حیدرآباد، مساجد کی شہادت اور ہم!

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ حیدرآباد۔9395381226
حیدرآباد میں ایک اور مسجد شہید کردی گئی۔ غم و غصہ، احتجاج فطری اور واجبی ہے۔ شمس آباد میں یہ اپنی نوعیت کا غالباً دوسرا واقعہ ہے۔ ایرپورٹ کے حدود میں بھی مسجد تھی جس کے لئے کچھ دنوں تک احتجاج ہوا۔ اور اب بھی وہاں نماز کی ادائیگی کے لئے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔ گرین ایوینیو کالونی کی مسجد کو شہید کرنے کا واقعہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا اترپردیش میں بعض عبادت گاہوں پر یوگی حکومت اور جہانگیرپوری کے علاقے میں بی جے پی کے زیر اقتدار میونسپل کارپوریشن دہلی کی جانب سے بلڈوزر چلائے جانے کے دلسوز واقعات ہیں۔ تلنگانہ میں بہ ظاہر ایک سیکولر اور مسلم دوست حکومت ہے۔ مگر ایسی کئی کاروائیاں ہوچکی ہیں جو مسلمانوں کیلئے دلآزار ہیں اور اس سے حکومت کی نیت اس کی لچکدار پالیسی پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ میونسپل کمشنر صابر علی ہیں۔ وہ یقینا اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے کندھے پر رکھ کر نشانہ لگایا گیا ہے۔ اصولی طور پر کسی قسم کی کاروائی سے پہلے مسجد انتظامیہ کو یا اس علاقہ کے ذمہ داروں کو نوٹس دی جانی چاہئے تھی۔ جس طرح CAA کے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ کے طلبہ کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے دہلی پولیس نے برقی سربراہی مسدود اور انٹرنیٹ سرویس معطل کردی تھی بالکل اسی طرح گرین ایوینیو کالونی شمس آباد میں کیا گیا۔ اس دلسوز، المناک، شرمناک واقعہ کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں، مسلم تنظیموں نے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احتجاج کیا ہے‘ جو خوش آئند ہے۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہاں دوبارہ مسجد تعمیر ہوگی! کیوں کہ مسجد کے مخالفین نے غیر قانوی تعمیر کا الزام عائد کرتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم غفلت میں رہ گئے۔ اگر رتی برابر بھی کوئی تنازعہ تھا اور اس پر کسی قسم کی کاروائی کا اندیشہ تھا تو ہماری جانب سے اپنی مدافعت میں پہل کرنی چاہئے تھی۔ تاخیر ہوگئی جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ شمس آباد ایرپورٹ رن وے کی تعمیر کے لئے جس مسجد کو شہید کیا گیا اس کا نام ونشان مٹا دیا گیا اس وقت حکومت ٹی آر ایس کی نہیں تھی۔ پالیسی ہر سیاسی جماعت کی ایک ہی ہے۔ کوئی کھلا دشمن ہے‘ کوئی دوستی کا لبادہ پہنے دوست نہیں ہے۔ اور کبھی بھی آپ سے قربت کو فاصلوں میں بدل سکتا ہے۔ اور اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ کیوں کہ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ مسلم عبادت گاہوں کومتاثر کیا جائے۔ زبان، تہذیب اور تشخص کو مٹانے کی کوشش کی جائے‘ تو کم از کم اکثریتی طبقہ ان سے دور نہیں ہوگا۔ پورے ملک میں ہی کیا‘ ساری دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ اقتدار کے لئے مخالف مسلم پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ جو جتنا قریب ہے‘ وہ اُتنا بڑا لیڈر ہے۔ ٹی آر ایس حکومت اپنی دوسری میعاد میں ہے۔ جناب محمود علی ڈپٹی سی ایم بھی رہے اور اب وزیر داخلہ بھی ہیں۔ یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ شمس آباد علاقہ میں مسجد کو شہید کرنے کی کاروائی ریاست کے وزیر داخلہ کے علم میں لائے بغیر ہی کی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وزیر داخلہ یا حکومت کی جانب سے کوئی بیان آجائے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ دوسری مسجد کی تعمیر تک مقامی مسلمان نماز کہا ادا کریں گے۔ کھلے علاقہ میں نماز ادا کی جائے ت واس پر ابھی اعتراض ہوگا۔ فرقہ پرست جماعتیں دھرنا دیں گی اور ماحول بگڑتا جائے گا۔ اور اس کا فائدہ مسلمہ فرقہ پرست جماعتوں کو ہوگا جو ہر قیمت پر تلنگانہ میں اپنی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ جس طرح سے بی جے پی قائدین کی بیان بازی جاری ہے‘ انگریزی اور تلگو اخبارات اسے نمایاں طور پر شائع کررہے ہیں اور بعض اردو اخبارات بھی انہیں اہمیت دے کر ایک طرف مسلمانوں میں خوف پیدا کررہے ہیں تو دوسری طرف ان مسلم دشمن نیتاؤں کو مزید طاقتور بنانے میں مدد کررہے ہیں۔ اردو اخبارات کو تو چاہئے کہ وہ ان زہریلے سانپوں کا پھن کچلیں اور اپنے قارئین کو خوف کے ماحول سے نکال کر ان میں ہمت، جوش اور ولولہ پیدا کریں۔
انگلش اور تلگو اخبارات‘ مسلم قائدین ہو یا مذہبی اکابرین کواہمیت نہیں دیتے۔ اور ہم اپنے دشمنوں کو محض اس لئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف ہمارے بعض قائدین کے خلاف زہر اُگلتے ہیں اور جب کوئی ہمارے سامنے اپنوں کے خلاف کہتا ہے تو ہماری اَنا کی تسکین ہوتی ہے۔
مساجد سے متعلق جو پالیسی سیاسی جماعتوں کی ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے کس طرح سے خلاف دیئے جاتے ہیں۔ جہانگیر پوری کی مسجد کی گیٹ کو بلڈوزر سے توڑ دیا گیا۔ اس سے متصل دکانات کو برباد کردیا گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر دوسری عبادت گاہ کو دھکہ تک نہیں لگا۔ جہاں تک حیدرآباد کا تعلق ہے‘ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا جانے کتنی مسجدوں کو غائب ہوتے دیکھا۔ 1970ء اور 1980ء کے درمیان نوبت پہاڑ کی مسجد کا تنازعہ اپنی پوری شدت سے جاری تھا۔ ہمارے قائدین نوبت پہاڑ پر لے جاکر نماز پڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ غلام احمد مرحوم کرکٹر نے بھی عدالت میں یہ بیان بھی دیا تھا فتح میدان میں جب وہ کرکٹ کھیلتے تھے نوبت پہاڑ کی مسجد سے اذان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اتنا زبردست احتجاج ہوا‘ تحریک چلی مگر آج مسجد کی جگہ پلانیتیٹوریم ہے اور آج بہت ہی کم لوگوں کو اس مسجد کے بارے رہا ہوگا۔پراگاٹولس کواڑی گوڑہ (مشیرآباد) کی مسجد باقی ہے یا نہیں‘ پتہ نہیں۔ بالاپور میں ایک ریئل اسٹیٹ پراجکٹ کے لئے قدیم مسجد شہید کردیا تھا ہنگامہ آرائی کے بعد وہاں دوسری مسجد تعمیر ہوئی۔ جو حال مساجد کا ہے وہی حال قبرستانوں کا ہے۔ کاچیگوڑہ چوراستہ سے کوٹھی جاتے ہوئے راستے میں پہلے 2تھیٹرس تھے اب وہ شاپنگ مال اور ملٹی پلکس میں تبدیل ہوگیا۔ 