ہیروشیما: قریب پونے دو لاکھ لوگ ایک سیکنڈ میں مارے گئے تھے۔ تحریر: ہمانشو کمار

اردو ترجمہ: ابوالاعلی سید سبحانی
آج ہی کے دن امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا تھا
جو لوگ مارے گئے اُن میں چھوٹے بچے بھی تھے، بزرگ اور خواتین بھی تھیں
آئیے سوچیں کہ اس طرح کا قتل عام کیا دوبارہ نہیں ہوگا؟
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جنگیں ہوتی ہی کیوں ہیں؟
اصل میں زمین پر جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ انسان کے دماغ میں شروع ہوتی ہے۔
انسان کے دماغ میں جنگ کا خیال دو وجہوں سے آتا ہے:
پہلی وجہ لالچ ہے اور دوسری وجہ نفرت۔
نفرت کی تین بنیادیں ہوتی ہیں:
مذہب، نسل اور ملک۔
انسان دوسرے انسانوں سے ان کے مذہب کی وجہ سے یا نسل کی وجہ سے یا ملک کی وجہ سے نفرت کرتا ہے۔
جیسے بھارت میں پڑوسی ملک کے خلاف جو نفرت پھیلا کر سیاست کی جاتی ہے اس کی بنیاد مذہب اور ملک ہے۔
اسی طرح پڑوسی ملک کے اندر بھی ہمارے خلاف اسی طرح نفرت کی سیاست کی جاتی ہے۔
جنگ کی دوسری وجہ ہے لالچ۔
لالچ کہتے ہیں عیاشی سے بھری زندگی جینے کے شوق کو۔
انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ سے زیادہ مال ودولت ہو۔
مال ودولت قدرتی وسائل سے حاصل ہوتے ہیں؛
اس لیے دنیا میں زیادہ تر جنگیں قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے کی جاتی ہیں۔
امریکہ تیل اور معدنیات کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے ایران، عراق، افغانستان اور دوسرے ممالک جیسے لاطینی امریکی ممالک پر کھلے عام یا پراسرار طریقے سے حملے کرتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایک ایسی دنیا ممکن ہے، جہاں جنگ نہ ہو اور جہاں ایٹم بم کا استعمال دوبارہ نہ ہو اور جہاں لاکھوں لوگوں کو ایک سکنڈ میں نہ مارا جائے؟
جواب الٹا ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہماری زندگی کے وسائل کی فراہمی سے زیادہ قدرتی وسائل کی کھدائی، اور زندگی کے وسائل کی فراہمی سے زیادہ عیاشی کے وسائل، مہنگی کاریں، بڑے گھر، چکنی سڑکیں اور ہر چیز کا شاہی کرن ہی ہمارے لیے نمونہ ہے!
ہم اسی پارٹی کو منتخب کرتے ہیں جو زیادہ وکاس اور ترقی کا وعدہ کرتی ہے!
ترقی اور وکاس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم جتنے امیر ہیں، اس سے زیادہ امیر ہمیں بنا دیا جائے۔
وکاس اور ترقی کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سب کو برابر وسائل ملیں، ہم اپنی زندگی اور طرز زندگی کو ہمیشہ سادہ اور ضروری چیزوں کے استعمال تک محدود کرلیں۔
لیکن اس قسم کے وکاس کو کوئی پسند نہیں کرتا۔
عوام کے درمیان آج جو وکاس اور ترقی کا تصور ہے اس کے لیے آپ آدی واسیوں کی زمینوں کو زبردستی چھینتے ہیں، کسانوں کی فصل لوٹنے کے لیے نئے نئے قانون بناتے ہیں، مزدوروں کے حقوق ختم کرکے ان کی مزدوری کو لوٹنے اور ان کا حق مارنے کے لیے قانون بناتے ہیں۔
یہ سب کرکے آپ دھیرے دھیرے اپنی زندگی کو لٹیری، متشدد اور ایک جنگ کی طرف بڑھانے والی بنا لیتے ہیں۔
پھر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک کے اندرونی وسائل محفوظ رہیں اور دنیا کے باقی ممالک کے وسائل لوٹ لیے جائیں۔
چنانچہ اڈانی آسٹریلیا میں جاکر زمینوں پر قبضہ کرتا ہے، بھارتی سرمایہ دار افریقہ کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں، بین الاقوامی لوٹ مار شروع ہوتی ہے، کمزور سماج والوں کو کچلا جاتا ہے، اور ان کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔
اپنی معاشی پوزیشن کی ترقی اور اس کو مضبوط کرنے کے نام پر ہم اصل میں جنگ کی ہی تیاریاں کررہے ہوتے ہیں۔
پھر ایک دن بلبلا پھٹ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ایک جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جنگ سے نکلنے کا ایک ہی راستہ آپ کو پتہ ہے،
وہ یہ کہ دشمن کو ختم کردو
دشمن کو ختم کرنے کے لیے جتنا زیادہ طاقتور ہتھیار آپ کے پاس ہوگا آپ اسے استعمال کرتے ہیں۔
یاد رکھیے ہیروشیما پر جو بم پھینکا گیا تھا وہ بہت پچھڑا ہوا بم تھا۔
اب تو ہمارے پاس اس سے کئی جنریشن آگے کے ترقی یافتہ بم ہیں۔
اب پوری دنیا کو کئی ہزار بار تباہ کیا جاسکتا ہے اتنے زیادہ بم ہمارے پاس ہیں۔
اور اب بم گرانے کے لئے کسی انسان کی بھی ضرورت نہیں ہے، ایک بٹن دبانے سے ہی یہ بم دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر کروڑوں انسانوں کو ایک سکنڈ میں ختم کرسکتا ہے۔
اب جو جنگ ہوگی اس میں کوئی جیتے گا نہیں، کوئی ہارے گا نہیں۔
اب یا تو سب جئیں گے یا سب مریں گے۔
لیکن ہم نے اگر اپنی زندگی اور طرزِ زندگی لوٹ کھسوٹ والی جاری رکھی تو جنگ ضرور ہوگی۔
اور جنگ ہوگی تو وہ سب کو ختم کردے گی۔
یہ میری سمجھ نہیں ہے، یہ دنیا کے سبھی سائنس دانوں، سبھی سماجی ماہرین، اور سبھی دانشوروں کی سمجھ ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی باتیں کرنے والوں کو آج کل جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے
جو لوگ آپ کی جان بچانے کی کوشش کررہے ہیں، آپ انہیں جیلوں میں بند کردیتے ہیں۔
اور جو لوگ آپ کو تباہ کرنے کی طرف لے جارہے ہیں آپ انہیں پورے ملک کی باگ ڈور سونپ دیتے ہیں۔
آئیے! ہیروشیما ڈے پر اپنے سوچنے کے طریقوں پر پھر سے دھیان دیں۔
(ہمانشو کمار بھارت میں آدی واسیوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے ایک مضبوط سماجی کارکن ہیں۔)
Comments are closed.