کمر توڑ مہنگائی اور نفرت کی زبان شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 

مہنگائی کے خلاف احتجاج کو رام مندر سے جوڑ دیا گیا !
اس میں ملک کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ کا کوئی قصور نہیں ہے ، قصورتوعوام کا ہے ، جو نفرت ہی کی زبان کو پسند کرتی ہے ، لہٰذا امیت شاہ نفرت ہی کی زبان بولنے پر مجبور ہیں ۔ کسی کو مودی سرکار سے ، بھلا یہ امید کاہے کو ہے ،کہ وہ مہنگائی ، معاشی بدحالی ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت پر بات کرے گی؟مودی سرکارہی تو ان سارے مسائل کی ذمہ دار ہے ، بھلا وہ کس منھ سے ان مسائل پر بات کر سکتی ہے ! بات کی تو پھنسی ، کیونکہ نہ اس کے پاس مہنگائی سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی ملک کو معاشی بدحالی سے باہر نکالنے اور بے روزگاری پر قابو پانے کا کوئی لائحۂ عمل ہے ، وہ جواب دے گی بھی تو کیا جواب دے گی! سچ یہی ہے کہ ملک ایک انتہائی سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے ، معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے حالیہ معاشی حالات سے ’ حیران نہیں ہیں ۔‘ ماہرین کے مطابق معیشت میں مندی کی وجہ پچھلے کچھ برسوں میں معاشی پالیسی سے متعلق کیے گیےمودی سرکار کے متعدد فیصلے ہیں ، جیسے کہ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی یعنی گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (پورے ملک میں ایک بالواسطہ ٹیکس کا نظام) اور کورونا وائرس کی بدانتظامی اور عوامی ضروریات کی روزمرہ کی اشیاء تک پر جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سبھی فیصلوں کا اثر عام لوگوں پر ہوا ہے ۔ سب سے زیادہ متاثر عام لوگ ہوئے ہیں غریب ، متوسط درمیانی طبقے کے لوگ اور بے روزگار افراد ۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے جولائی میں اپنا جو خبرنامہ جاری کیا تھا ، اس میں اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے خبر نامہ کے مطابق ’’ملک کی معیشت کے حوالے سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ہندوستان میں افراط زر مزید عروج پر پہنچے گا اور یہ 23۔2022 کی چوتھی سہ ماہی تک دوبارہ 6 فیصد سے کم پر آ سکتا ہے۔‘‘ حالانکہ آر بی آئی نے کہا ہے کہ ’’ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے ہندوستان میں مہنگائی قابو میں ہے اورمسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دو سال کے اندر ہدف (4 فیصد) پر واپس لایا جاسکتا ہے‘‘ ، لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ مہنگائی عروج پر پہنچے گی ۔‘‘ آر بی آئی کے مطابق ’’ ہمیں امید ہے کہ ہندوستان میں ضروری مانیٹری پالیسی کے اقدامات دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں زیادہ معتدل ہوں گے اور یہ کہ ہندوستان مہنگائی کو دو سال کے عرصے کے اندر ہدف پر واپس لانے کے قابل ہو جائے گا ، مگر مہنگائی کی بدترین شرح ہمارا پیچھا کرسکتی ہے ۔‘‘ آر بی آئی نے واضح لفظوں میں یہ کہہ دیا ہے کہ دو سال تک مہنگائی کم نہیں ہو سکتی ، ہاں مزید بڑھ سکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان دو سالوں میں عام لوگوں کا کیا ہوگا ! یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دنوں ساری دنیا میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ، لیکن دنیا کے دیگر ممالک مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامت بھی کر رہے ہیں اور یہ کوشش بھی کہ عام لوگ بہت زیادہ متاثر نہ ہوں ، مگر بھارت میں ہو یہ رہا ہے کہ سارا بوجھ عام لوگوں پر لادا جا رہا ہے اور جو دھنّا سیٹھ ہیں ، مودی اور شاہ کے دوست ، وہ ہر طرح کی چھوٹ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ منافع خوری ، بلیک مارکیٹنگ ، ذخیرہ اندوزی اور رشوت خوری نے صورتِ حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے ، اس قدر پیچیدہ کہ بہت سارے لوگ بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں ! ظاہر ہے کہ ان حالات میں بدحالی اور مفلسی میں اضافہ ہوگا ۔ مودی سرکار نے آنکھیں بند کر کے مہنگائی کو بڑھنے دیا ہے ، اب یہی دیکھ لیں کہ خوردنی کی اشیاء پر جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے ! جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ کے بعد 18 جولائی سے ضرورت کی کئی چیزیں مزید مہنگی ہوگئی ہیں ۔ پہلی بار دودھ کی مصنوعات کو جی ایس ٹی کے دائرے میں شامل کیا گیاہے ۔ ٹیٹرا پیکڈ دہی ، لسی اور مکھن کے دودھ پر 5 فیصد جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ یہی نہیں ، غیر برانڈڈ پری پیکڈ اور پری لیبل والے آٹے اور دالوں پر بھی 5 فیصد جی ایس ٹی لگادیاگیا ہے ۔ ایل ای ڈی لائٹس اور ایل ای ڈی لیمپ پر 18 جی ایس ٹی لگانے کے ساتھ بلیڈ ، کاغذ کی قینچی ، پنسل شارپنر ، چمچ ، کانٹے والے چمچ ، سکیمر اور کیک سروس نیز کتابوں وغیرہ پر بھی جی ایس ٹی بڑھا دیا گیاہے ۔ اب ان سب پر 18 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی وصول کیا جارہا ہے ! یہی نہیں ، علاج بھی بہت مہنگا کر دیا گیاہے ، اگر ہسپتال کی طرف سے ایک کمرہ 5000 روپے سے زیادہ روزانہ پر فراہم کیا جاتا ہے ، تو 5 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی ادا کرنا پڑے گا ، ہاں ، آئی سی یو ، آئی سی سی یو ، این آئی سی یو ، روم پر چھوٹ دی جائے گی ۔ گویا یہ کہ یہ سرکار کی مہربانی ہے ! ہوٹل کے کمرے کے لیے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوں گے ۔ اب تک ، 1000 روپے سے کم کرائے کے ہوٹل کے کمروں پر کوئی جی ایس ٹی نہیں تھا ، لیکن اب ایسے کمروں پر بھی 12 فیصد کی شرح سے جی ایس ٹی لگے گا ۔
یہ مہنگائی ہے ، کمر توڑ مہنگائی ، جو عام شہریوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہے ۔ بے روزگاری الگ ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ ہندوستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت بڑی ہے اسی لیے اسے نوجوانوں کی بہت بڑی آبادی والا ملک کہا جاتا ہے ۔ یہاں 2017 سے لے کر 2022 کے درمیان روزگار کے مجموعی مواقع میں گراوٹ کا رجحان 46 فیصد سے گھٹ کر محض 40 فیصد رہ گیاہے ۔ سینٹر فار مانیٹرنگ اکانومی کے مطابق خواتین میں روزگار کے مواقع کی کمی اور بے روزگاری کی حالت اور بھی زیادہ ابتر ہے ۔ خواتین کی ورک فورس سے 21 ملین افراد غائب ہوگیے ہیں اور صرف 9 فیصد ہی ورک فورس میں ایسے رہ گیے ہیں جو برسرروزگار ہیں یا روزگار کی تلاش میں ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں وہ لوگ جو قانونی طور پر روزگار کے لیے مستحق ہیں ان میں آدھی سے زیادہ آبادی روزگار کی تلاش ہی نہیں کررہی ہے ، کیونکہ روزگار کہیں ہے ہی نہیں ! تنخواہ دار ملازمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے کیوں کہ بہت سی نجی کمپنیوں اور اداروں نے کورونا کی عالمی وبا کے دوران اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے نوکریوں میں کٹوتیاں کی ہیں ۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق 15 سے 23 سال کے نوجوان سنہ 2020 میں لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ماہر معیشت امت بھوسلے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جن لوگوں کے پاس ماہانہ تنخواہ کی ملازمتیں تھیں ان میں سے نصف اپنی نوکریاں برقرار نہیں رکھ سکے ۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوکریوں میں شدید کمی کی وجہ صرف عالمی وبا نہیں بلکہ ہندوستان میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پالیسی سازی میں چھوٹے کاروبار اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھا گیاہے ۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں جب بھی بے روزگاری کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب وہ بے روزگار افراد ہوتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں ، ان میں غیر تعلیم یافتہ ، غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند افراد شامل نہیں ہوتے یا یہ کہہ لیں کہ غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے ، جن کی تعداد 90 فیصد ہے ، اس فہرست سے باہر ہوتے ہیں ، لہٰذا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے روزگاروں کی تعداد کتنی زیادہ ہو گی ! عام آدمی کے مقابلے دھنّا سیٹھوں کے حالات بہت مزے کے ہیں ۔ نجی کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے لوٹ پاٹ میں شامل ہیں ، بینک خسارے میں جا رہے ہیں ، گھوٹالے گھپلے کیے جا رہے ہیں ، عوامی ملکیتیں پرائیوٹ ہاتھوں میں سونپی جا رہی ہیں ۔ عام آدمی حیران پریشان کھڑا ہوا ہے ۔
