گاڑی خرید لی ہے تو چلانی بھی سیکھیں۔ تحریر: ناصرالدین مظاہری

مانا کہ آپ امیر ہیں،آپ کے یہاں نوکر و چاکر کی ایک بھیڑ ہے، آپ کے گیراج میں کئی قسم کی اعلی کاریں اور گاڑیاں ہیں،آپ کی کاریں جب شہرکی چمچماتی سڑکوں پر دوڑتی ہیں تو لوگ آپ کی خوش نصیبی پر رشک کرتے ہیں،آپ کے پاس رہتے رہتے آپ کا ڈرائیوربھی گھمنڈی ہوگیا ہے،وہ جب آپ کو گاڑی میں بٹھاکر چلتاہے تواس کاسینہ پھول جاتاہے،آپ اپنے ارد گرد سستی کاریں دیکھ کرحقارت سے نظریں پھیرلیتے ہیں،بارش ہورہی ہے ،پیدل اورسائیکل سے چلنے والے سڑک کے کنارے کنارے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں تاکہ کہیں آپ کاڈارئیور تیز رفتار کار سے سڑکوں پرجمع پانی اور کیچڑ کواپنی گاڑی کے پہیوں سے اچھال کران غریبوں کے کپڑے نہ خراب کردے۔
یہ میں لفاظی نہیں کرتا،حقیقت بتارہا ہوں،آپ میں سے اکثرحضرات ایسے نااہل اورنالائق ڈرائیوروں کی ’’حماقت‘‘ کاشکار ہوچکے ہوں گے جنھوں نے اپنی گاڑی سڑکوں پرجمع پانی میں گزار دی اور کیچڑ اچھل کر آپ کے کپڑے خراب کرگیا۔
میں دارقدیم سے دفترکی طرف رواں دواں تھا،اتفاق سے کپڑے بھی نئے پہنے تھے، بہادران مسجدکے پاس ایک تیز رفتار کارنے میرے کپڑوں کوگل وگلزارکردیا،موجود ناظرین میں سے کچھ نے اظہارافسوس کیا،کچھ نے کار ڈرائیور کوگالیوں سے نوازا لیکن ڈرائیورتوبہت دور جا چکاتھا اور اِدھراِس نئی اور اچانک اُفتادکی وجہ سے مدرسہ میں میری غیرحاضری لگ چکی تھی ۔
ہم میں سے اکثر لوگ جب گاڑی خریدتے ہیں توعموماًیہ دیکھتے ہیں کہ گاڑی کا ڈرائیور کتناتجربہ کارہے ،یہ بالکل نہیں دیکھتے کہ کتنا ہونہار اور بااخلاق ہے، جو ڈرائیور روزمرہ زندگی میں بداخلاق ہوگا وہ گاڑی چلاتے ہوئے بھی بداخلاقی کے مظاہرے کرتا ہی رہے گا، ڈرائیوری صرف یہ نہیں ہے کہ ٹریفک کے اصولوں سے واقف ہو،بلکہ اصل ڈرائیوری یہ ہے کہ اس کے اندرانسانیت بھی ہو۔وہ ڈرائیور ڈرائیورنہیں ہوسکتا جواپنے دائیں بائیں آگے پیچھے چلنے والے لوگوں کاخیال نہ رکھتاہو،جس کے دل میں انسانی ہمدردی نہ ہو،جو پیدل چلنے والوں کی رعایت نہ کرے، جوکہاں تیز چلناہے کہاں آہستہ چلناہے اس کاخیال نہ رکھتاہو،جوگڈھوں، پانی اور کیچڑ میں دندناتا پھرے ،لوگوں کے کپڑے خراب کرتا رہے، نمازیوں کی نمازیں اس کی وجہ سے قضا ہوجائیں، لوگوں کے ڈھیرسارے امور اِس ایک ڈرائیور کی بے وقوفی کے باعث دھرے کے دھرے رہ جائیں تویقین جانیں وہ ڈرائیور ڈرائیور نہیں شیطان کابھائی ہے۔
بہت سے ڈرائیورایسے بھی ہیں جو اپنی گاڑیاں ایسی جگہ کھڑی کردیتے ہیں جس کے آگے بھی گاڑی کھڑی ہے اورپھرکمال یہ ہے کہ گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی کھڑی کرکے وہاں سے روانہ بھی ہوجائیں گے اب آپ خودسوچیں اگلی گاڑی والا اپنی گاڑی کیسے نکالے گا۔
مدینہ منورہ میں میں نے دیکھاہے کہ گاڑی والے پیدل والوں کی اتنی رعایت کرتے ہیں کہ گاڑیاں لائن سے لگ جاتی ہیں کوئی بھی جلدبازی کامظاہرہ نہیں کرتا،جب پیدل چلنے والاشخص راستہ سے گزرجاتاہے تب کاروالے اپنی کارآگے بڑھاتے ہیں، یورپ سمیت جاپان اوردیگرترقی پذیر ملکوں میں نظام ٹریفک بہت عمدہ ہے ساری جہالت ہمارے ہی یہاں نظرآتی ہے کیونکہ گاڑی توجیسے تیسے سیکھ لی،ڈرائیونگ لائسنس بھی لے دے کے حاصل کرلیا،ملازمت بھی مل گئی لیکن اصل چیزجس کوانسانیت اورشرافت کہتے ہیں وہ تواس کے قریب کوبھی نہیں پھٹکی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں