شہادتِ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ

از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
(ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک سانحہ روز اول سے ہی ۱۰ محرم الحرام یعنی عاشورا کے دن مقرر تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس کے لاڈلے نواسے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے لختِ جگر تھے۔
آپ کی پیدائش ۵ شعبان۴ھ میں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام حسین رکھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےآپ کو شہد چٹایا اور آپ کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کرکے اپنا لعاب مبارک عطا فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان کے کانوں میں اذان اور اقامت کہی اور آپ نے ہی ان کا عقیقہ کیا اور ان کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ چانچہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے ان کے عقیقہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کیا۔ (موطا امام مالکؒ)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کو اپنے سینہ مبارک پر سلاتے اور شانہ مبارک پر بلند فرماتے گود میں لیتے، بوسہ لیتے، کبھی کبھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں ہوتے تو یہ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے، کبھی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں سے گزرتے رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں بھی ان کا خیال کرتے اور جب تک یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر چڑھے رہتے آپ سجدہ سے سر نہ اٹھاتے۔ کبھی کبھی ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونگھتے اور فرماتے تم اللہ کی عطا کردہ خوشبو ہو۔(ترمذی) امام ترمذی نے یعلی ابن مرہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حسین میرے ہیں اور میں حسین کا، جو حسین سے محبت رکھتا ہے اللہ اسے محبوب رکھتا ہے، حسین میرے ایک نواسے ہیں۔” (ترمذی)
حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: بارش کے فرشتے نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی،آپ صلی علیہ وسلم نے اسے شرف باریابی کا موقع دیا اورساتھ ہی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: دروازے کی طرف دھیان رکھنا، تاکہ کوئی اندر نہ آنے پائے، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کودتے پھاندتے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم تک پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک پر کودنے لگے۔ فرشتے نے فرمایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ فرشتے نے کہا آپ کی امت اسے قتل کر دے گی اور اگر آپ چاہیں تو وہ مٹی لاکر آپ کو دکھلا دوں، جہاں اسے قتل کیا جائے گا، پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور لال رنگ کی ایک مٹھی مٹی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دی۔ (مسند احمد)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے کہ اتنے میں آپ کے پاس حضرت حسین بھی آگئے، میں نے دروازے سے دیکھا تو وہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک پر چڑھے کھیل رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں مٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں، جب حضرت حسین تشریف لے گئے تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین آپ پر نثار ہوں، ابھی میں نے آپ کے دست مبارک میں مٹی کا ڈلا دیکھا اور آپ کی آنکھوں کو اشکباری کرتے پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب مرحمت فرمایا، ام سلمہ! حسین میرے سینے پر کھیل رہے تھے، میں بہت خوش تھا کہ اتنے میں جبرئیل امین نے مجھے وہ مٹی لا کر دی جہاں حسین کو شہید کیا جائے گا، اسی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: ٹھیک دوپہر کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال اور چہرہ مبارک مبارک غبارآلود ہیں اور آپ کے ساتھ ایک شیشی ہے، جس میں خون ہے۔ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔ (مسند احمد)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے: "عرفت ربی من فسخ العزائم” میں نے اپنے پروردگار کو اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے پہچانا۔ بالکل حق اور سچی بات ہے کہ آج تک مرضی مولیٰ کے آگے کسی کی نہ چلی ہے نہ چلے گی۔ اس دنیا میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا کام اللہ رب العزت کی مرضی کے بغیر انجام نہیں پاتا۔ دنیا میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کے پیچھے کتنی حکمتیں و اسرار چھپی ہوتی ہیں ان کا صحیح اندازہ کرپانا کسی انسان کی سوچ سے باہر ہے۔ اس کی حقیقت کا پورا علم صرف اسی وحدہ لاشریک لہ کے پاس ہے جو سب سے بڑا دانا اور زبردست حکمت والا ہے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی خلافت کی بیعت لی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس کو کسی طرح برداشت نہیں کیا اور یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد بہت سے مخلصین، دوست و احباب، خیرخواہ، اورعقیدت مندوں کے روکنے کے باوجود 72 ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ کی جانب رختِ سفر باندھا۔
امید یہ لگاۓ تھے کہ خلافت راشدہ کا قیام عمل میں آئے گا۔ کوفہ میں لوگ روز بروز مسلم بن عقیل کے ہاتھوں پر بیعت کرکے ہمارے منتظر ہوں گے، اب پھر سے خلفاء راشدین جیسی مثالی سلطنت قائم ہوکر ہر طرف عدل و انصاف، صلح و خیر، سکون و اطمینان، حلم و عفو کا بول بالا ہوگا لیکن اس مردِ مجاہد، جگر گوشہِ رسول کو کیا پتہ کہ حالات و واقعات یکسر پلٹ چکے ہیں، دوست اب دوست نہ رہے بلکہ دشمن بن چکے ہیں اور مرید و معتقد ہی بالمقابل کھڑے ہیں۔
قدرت کا نوشتہ دیکھیے! حضرت حسین رضی اللہ عنہ 3 ذی الحجہ بروز دوشنبہ کو مکہ سے روانہ ہوتے ہیں۔ عین اسی دن اسی تاریخ میں کوفہ میں مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا جاتا ہے۔
میدان کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ایسے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ خود آپ کو ان لوگوں کے سامنے جو آپ کی بیعت و خلافت، محبت و مودت کا دم بھرنے والے تھے ان کوفی غداروں کے سامنے ہی خطاب کرکے اپنی نسبت کے تعین کا اعلان کرکے حجت تام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
آپ نے ان بد بختوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے جو آپ کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پانی تک دینے کے روادار نہیں تھے فرماتے ہیں: ’’پہلے تو تم لوگ میری نسبت تو متعین کرو کہ میں کون ہوں، تم میں سے جو مجھ سے واقف ہے اور وہ جو مجھے نہیں جانتا اچھی طرح جان لے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسا ہوں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میرے والد اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا میری والدہ ہیں اور جعفر طیار میرے چچا تھے۔ کیا تمہیں یہ حدیث نہیں پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اور میرے بھائی حسن کو جوانان اہل جنت کا سردار بتایا ہے، اگر تم لوگ میری بات کا یقین نہ کرو تو ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب زندہ ہیں، ان سے تصدیق کرلو! پوچھو جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت ابوسعید خدری، حضرت سہل ابن سعد، حضرت زید بن ارقم اور حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہم سے یہ سب گواہی دیں گے۔
میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی، میں نے کبھی کسی مؤمن کو قتل نہیں کیا، نہ کسی کو اذیت و تکلیف پہنچائی۔