مذکورہ حالات میں کانگریس نے جمعہ 5 ، اگست کے روز مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا ۔ مودی سرکار کو اس احتجاج کا سامنا کرنا چاہیے تھا کہ احتجاج ، کسی بھی جمہوریت میں ، عام لوگوں کا بھی اور حزبِ اختلاف کا بھی ، آئینی حق ہوتا ہے ، لیکن مودی سرکار نے اس احتجاج کو طاقت کے بَل پر روکنے کی کوشش کی اور کانگریس کی پوری قیادت کو حراست میں لے لیا ۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی پر چاہے جو اعتراض کیا جائے لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج اگر مودی اور شاہ کی جوڑی کے خلاف کوئی میدان میں کھڑا ہے تو وہ راہل اور پرینکا اور ان کی سیاسی پارٹی کانگریس ہی ہے ۔ مہنگائی کے خلاف یہ احتجاج ضروری تھا ، اس لیے کہ مودی اور شاہ کی جوڑی کو یہ لگ رہا تھا کہ وہ چاہے جو بھی کریں ، اس ملک میں کوئی بھی ان کے کاموں کی مخالفت کرنے والا نہیں ہے ۔ یہ احتجاج اس لیے بھی ضروری تھا کہ مودی سرکار کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ ابھی ہندوستان میں آواز اٹھانے والے باقی ہیں ۔ یہ احتجاج اس لیے بھی ضروری تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ جبر کے آگے سپر ڈالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ، آواز اٹھانا اور یہ بتانا ضروری ہے کہ ’ ہم ڈرے نہیں ہیں ۔‘ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو ای ڈی کے ذریعے غیر معمولی انداز میں پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا گیا ہے ، شاید کوئی اور ہوتا تو حوصلہ ہار جاتا مگر یہ ڈٹے رہے اور ڈٹے ہوئے ہیں ( یہ شیو سینیکوں کی طرح پیچھے نہیں ہٹے ) ۔ مودی سرکار نے ملک کو جس معاشی تباہی میں ڈھکیلا ہے اُس کا مواخذہ ضروری ہے ، اور یہ سرکار مواخذہ کے لیے تیار نہیں ہے ۔ یہ اس کی ایک دکھتی ہوئی رگ ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ اس رگ کو جب بھی چھیڑا جائے گا اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ’ نفرت کی زبان ‘ بولی جائے گی ، اور امیت شاہ نے یہی کیا ہے ۔ مہنگائی کے خلاف جمعہ 5 ، اگست کو احتجاج تھا ، راہل گاندھی مودی سرکار کو ’ ڈکٹیر شاہی ‘ سے تعبیر کر رہے تھے ، احتجاج روکنے اور لوگوں کو حراست میں لینے کے عمل کو ’ جمہوریت کی موت ‘ قرار دے رہے تھے ، ادھر امیت شاہ مہنگائی کے خلاف اس احتجاج سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اسے ’ رام مندر ‘ سے جوڑنے کا موقع تلاش رہے تھے ۔ اور انہیں موقع ملا ، جھوٹ بولنے کا بھی ، نفرت کو بڑھاوا دینے کا بھی اور لوگوں کی توجہ مہنگائی کی طرف سے ہٹانے کا بھی ۔ یاد رہے کہ اسی روز دو سال قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بھومی پوجا کی تھی ، لہٰذا امیت شاہ بول پڑے کہ یہ راہل ، پرینکا اور کانگریس کا احتجاج رام مندر کے خلاف تھا ، اسی لیے یہ کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے ! وہ تو غنیمت ہوا کہ امیت شاہ نے یہ نہیں کہا کہ یہ سب محرم منا رہے اور ماتم کر رہے تھے ۔ بہت سے ہوں گے ، غریب بھی ، بے روزگار بھی اور مہنگائی کی مار جھیلنے والے بھی ، جو امیت شاہ کی ہاں میں ہاں ملائیں گے ، کیونکہ انہیں نفرت کی ہی بولی بھلی لگتی ہے ، لیکن یقیناً ایسے بھی ہوں گے جن کی آنکھیں پہلی بار کھلی ہوں گی اور جنہوں نے واقعی حالات کی سنگینی کو سمجھا ہو گا ، اور انہیں پہلی بار یہ احساس ہوا ہوگا کہ امیت شاہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا یہ احساس کافی ہے جھوٹ کی حکمرانی کی بنیادیں کھودنے کے لیے ۔

Comments are closed.