرات اپنی مزدوری سمجھ کر اپنے لئے رکھ لیتے ہیں، مذبح کی درستگی کا کام کرتے ہیں، قربانی کے لیے اشتہارات دیتے یں،یا پھر کچھ رقم اپنی مزدوری کے لئے رکھ کربقیہ رقم غریب یا مدرسہ کو دیدیتے ہیں۔ہم نے کئی فتاویٰ کی کئی کتابوں کامطالعہ کیا، جس کاخلاصہ یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد بچی ہوئی رقم قربانی کرانے والی کی امانت ہوتی ہے،وہ رقم واپس کردینا لازم ہے۔ مدرسہ میں از خود جمع کرلینا یااپنی مصرف میں لاناجائز نہیں ہے۔اسی طرح قربانی کی رقم سے اشتہاردینا، مذبح کو درست کرانا وغیرہ بھی درست نہیں ہے۔تاہم فقہاء کرام نےاس پر بھی کلام کیاہے کہ کیا پیشگی اجازت یعنی قربانی سےپہلے ہی پیسہ جمع کراتے وقت اس طرح اجازت لے لینا کہ "آپ کی قربانی کی بچی ہوئی رقم مدرسہ میں جمع کرادی جائے گی ، یافلاں کام کیاجائےگا”اجازت کے حکم میں ہے یانہیں؟ گو کہ فقہاءکرام نے اس کی گنجائش نکالی ہے، لیکن یہ طریقہ درست نہیں ہے۔کیوں کہ قربانی سے قبل "بچی ہوئی رقم "کی اجازت معدوم اورمجہول شئی کی اجازت ہے، جو ناقابل قبول ہے، اس لئے ایسی اجازت دینے کے بعد بھی قربانی کرانے والے کا بچی ہوئی رقم کی واپسی کامطالبہ کرنا درست ہے۔
بچی ہوئی رقم کو اجرت ماننا:
بچی ہوئی رقم کو از خود اجرت یامزدوری مان کر خود رکھ لینابھی جائز نہیں ہے۔کیوں کہ فقہاء کرام نے اجرت کے لئے معلوم اورمقررکئے جانے کی شرط لگائی ہے، تاکہ بعد میں جھگڑانہ ہو، یاکسی کو ناگواری نہ ہو۔ پس بچی ہوئی رقم سے اپنی اجرت لے لینا یا مزدوروں کو اجرت دینا درست نہیں ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ قربانی کرنے کےبعد بچی ہوئی رقم، رقم کی وضاحت کے ساتھ قربانی کرانے والوں کو واپس کردی جائے۔ اب اگر وہ کہتے ہیں کہ آپ فلاں کارخیر میں استعمال کرلیں،یا فلاں مدرسہ میں دیدیں تو اسی لحاظ سے عمل کرلیاجائے۔ یہی بہتر طریقہ ہے، کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ قربانی کرانے والے کو اُس وقت پیسہ کی ضرورت ہو، یا زیادہ پیسہ بچ جانے کی صورت میں اس کو ناگواری ہو۔(۔(الفتاوی الہندیۃ : ۴/۴۱۱،https://darulifta-deoband.com/home/ur/qurbani-slaughtering/174817، فتاویٰ رحیمیہ:١۰/٤٥، قربانی کے مسائل کا انسائکلوپیڈیا:مادہ:وکیل:١۷٤)
گوشت کامصرف:
قربانی کے جانور کے گوشت کامالک بھی قربانی کرانے والاہوتاہے، وہ اپنے حساب سےاس کی تقسیم کاحکم دے سکتاہے۔اس میں وہ غریب ومسکین مالدار وغیرہ کسی کو بھی دینے کے لئے کہہ سکتاہے۔اعلانات میں لکھاجاتاہے کہ گوشت غریبوں میں تقسیم کردیاجائے گا، لیکن صورت حال یہ ہے کہ غریب امیرسب کو گوشت دیاجاتاہے۔ اورگوشت کی بڑی مقدار اپنے گھر کی فریج کی زینت بنتی ہے۔
کھال کامصرف:
قربانی کی کھال کے سلسلے میں بھی لاپرواہی برتی جاتی ہے، جانور کو ذبح کرنے سے پہلے ہی اس کو فروخت کردیا جاتاہے، حالاں فقہاء کرام نے زندہ جانور کی چمڑی کوفروخت کرنے سے منع کیاہے۔ اس لئے ذبح کرنے کے بعد اس کی قیمت لگائی جانی چاہئے۔(قربانی کے مسائل کا انسائکلوپیڈیا:مادہ کھال:137)
یہ بھی یاد رہے کہ جب کھال کو بیچ دیاگیا تو اب اس کا مصرف مستحقین زکاۃ ہی ہیں۔ غریب اورمسکین کو وہ پیسہ دینا ضروری ہے۔ اس رقم کو مزدوری کے طورپر خود رکھ لینا یا کسی کو دینا یا مدرسہ کے اساتذہ کو تنخواہ دینا، تعمیری کام کرنایاطلبہ مدارس کے استعمال میں لانا درست نہیں، ہاں اگر شرعی تملیک کرلی جائے تو جائز ہے۔(قربانی کے مسائل کا انسائکلوپیڈیا:مادہ کھال:139)
Comments are closed.