اگر آج عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا باقی رہتا تو عیسائی اس گدھے کی پرورش و پرداخت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، لیکن تم لوگ کیسے مسلمان اور کیسے امتی ہو کہ اپنے رسول کے نواسے کو قتل کرنا چاہتے ہو، نہ تم لوگوں کو خدا کا خوف ہے اور نہ رسول سے حیا ہے، جبکہ میں نے ساری عمر کسی کو قتل نہیں کیا، تو تم لوگ کس کے قصاص میں میرے قتل کے درپے ہو، جب میں دنیا کے جھگڑوں سے یکسو ہوکر مدینہ میں قدم رسول میں پڑا تھا تو تم لوگوں نے مجھے وہاں چین نہ لینے دیا پھر میں مکہ معظمہ میں خانۂ خدا میں اپنے رب کی مناجات میں مصروف تھا تو تم کوفیوں نے وہاں بھی مجھے اطمینان سے نہ رہنے دیا اور میرے پاس مسلسل خطوط روانہ کرتے رہے کہ ہم تم کو خلافت کا اصلی حقدار سمجھتے ہیں اور تمہارے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنا چاہتے ہیں، جب میں تمہارے بلانے کے مطابق یہاں آیا تو تم لوگ برگشتہ ہوگئے، اب بھی اگر تم میری مدد و نصرت کرنا چاہتے ہو تو اتنا کرو کہ مجھے قتل نہ کرو بلکہ آزاد چھوڑ دو تاکہ میں مکہ یا مدینہ جاکر مصروف عبادت ہو جاؤں۔”
لیکن اس کے باوجود اشقیاء کی جماعتوں نے آپ کے 72 ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد آپ کو بھی 10 محرم الحرام 61ھ کو سجدہ کی حالت میں شہید کر دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے کربلا میدان میں صبر و استقامت، ایثار و قربانی، عزم و استقلال، جرأت و جواں مردی، جوش ایمانی کے ساتھ اپنی جان اور اہل و عیال کی بیش بہا قربانی پیش کرکے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے یہ روشن مثال قائم کر دی کہ تحفظ شریعت اور قیام خلافت کے لئے نامساعد حالات اسلحہ اور ساز و سامان اور قلت تعداد کے باوجود باطل کے خلاف کبھی سمجھوتا نہیں کیا جاتا اور ایک سچے مؤمن کی شان ہی یہی ہے کہ وہ کبھی فسق و فجور، شرور و فتن، باطل و گمراہی سے کسی بھی حال میں مصالحت نہیں کرتا، بلکہ کفر و باطل کے خلاف آواز اٹھا کر یہ پیغام دیتا ہے کہ عزت کی موت، حیات جاوداں ہے اور ذلت کی زندگی دراصل حقیقت میں موت ہے۔
سیدنا حسینؓ کے قاتلوں کا انجام:
حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں کو ذلت و خواری کی موت سے دوچار ہونا پڑا۔
حکومت و طاقت کے نشہ میں چور حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا بہت جلد حکومت و طاقت کا نشہ کافور ہوگیا، اور صرف تین سال کی حکومت کے بعد یزید کو موت کے پنجے نے آدبوچا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا معاویہ تخت پر بیٹھنے سے انکار کر دیا پھر تین ماہ بعد 20 سال کی عمر میں اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ پھر 65 ھ میں "عین الورد” کے مقام پر سلیمان ابن صرد کی قیادت میں عراقی و شامی لشکروں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ اس جنگ کو توابین بھی کہتے ہیں چونکہ ان عراقیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بے وفائی کرکے ان کو شہید کرانے کا جرم کیا پھر اس سے تائب ہوکر ان کے خون کا بدلہ لینے کا نعرہ لگایا۔
اس جنگ میں عراقیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن اس کے بعد حضرت حسین کے قاتلوں سے انتقام لینے کا سلسلہ چل پڑا۔ 62ھ میں کوفہ کا گورنر مختار ثقفی نے شمر ذی الجوشن جس نے عبداللہ بن زیاد کے حکم سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو تن سے جدا کیا تھا اس کو گرفتار کرکے قتل کر دیا اور اس کی لاش کو کتوں کے سامنے ڈال دیا جس نے اس کی لاش کو نوچ نوچ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ بتایا جاتا ہے کہ دو سو چالیس افراد کو ایک ہی دن میں قتل کروا دیا اور ان کی لاشوں پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھایا۔
22 ذی الحجہ 66ھ کو مختار نے کوفہ سے ابراہیم بن مالک کو عبداللہ بن زیاد کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کیا پھر نہر حارز کے درمیان نہایت خون ریز جنگ ہوئی جس میں شامیوں کو نہایت ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ خود شامیوں کا سالار اعظم عبداللہ بن زیاد مارا گیا۔ عبداللہ بن زیاد کے جسم کو عراقی سپاہیوں نے جلادیا اور اس کا سر مختار کے پاس کوفہ کی جانب روانہ کر دیا۔ مختار کے سامنے ایک طشت میں عبداللہ بن زیاد کا جب سر لایا گیا تو لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ جس وقت محل میں ابن زیاد کا سر مختار کے سامنے کیا گیا وہ 10 محرم الحرام کی ہی تاریخ تھی۔