راستوں میں بیٹھنے سے سے منع فرمادیاہے تومطلب صاف ہے کہ ہم اپنی ذات سے اپنی گاڑی سے اپنی ڈارئیوری سے کسی بھی راہ گیرکوتکلیف نہ دیں،راستوں پرچلنے اورگاڑی کوچلانے کے تعلق سے آپ جہاں جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے قانون پرعمل کرناضروری ہے ،مثلاً اسلام توہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے دائیں طرف چلیں لیکن ہمارے ملک کاقانون ہے کہ ہم اپنے بائیں طرف چلیں تویہاں آپ کے لئے بائیں طرف چلناہی ضروری ہے ورنہ خطرات اور حادثات یقینی ہیں۔
ہمیں خودبھی حادثات سے بچناچاہئے اوردوسروں کوبھی حادثات سے بچانا چاہئے، لوگ خودتوحادثے سے بچنے کے لئے ٹریننگ اورتربیت لیتے ہیں حالانکہ دوسروں کوحادثات سے بچانے کی نیت ہونی چاہئے ۔
ایک دفعہ مسوری جاتے ہوئے ایک موڑپربہت عمدہ ہدایت درج تھی ’’برائے مہربانی دھیرے چلیں،جن کوجلدی تھی وہ اوپرچلے گئے‘‘اس ہدایت کالطف وہ لوگ بخوبی لے سکتے ہیں جن کومسوری کامحل وقوع معلوم ہے۔اصل میں مسوری ایک شہرہے جودہرہ دون سے متصل ایک پہاڑی پرواقع ہے۔پہاڑی راستے پُرخطرہوتے ہیں ،میدانی علاقوں کے ڈارئیور ہی عموماً وہاں غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ تیز چلنا،کٹ مارنا،ایک دوسرے سے آگے نکلنا، دوسرے کاخیال نہ رکھنا، نتائج اور عواقب سے بے پرواہ رہنایہ سب غلطیاں میدانی علاقے کے لوگ عموماً کرتے ہیں۔بعض احمق ڈرائیورتوایسے ہوتے ہیں کہ اگرکوئی اورڈرائیوران سے آگے نکل جائے تویہ بھی گاڑی کی رفتاربڑھادیتے ہیںاوراس مقابلہ آرائی میں بڑے بڑے حادثات واقع ہوتے ہی رہتے ہیں۔
حضرت ابو اسیدانصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد سے باہر جس وقت عورتیں راستے میں مردوں کے ساتھ مل کر چل رہی تھیں یہ فرماتے ہو ئے سنا کہ خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر چلیں۔یہ مناسب نہیں کہ وہ راستہ کی روک بن جائیں ،ابو اسیدانصاری بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعدعورتیں سڑک کے ایک طرف ہو کر دیوار کے ساتھ ساتھ چلا کرتیں بعض اوقات تو اس قدر دیوار کے ساتھ لگ کر چلتیں کہ ان کے کپڑے دیوار کے ساتھ اٹک اٹک جاتے (ابو داؤد)
بعض کسانوں کودیکھاگیاہے کہ عام طورپروہ اپنے جانورسڑکوں پرباندھ دیتے ہیں یاسڑکوں سے اتناقریب باندھتے ہیں کہ راہ گیروں کوبہت تکلیف ہوتی ہے،جانورعام طورپردم ہلاتے رہتے ہیں اوراس طرح دم کے ذریعہ ناپاکی اچھل کرراہ گیروں کوناپاک کردیتی ہے۔اس لئے اپنے جانوروں کو روڈ پر نہیں باندھناچاہئے نہ ہی روڈسے اس قدرقریب باندھیں کہ جانوروں کے دم کے ذریعہ گندگی اورناپاکی کاپہنچنے کاامکان ہو۔
مظاہرعلوم کی پہلی عمارت دفتر مدرسہ قدیم کی جب تعمیرچل رہی تھی تومحلہ والوں نے چھجہ نکالنے کامشورہ دیالیکن اہل مدرسہ نے صاف منع کردیاکہ سرکاری اراضی پرچھجہ نکالنا شرعاً درست نہیں ہے ،غورکریں ہمارے بزرگوں نے کس قدراحتیاط کی ہے ۔آج ہم بے دھڑک سرکاری اراضی پرسرکارکی اجازت کے بغیرچھجے نکالتے ہیں،زینے چڑھاتے ہیں،سرکاری اراضی میں اپنے ذاتی ہنڈپمپ اور بورنگ کراتے ہیں،سرکاری اراضی پرگاڑیاں کھڑی کرتے ہیں،سرکاری ہدایات کی یکسرخلاف ورزی کرتے ہیں پھرجب کبھی سرکار توڑپھوڑکرتی ہے تواسی کوقصوروار،ظالم اورانسان کادشمن گردانتے ہیں حالانکہ حکومت کویہ سب کرنے کاموقع دینے والے ہی اصل ظالم ہیں۔تھوڑی دیرکے لئے سوچئے آپ نے سرکاری زمین پرقبضہ کرلیاہے،قبضہ کی اس زمین پرنمازاداکررہے ہیں ،فتویٰ نکلواکر اوراستفتاء کرکے دیکھ لیں ہماری ایسی نمازیں قابل قبول ہوں گی یا نہیں؟اوریہ کہ ہم اس عمل سے گنہگارہوں گے یانہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من اخذ شبرا من ارض ظلما طوقہ اﷲیوم القیامۃمن سبع ارضین (بخاری ) جس نے ایک بالشت زمین بھی کسی کی ہڑپ لی تو اﷲتعالیٰ قیامت کے دن سات تہہ زمین اس کے گلے میں لٹکا ئے گا ۔
