یہ کیسی مسلم قیادت ہے ! اتوایہ: شکیل رشید

مہنگائی کیا کانگریسی مسلمانوں کا مسٔلہ نہیں ہے؟
یقیناً اس سوال کا جواب ’ نہیں‘ ہی میں ہوگا ۔ اگر یہ کانگریسی مسلمانوں کا مسٔلہ ہوتا تو مہنگائی کے خلاف احتجاج میں وہ بھی شریک رہتے ۔ لیکن دیکھا گیا کہ سلمان خورشید سے لے کر م افضل تک – اس فہرست میں شکیل احمد ، راشد علوی ، غلام نبی آزاد وغیرہ کو بھی شامل کر لیں – کوئی احتجاج میں نظر نہیں آیا ، اور اگر احتجاج میں شریک بھی رہا ہے ، جس کی خبر مجھے نہیں ہے ، تو بھی ان میں سے کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا ، ہاں کچھ چھوٹے موٹے کانگریسی مسلمان حراست میں ضرور لیے گیے ، اور کانگریس کےبڑے مسلم لیڈر دور کھڑے تماشہ ہی دیکھتے رہے ۔ یہ وہ لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی پارٹی سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا ہے ، اسی کے سہارے ’ نیچے ‘ سے ’ اوپر ‘ آئے اور ملائی کھانے کے لیے ، اسی پارٹی کے لیے مسلمانوں کا جی بھر کر استحصال بھی کیا ، لیکن اب جب کانگریس کا بھارت سے بوریا بستر اٹھتا ہوا نظر آ رہا ہے ، تب ان لیڈروں نے منھ دوسری طرف پھیر لیا ہے ۔ یہ مسلم قیادت کاعجیب سا معاملہ ہے اور قابلِ افسوس بھی ۔ خیر غلام نبی آزاد کا احتجاج سے دور رہنا سمجھ میں آتاہے ، وہ ان دنوں بی جے پی سے کافی قریب ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان دنوں کئی مسلم کانگریسی لیڈر بی جے پی کے ساتھ ، چوری چھپے ہی سہی ، لگے ہوئے ہیں ، تو غلط نہیں ہوگا ۔ اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نظریاتی طور پر وہ بی جے پی سے قربت نہیں رکھتے ہوں گے ۔ پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے : دہلی کے ایک پوش علاقے میں ، ایک بڑے کانگریسی مسلم لیڈر کو ، جو ایک بنگلے سے باہر نکلے تھے ، اپنے کتّے کے ساتھ ٹہلتے دیکھا ، تو اپنے ایک ساتھی سے ، جو سیاست اور سیاسی معاملات کو مجھ سے بہتر سمجھ سکتا ہے ، میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے یہ مسلم لیڈران کتّے کو لے کر ٹہل سکتے ہیں ، اس کی خدمت کر سکتے ہیں ، پھر بھلا اپنی قوم کی طرف سے نظریں کیوں پھیرے رہتے ہیں؟ جواب ملا ؛ اس لیے کہ یہ سب ، کتّے کو لے کر ٹہلانا ، بنگلے سے باہر نکلنا اور پوش علاقے میں رہنا ، ان سے چھن نہ جائے ۔ جی ! یہ خوف ہی ہے ، عیش و آرام کے چھن جانے کا جو انہیں اپنے فرائض سے غافل کیے رہتا ہے ۔ اب تو یہ خوف کہیں زیادہ شدید ہو گیا ہے کہ اب مودی سرکار نے ای ڈی کا استعمال شروع کر دیا ہے ، لہٰذا ان لیڈروں کو اس طرح کے مظاہروں سے دور رہنے ہی میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہے ۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ، ہم سب نے دیکھا ہے کہ مسلم قیادت ، یہاں میں صرف کانگریس کی بات نہیں کر رہا ہوں ، کُل مسلم قیادت کی بات کر رہا ہوں ، عام طور پر عام شہریوں کے مسائل اور ملکی وقومی معاملات پر کیے جانے والے احتجاجات سے دور ہی رہتی ہے ۔ یہ قیادت تو این آر سی جیسے سنگین معاملے پر بھی مظاہرین سے دور رہی ہے ۔ اس کے لیے اپنا سکھ چین و آرام دوسروں کے مسائل پر مقدم ہے ۔ ملک کے حالات انتہائی سنگین ہیں ، صرف ایک بیان جاری کرکے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہونے سے اب کام نہیں چلنے والا ، اب تو ویسی ہی تحریک چھیڑنے کی ضرورت ہے جیسے کبھی اکابر نے چھیڑی تھی ۔ لیکن وہ اکابر تھے ، لالچ اور مادی مفادات سے بے نیاز ، وہ قربان ہونا جانتے تھے ، ان کے لیے ملک اور قوم کے مفادات اولین تھے ۔ اب وہ نہیں ہیں اور نہ ہی ویسے لوگ اب پیدا ہو سکتے ہیں ۔ چلیے نہ قربانی دیں نہ قربان ہوئیں ، لیکن عوامی معاملات میں اتنی شرکت تو کریں کہ کسی کو مسلم قیادت پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے ، کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مسلمان لیڈروں کو ملک اور قوم کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ایک بات مزید ، کچھ قصور کانگریس کی اعلیٰ قیادت کا بھی ہے ، اس نے حالیہ دنوں میں مسلم لیڈران کو پارٹی سے دور جاتے دیکھا لیکن انہیں روکنے اور ساتھ کھڑے کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
Comments are closed.