اللہ رب العزت ہر زمانے کے ظالموں کو سزا ضرور دیتا ہے، گو کسی مصلحت سے کچھ دیر ہوجائے اگر کوئی حکومت طاقت و قوت، مال و دولت کے نشہ میں چور ہوکر رعایا کے ساتھ ظلم و ناانصافی، استحصال و استبداد، تباہی و بربادی اور لوٹ کھسوٹ کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی طاقت وحکومت کے نشہ میں مظلوم مسلمانوں کے دکانوں اور مکانوں پر بلڈوزر چلاتا ہے تو ایسے ظالم و جابر، فاسق و فاجر حکومت کو اللہ رب العزت کچھ دیر کے لئے ضرور ڈھیل دے دیتا ہے کہ باز آجاؤ! اگر باز آجاتا ہے تو ٹھیک ورنہ اللہ رب العزت ایسی حکومتوں کو بہت جلد نیست و نابود کر دیتا ہے۔
حضرت حسینؓ کے واقعہ سے سبق:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی رگوں میں ماں فاطمہ زہرا کا دودھ اور باپ علی مرتضیٰؓ کا خون دوڑ رہا تھا، اخلاق، پیار و محبت، عظمت و بزرگی، حکمت و شجاعت، صداقت، ایمانداری، عدالت و سخاوت، صبر و شکر، اخلاق و کردار، عفت و پاکدامنی اور جود و سخا میں آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جیتی جاگتی تصویر اور عملی نمونہ تھے۔ ان کی ہر ادا سنت مصطفی تھی، وہ قرآن حکیم کے ہر فرمان کے عملی پیکر بن کر رہے، انہوں نے اقتدار کا مقابلہ بلند کرداری سے، کثرت کا مقابلہ قلت سے، ظلم و بربریت کا مظلومیت اور بے بسی سے کرنے کے ساتھ اپنی ہمت و جسارت، جوانمردی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خون کا ایک ایک قطرہ بہا دیا، لیکن آپ نے اپنی آواز میں پستی نہ آنے دی اور خلافت و ملوکیت کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی اور یہ بتا دیا کہ عقیدہ کی پختگی اور صبر و استقامت سے ہی ایک مسلمان کی زندگی دنیا و آخرت میں کامیاب و سرخ رو ہوسکتی ہے۔
اگر یقین محکم اور مقصد نیک ہو تو راہ خدا میں آنے والے مصائب و آلام اور باطل قوتوں کی دولت و طاقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی باطل نے حق کے مقابلہ میں سر اٹھانے کی کوشش کی، تو حق نے اس کے سر کو کچلا ہے اور باطل کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سرکٹ جائے مگر جھکے نہیں۔ اسلام ظلم کے خلاف اٹھنے اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ کیوں کہ ایسا نہ کیا جائے تو حق مغلوب اور باطل غالب آجائے گا۔
شہادت حسین سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ باطل کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ چاہے جان چلی جائے۔
حالانکہ اس وقت کی حکومت بڑی طاقت ور تھی مگر حضرت حسینؓ نے حق کی خاطر جان دے دی مگر اپنے نانا جان کے دین پر آنچ نہ آنے دیا۔
آپؓ کا مقصد حکومت یا جاہ و جلال نہیں تھا بلکہ دین و اسلام کی بقا، برائی کا خاتمہ اور قرآنی احکامات کی حکمرانی تھی۔
ہمیں شہادت حسین سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ ہمیں اتحاد سے اغیار کے فتنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
شہادت حسین سے پہلی سیکھ یہ ملتی ہے کہ آدمی کو حق اور دین حق سے اس درجہ وابستگی ہونی چاہیے کہ وہ حق کے لئے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے اور اگر جان کی قربانی دے کر حق کی حفاظت و صیانت کی جاسکتی ہو تو اس میں کسی طرح کا پس و پیش نہ کرے۔
(2) شہادت حسین سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ مؤمن کو نامساعد اور ناموافق حالات میں بھی حق پر جمے رہنا چاہئے اور حق سے وابستگی میں کمزوری آنے نہ دینا چاہیے۔
(3) شہادت حسینؓ سے تیسرا سبق یہ ملتا ہے کہ مؤمن کو مخالفانہ ماحول سے متاثر نہ ہونا چاہیے۔
بیعت یزید کے وقت بیشتر لوگ خوف کے مارے سکوت اختیار کئے ہوئے تھے۔ ماحول بالکل مخالفانہ تھا؛ لیکن حضرت حسینؓ نے اس کی پروا نہ کی۔
(4) شہادت حسین سے چوتھا سبق یہ ملتا ہے کہ مؤمن کو حق کے دفاع اور تحفظ کے لئے ظاہری اسباب پر نہ بھروسہ کرنا چاہئے اور نہ ہی ظاہری اسباب اور تعداد و اسلحہ سے مرعوب ہونا چاہیے۔
(5) شہادت حسین سے پانچواں سبق یہ ملتا ہے کہ مصیبت ہو کہ خوشی ہر حال میں مؤمن احکام الٰہی کا پابند رہے۔
کس طرح عین حالاتِ جنگ اور معرکۂ کار زار میں بھی حضرت حسینؓ نے نماز ترک نہیں فرمائی۔
شہادتِ حسین کا ایک سبق دعوت الی اللہ اور حق کے لئے اپنے آپ کو اپنی سہولتوں، آرام اور آسائش کو قربان کرنا ہے۔
اسلام تو ابتداء سے لیکر انتہا تک قربانیوں کا نام ہے۔
