ایک آیت میں پوری زندگی کا تذکرہ!! تحریر: مفتی محمد صابر حسین ندوی

واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید انسان کیلئے آئینہ ہے، وہ انسانوں کو ان کی حقیقت بتلاتا ہے، زندگی کی کڑواہٹیں، مٹھاس، خواہشات اور ترغیبات و ترجیحات کی بنیادوں کو اجاگر کرتا ہے، انسان کے دل میں بیٹھے چور دروازے کی نشاندہی کرتا ہے، چہرے پر پڑے منافقت کے نقاب کو فاش کرتا ہے، جس طرح ہوس نے چھپ چھپ کر سینے میں جگہ بنالی ہے اس کی طرف توجہ دلاتا ہے، جن حقائق سے وہ منہ موڑتا ہے اور سرپٹ دنیا کی رنگینیوں میں بھاگتا چلا جاتا ہے قرآن اس پر بریک لگاتا ہے، اسے تجزیہ و تحلیل کرنے اور خود کو صحیح نہج پر ڈھالنے کا موقع دیتا ہے، یہ بھولا ہوا سبق یاد کرواتا ہے، check and balance کی دعوت دیتا ہے، قرآن مجید کی یہ آیت پڑھئے اور زندگی کے احوال، انسان کے ارتقائی مراحل پر غور کیجیے! آپ تعجب میں پڑ جائیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے تعبیر کی شکل میں انسانی زندگی کی مختلف حیثیتوں سے آگاہ کیا ہے، ویسے قرآن کریم نے دنیا میں زندگی کی حقیقت پر بار بار گفتگو کی ہے، انسان کو متوجہ کیا ہے کہ دنیا اور دنیاوی چمک وقتی ہے؛ لیکن اس آیت میں آپ پائیں گے کہ مرحلہ وار زندگی کا نقش اتارا گیا ہے، ایک ایک لفظ کو پڑھیے پھر اس کی تفسیر دیکھیے، معنی کی تشریح و توضیح پڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ قرآن آپ کی پیدائش سے لیکر موت تک کی نفسانی خواہشات اور رجحانات کو بیان کر رہا ہے، جس میں کوئی شبہ نہیں، کوئی لاگ لپیٹ نہیں، یہ قرآن کا معجزہ بھی ہے، ادب و بلاغت کا اعلی معیار بھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَہْوٌ وَّ زِیْنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَکُمْ وَ تَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ. (حدید: ٢٠) ”خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل دل لگی کا سامان اور ظاہری ٹیپ ٹاپ ہے اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم رقم طراز ہیں: "انسانی زندگی کا آغاز کھیل کود لعب سے ہوتا ہے، بچپن میں انسان کو کھیل کود کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ باپ امیر ہے یا غریب‘ اس کا کاروبار ٹھیک چل رہا ہے یا مندے کا شکار ہے‘ بچے کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا‘ اسے تو کھیلنے کو دنے کا موقع ملتے رہنا چاہیے اور بس۔ پھر جب وہ لڑکپن کی عمر teenage کو پہنچتا ہے تو اس کا کھیل کود محض ایک معصوم مشغولیت تک محدود نہیں رہتا؛ بلکہ اس میں کسی نہ کسی حد تک تلذذ sensual gratification کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے، اس مشغولیت کو آیت میں لَھْو کا نام دیا گیا ہے، یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ عام طور پر قرآن میں انسان کی دنیوی زندگی کی حقیقت بیان کرنے کے لیے لَہْو و لَعب کی ترکیب استعمال ہوئی ہے، لیکن یہاں ان الفاظ کی ترتیب بدل دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں عمر کی تقسیم کے حساب سے انسانی زندگی کے مراحل کا ذکر ہو رہا ہے اور اس حوالے سے لعب یعنی کھیل کود کا مرحلہ پہلے آتا ہے؛ جب کہ اس میں لَہْو کا عنصر بعد کی عمر میں شامل ہوتا ہے، جوانی کی اسی عمر میں انسان پر اپنی شخصیت کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور زِیْنت کا جنون سوار ہوتا ہے، عمر کے اس مرحلے میں وہ شکل و صورت کے بناؤ سنگھار، ملبوسات وغیرہ، وضع قطع، معیار اور فیشن کے بارے میں بہت حساس ہوجاتا ہے، پھر اس کے بعد جب عمر ذرا اور بڑھتی ہے تو ”تَفَاخُرٌ بَیْنَکُم“ کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا چوتھا اور اہم ترین مرحلہ ہے، اس عمر میں انسان پر ہر وقت تفاخر کا بھوت سوار ہوتا ہے اور وہ عزت، شہرت، دولت، گھر، گاڑی وغیرہ کے معاملے میں خود کو ہر قیمت پر دوسروں سے برتر اور آگے دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے بعد جب عمر ذرا ڈھلتی ہے تو ”تَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ“ کا دور آتا ہے، اس دور میں انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ تفاخر کے دور میں تو سوچ یہ تھی کہ کچھ بھی ہوجائے مونچھ نیچی نہیں ہونی چاہیے؛ لیکن اب سوچ یہ ہے کہ مال آنا چاہیے، مونچھ رہے یا نہ رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس عمر میں پہنچ کر انسان اپنے مفاد کے معاملے میں بہت حقیقت پسند realistic ہوجاتا ہے؛بلکہ جوں جوں بڑھاپے کی طرف جاتا ہے، اس کے دل میں مال و دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے؛ حتیٰ کہ ایک مرحلے پر اسے خود بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ اب وہ پاؤں قبر میں لٹکائے بیٹھا ہے مگر اس کی ”ھَلْ مِنْ مَّزِیْد“ کی خواہش ختم ہونے میں نہیں ہوتی، انسان کی اسی کیفیت کو سورة التکاثر میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: { اَلْھٰکُمُ التَّـکَاثُرُ. حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.} ”لوگو! تم کو مال کی کثرت کی طلب نے غافل کردیا ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔“ (دیکھیے: بیان القرآن)

[email protected]
7987972043

Comments are closed.