1970ء کے دہائی کے اواخر میں ہم اس راستہ سے اعزہ اسکول جاتے تھے‘ تب یہاں کچھ قبورہوا کرتی تھیں۔ تھیٹرس تعمیر ہوئی تو قبور کی جگہ پارکنگ کا علاقہ بن گیا۔ یہ تھیٹرس کانگریس کے ایک ارب پتی لیڈر کی ملکیت تھی جو فلمی دنیا میں بھی جانا پہچانا نام ہے۔ چند دن احتجاج ہوا، خاموشی طاری ہوگئی۔ شہر کے بیشتر قبرستانوں کا حال ایسا ہی ہے۔ سعیدآباد چوراستے پر کچھ قبرستان باقی ہیں۔ افسوس کی بات ہے۔ کہ چند برس پہلے تک جہاں قبور تھیں وہاں اب کچے پکے مکان اور بیت الخلاء بنادیئے گئے۔ ان قبور کے پتھروں پر عورتیں میلے کپڑے دھوتی ہیں۔ اطراف کا پورا ماحول مسلمانوں کا ہے مگر شاید ہی اس پر کسی نے توجہ دی۔ حیدرآباد کبھی اپنے مسلم تہذیب کے لئے جانا جاتا تھا۔ مگر اب لگتا ہے کہ یہ دوسری کاشی بن رہا ہے۔ جگہ جگہ دوسرے مذاہب کی عبادتگاہیں تعمیر ہوتی جارہی ہے۔ چادر گھاٹ برج جہاں ختم ہوتا ہے کارنر پر پہلے ایرانی ہوٹل (کیفے پارک) ہوا کرتی تھی اس سے متصل چمن تھا۔ اب وہاں مندر ہے۔ چادر گھاٹ کے چھوٹے برج کی دونوں جانب سینکڑوں گز رقبے پر دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ حتیٰ کہ موسیٰ ندی میں اَن گنت عبادت گاہیں ہیں۔ بچپن میں ہم وکٹوریہ پلے گراؤنڈ آیا جایا کرتے تھے تو اس کے سامنے دو تین منادر اور ایک درگاہ ہوا کرتی تھیں۔ آج درگاہ تو ہے مگر اس کے ساتھ جہاں تک نظر جاتی ہے منادر تعمیر ہوچکے ہیں۔ خیر اس علاقہ میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں ہماری کثیر آبادی ہے‘ وہاں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ ہم نے کبھی ان کی تعمیرات پر اعتراض نہیں کیا‘ کبھی قانونی کاروائی نہیں کی‘ جبکہ ہم جب بھی کوئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں‘ یا کسی مدرسہ یا اسکول میں اپنے بچوں کی صحت جسمانی کو بہتر بنانے کیلئے اسپورٹس کے پروگرام کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کے خلاف شکایتیں درج کی جاتی ہیں۔ اور مختلف شعبہ جات میں ہر سطح کے ملازمین تو موقع کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب کوئی شکایت درج ہو اور انہیں کاروائی کا موقع ملے۔ اس موقع پر اکثر کسی دانشور کا یہ قول یاد آتا ہے ”اپنے سرحد کی حفاظت وہی کرتے ہیں جو حملے میں پہل کرتے ہیں“۔ جو پہل کرتے ہیں وہ نقصان پہنچا کر چلے بھی جاتے ہیں‘ اور جن کا نقصان ہوتا ہے وہ سمجھوتے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرپاتے۔ حیدرآباد کو بی جے پی کا ایک طاقتور گڑھ بنانے کی کوشش زور و شور سے جاری ہے۔ چارمینار حیدرآباد کی پہچان ہے۔ اور اس سے متصل مندر آنے والے برسوں میں اگر اس عمارت کی میناروں سے بھی بلند ہوجائے تو کوئی حیرت نہیں ہوگی کیوں کہ ایک منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے چارمینار کے بجائے اس سے متصل مندر کو حیدرآباد کی پہچان بنادیا جائے گا۔ ویسے بھی تلگو دیشم حکومت نے عالمی سطح پر حیدرآبا دکی پہچان کے لئے حسین ساگر جھیل میں نصب کئے گئے۔ گوتم بدھ کے مجسمہ کو استعمال کیا۔