بہت سے حضرات نماز کے اوقات میں خاص طور پر جمعہ کے دن اپنی گاڑیاں مساجد کے سامنے راستہ پر لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں سے گزر نے والوں کو کافی دشواری ہوتی ہے ،بعض لوگ بیچ راستہ میں ہی گاڑی لگا کر چلے جاتے ہیں ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ڈرنا چاہئے ۔عجیب بات ہے مسجدکے اندربندہ اللہ تعالیٰ سے نیکیاں وصول رہاہے اورمسجدکے باہرلوگوں کواذیت دے کراپنی نیکیاں گنوارہاہے۔
حضرت سہل بن معاذؓ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمہ لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کر دی اور عام گزر گاہ کو بھی نہ چھوڑا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو اعلان کروایا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگا ئے تو اس کا جہاد قبول نہیں ہے۔ (ابو داؤد )
اس حدیث کی روشنی میں غورکریں وہ لوگ بھی جواپنی شادیاں سڑکوں کوروک کرکرتے ہیں،وہ لوگ بھی جواصلاح معاشرہ کے جلسے سڑکوں کوروک کرکرتے ہیں ،خداناخواستہ کوئی مریض نہایت سیریس ہو،ایمبولینس یاکوئی اورگاڑی مریض کولے کر اسپتال کی طرف بھاگ رہی ہواور راستے میں ’’اصلاح معاشرہ‘‘کی قناتیں اوربلیاں اورشامیانوں نے راستہ روک رکھاہو۔ایسی حالت میں مریض پرکیابیتے گی اورخاص کر مریض کے اہل وعیال ایسے ’’بابرکت جلسوں ‘‘کوکتنی ’’دعائیں ‘‘دیں گے۔
ایک اورمصیبت ہارنوں کی آگئی ہے ،ایسی ایسی ہیبت ناک آوازوں والے ہارن اورایسی ایسی عجیب وغریب لائٹیں وجودمیں آگئی ہیں کہ ہارن کی آوازسن کرآدمی اچھل پڑتا ہے،لائٹ اوراس کی شعاعوں سے انسانوں کی آنکھیں کچھ دیرکے لئے کام کرنابندکردیتی ہیں ،ہروہ چیزجس سے کسی کوتکلیف پہنچے حرام ہے اور ایسی ایسی لائٹیں اورہارن تونہایت ہی غلط اورناجائزہیں ۔
حضرت مولانامفتی خالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ فرماتے ہیں:
’’راستہ پر بے ضرورت ہارن بجانا بھی پسندیدہ نہیں ، اس سے آگے چلنے والے کو وحشت ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ حادثہ کا باعث بھی ہو جاتا ہے ، اس لئے بھی کہ ہارن کی آواز سنجیدہ لوگوں کے لئے گراں خاطر ہوتی ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ چلتے ہوئے گھنٹہ بجانے سے منع فرمایا ، عربوں کا طریقہ تھا کہ اونٹ کی گردنوں میں گھنٹیاں باندھ دیتے ، جب پورا قافلہ چلتا تو راستہ گھنٹیوں کی آواز سے گونج اُٹھتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اس سے بے ضرورت ہارن بجانے کی قباحت پر روشنی پڑتی ہے ، بعض حضرات نت نئی آوازوں کے ہارن گاڑیوں میں لگاتے ہیں، جیسے کتے کی آواز، چھوٹے بچے کے رونے کی آواز، یہ نہایت ہی ناشائستہ بات ہے، اس آواز کے مکروہ ہونے کے علاوہ لوگ اس سے دھوکہ بھی کھاجاتے ہیں اور چونک اُٹھتے ہیں ، جو خطرناک حادثہ کا باعث ہو سکتا ہے، اس لئے ایسی چیزوں سے گریزضروری ہے۔
Comments are closed.