گویا ایک مسلمان کی زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے۔ شہادتِ حسین کے ذریعہ صرف اس عہد کا غرور و ملوکیت ہی چکنا چور نہیں ہوی؛ بلکہ پوری تاریخ نے اسلام کے آفاقی پیغام کو ایسے انداز میں پیش کیا کہ حق و باطل کے درمیان ایک حد فاصل کھینچ دیا۔
ہمارے اس ملک کی تازہ صورت حال بھی کچھ اسی طرح کی ہیں۔ مسلمان آج اپنے اس وطن عزیز کے اندر جسے انہوں نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا اور اس کی تعمیر و ترقی میں دوسری قوموں سے کہیں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور اپنا مثبت کردار ادا کیا اور اسے غاصبوں کے چنگل سے آزاد کیا اور اس کی پاسبانی کی۔
آج اسی ملک میں مسلمان سرگرداں اور پریشان کن حالات سے دوچار ہیں اور اس وطن کا سودا کرنے والے برسراقتدار ہیں اور وہ مسلمانوں کا جینا دوبھر کئے ہوئے ہیں، وہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔
مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا شکار بنایا جارہا ہے اور مظلوموں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور ظالم دہشت گردوں کو چھوڑا جارہا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، مسلمانوں کی ہمتیں پست کرنے اور ان کے حوصلوں کو توڑنے اور فنا کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جو ہر پیش آمدہ مصیبت سے سرخ رو ہوکر آگے بڑھے ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام اور مسلمان اس دنیا کا مقدر ہیں، جس دن اسلام نہ رہا، وہ دن اس دنیا کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔ نامساعد حالات سے مسلمانوں کو گھبرانے اور ہمت ہارنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ اللہ پر ایمان و یقین رکھنے والے مسلمان حالات سے مایوس نہیں ہوتے، وہ اپنے خلاف اٹھنے والے طوفانوں سے پست ہمت اور ٹوٹ نہیں جاتے، بلکہ حادثات خواہ کتنے ہی مایوس کن، جان لیوا کیوں نہ ہوں ان میں امید کی کرن موجود ہوتی ہے۔
حالات تو زندہ قوموں پر ہی آتے ہیں، مردہ قوموں سے کوئی نبردآزما نہیں ہوتا۔
اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہمارے ذہنوں میں ہونی چاہئے کہ یہ دنیا مسلمانوں کی منزل نہیں اور نہ ہی اس دنیا کی کسی چیز کے اندر ثبات و پائیداری اور دوام ہے بلکہ اسے ایک نہ ایک دن ضرور ختم ہونا ہے، نہ یہاں کی خوشی دائمی ہے نہ غم، نہ یہاں کا اقتدار و حاکمیت دائمی ہے نہ محکومیت۔ ہاں البتہ ضرور جس خدا پر ہمارا ایمان ہے وہ ہمارا ماویٰ و ملجا ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مسلمانوں کے لئے تو یہ دنیا ایک پڑاؤ ہے، ہماری منزل تو جنت ہے اور خدا کے باغی اور ظالموں کے لئے جہنم ہے جو نہایت ہی بری قرار گاہ ہے۔ لہٰذا حالات موافق ہو یا مخالف مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہاں البتہ حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے عملی اقدامات و تدبیریں کرنے کی ضرورت ہے۔ غور تو کیجیے! کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ مایوس ہوئے؟ نہیں بلکہ ظالم و جابر حکومت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ اس لئے ہمیں اپنا حوصلہ جواں رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اللہ کی طرف رجوع ہوں کیونکہ مایوسی کا شکار وہی ہوتا ہے جس کا اللہ پر اعتماد و بھروسہ نہیں ہوتا۔
آج ان حالات میں ایک بڑا طبقہ شدید مایوسی کا شکار ہے، اس لئے مایوسی کے دلدل سے ہم نکلیں، مسلمانوں کے ساتھ آج جو پیش آمدہ حالات ہیں ایسے حالات مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل یہ امت اس سے کہیں زیادہ کٹھن حالات سے گزر چکی ہے۔ بغداد پر تاتاریوں کا حملہ کوئی معمولی سانحہ تھا؟ ہم اس نبی کے نام لیوا ہیں جنہوں نے سنگین حالات میں بھی امت کو قیصر و کسریٰ پر غلبہ کی بشارت دی، ہم اس دین کے پیروکار ہیں جو مایوسی کو کفر قرار دیتا ہے، اللہ رب العزت نے ان حالات بلکہ اس سے بدتر حالات سے نجات کی خوشخبری دی ہے۔ وہی اللہ ہمیں ہر غم سے نجات دے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا حضرت حسینؓ کی سیرت سے سبق لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
E-mail:- [email protected].
Mob:- 9826268925
Comments are closed.