حیدرآباد کو بھاگیہ نگر کا نام دینے کی آرزو آج کی نہیں‘ برسوں کی ہے۔ اور اس میں سبھی جماعتیں برابر کی شریک ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے بھی اپنے حالیہ دورہ حیدرآباد کے موقع پر حیدرآباد کی جگہ بھاگیہ نگر کا نام استعمال کیا۔تلنگانہ بی جے پی کے قائدین اردو کے ساتھ ساتھ مجلس کے خلاف زہر اُگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ابھی حال ہی میں بی جے پی لیڈر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مجلس سے پرانا شہر چھین لیں گے۔ یہ صرف ایک بی جے پی کی نہیں‘ بہت ساری جماعتوں کی آرزو ہے۔ چوں کہ بی جے پی کو ہم کھلا دشمن تسلیم کرتے ہیں‘ اس کا سامنا کرتے ہیں مگر چھپے ہوئے دشمنوں کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ناقابل تسخیر قلعے دشمنوں نے اُسی وقت فتح کئے جب قلعہ کے اندر موجود مخبروں اور دشمنوں کے آلہ کاروں نے دروازے کھول دیئے تھے۔ بی جے پی اور دوسری جماعتوں میں فرق یہی ہے کہ بی جے پی جوکہتی ہے وہ پورا کرکے دکھاتی ہے۔ ا قتدار پر آنے سے پہلے اس نے جو جو وعدے کئے تھے اُسے پورا کیا چاہے وہ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخاستگی کا معاملہ ہو‘ یا بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا معاملہ۔ کانگریس اور مسلم مکت بھارت کا خواب بھی وہ دیکھ رہی ہے کانگریس کا تو صفایا تقریباً ہوچکا ہے‘ مسلم مکت بھارت تو نہیں بن سکتا البتہ مودی نے مسلم مکت مرکزی کابینہ تو تشکیل دے دی۔ مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش میں کس طرح سے تختے الٹائے گئے تلنگانہ میں بھی یہ ممکن ہے۔ مجلس کی طاقت کو وہ کمزور کرنے کی یقینا کوشش کرے گی اب ہم کیسے اپنا دفاع کرسکتے ہیں وہ زیادہ اہم ہے‘ ہر الیکشن میں مسلم پولنگ کا فیصد تناسب گھٹتا جارہا ہے۔ کسی کو کسی سے دلچسپی نہیں رہی۔ بہت سے لوگ اپنی اَنا کی تسکین کے لئے مسلم قیادت کو نقصان پہنچانا بھی چاہتے بھی ہیں‘ اب یہ مجلسی قیادت پر ہے کہ وہ دشمن کو کمزور نہ سمجھتے ہوئے اپنے قلعہ کی فصیلوں، تہہ خانوں اور اپنے آستینوں میں چھپے ہوئے جاسوسوں، مخبروں اور دشمنوں کو تلاش کریں کیوں کہ جو منتخب ہوکر خدمات انجام نہ دیں‘ ہر تعمیر پر اپنے ہی عوام کو پریشان کریں‘ بلدی مسائل کو حل نہ کریں وہ بھی پارٹی کے دوستوں میں شمار نہیں کئے جاسکتے۔
بہرحال! حالات ہمارے حق میں نہیں ہیں‘ یہ وقت آپسی لڑائی، مقابلہ آرائی، غیبت، تنقید کا نہیں ہے‘ سب کو مل کر ایک مقصد کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔ مجلسی قیادت کو شہید مسجد کی دوبارہ تعمیر کیلئے یقینی طور پر ٹی آر ایس قیادت سے بات کرنی ہوگی ا ور جس وقت تک یہ سطور آپ پڑھ رہے ہونگے یہ بات ہوچکی ہوگی۔ ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں اور اس بات پر بھی عمل کریں کہ ہماری ہر تعمیر چاہے‘ گھر کی ہو یا مسجد کی اس طرح سے ہو کہ کل ہم نہ رہیں تب بھی ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھاکر نہ دیکھے۔ ہر کام سلیقے سے جائز طریقہ سے قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے کریں‘ ان شاء اللہ ہمیں کبھی مسائل کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا

Comments are closed.