آزدی میں ہماری بے مثال قربانیوں کا یہی صلہ اور انعام ہے؟؟؟ محمد قمر الزماں ندوی

گزشتہ سے پیوستہ کل ہم لوگوں نے پچھترواں جشن آزادی بہت دھوم دھام سے منایا، خاص طور پر دینی مدارس اور مکاتب میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی دیش بھکتی کا مظاہرہ کیا گیا،بعض لوگوں نے تو عقیدہ و ایمان کے حدود کو بھی پھلانگ دیا اور توحید و ایمان کے منافی اشعار،نظمیں اور کردار و اعمال پیش کرکے، اپنے ایمان و عقیدہ کو خطرے میں ڈال دیا،حب الوطنی ثابت کرنے میں ایسا بھوت سوار ہوا کہ عقیدہ توحید کے منافی اوٹ پٹانگ نظم بک گئے، ایک صاحب نے بتایا کہ ایک جگہ پڑھا گیا۔۔
وطن کی مٹی کو ہم ناپاک نہیں کرتے

پتہ نہیں انہیں بشری تقاضا یعنی پیشاب پاخانہ کی ضرورت پڑتی ہے کہ نہیں ، ایک جگہ پڑھا گیا۔۔۔
وطن، جان و ایماں سے افضل ہے

وندے ماترم نظم اور بھارت ماتا کی جے کا نعرہ تو اب ان کی نظر میں گناہ ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
یہ وہ لوگ ہیں جو خوف کے نفسیات میں مبتلا ہیں،احساس کمتری، احساس کہتری، اور مرعوبیت کے شکار ہیں۔۔۔
بہر حال ہم سب ہندستانیوں کو بلا تفریق قوم ملت، مسلک و مشرب، ذات و برادری اور مذہب و دھرم جشن آزادی منانے کا پورا پورا حق ہے، کیونکہ اسی تاریخ کو ہمارا ملک انگریزوں کے چنگل اور غلامی سے آزاد ہوا، ہم تسلیم کرتے ہیں اور کرنا چاہیے کہ یہ ملک ہندو مسلم کی مشترکہ کوشش اور جہد و جہد سے انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، لیکن ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے اور ایک ایک ہندوستانی کو یہ بتانا چاہیےکہ اس ملک کی آزادی میں سب سے اہم رول اور کردار مسلمانوں کا رہا ہے، برادران وطن تو غدر کے بعد ، بلکہ اس کے بھی بہت بعد ہمارے ساتھ آئے اور پھر حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے شانہ بشانہ اس لڑائی میں شریک ہوگئے ، اس سے پہلے ان کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا، لیکن افسوس کہ آج جب جشن آزادی اور جشن جمہوریہ کے موقع پر آزادی کے سورماؤں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، تو مسلم مجاہدین آزادی کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے، ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے،صرف اشفاق اللہ خان اور مولانا آزاد کا نام لیا جاتا ہے، یہ تاریخ کو منھ چڑھانا ہے۔ اور حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کرنا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اس بار بہت سی جگہ مولانا آزاد کے نام کو بھی گول اور حذف کر گئے، ان کا نام بھی نہیں لیا گیا۔ یہ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔۔۔۔۔
ہر سال کی طرح آزادی کا جشن پھر اس سال لوگوں نے منایا، گزشتہ سالوں سے زیادہ اتساہ اور ہرس لاب کا ماحول تھا،ہر گھر ترنگا پہنچایا گیا۔لیکن ملک کی موجودہ حالات، یہاں کی موجودہ معیشت ، غربت اور بے روزگاری، آپسی بھید بھاؤ ، نفرت، تعصب،اونچ نیچ،عدالتی کاروائی میں تاخیر،اور مہنگائی کی وجہ سے پورے ملک میں ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ جی ایس ٹی کی مار نے لوگوں کو بدحال کر رکھا ہے، بے روزگاری آج ملک کا سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے، پورے ملک کی معیشت پر ۱۲/ فیصد پنجی پتی اور ساہو کاروں کا قبضہ ہے، بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور پنجی پتیوں کے سرکاری سود کو دوستانہ تعلقات کی وجہ سے معاف کیا جارہا ہے، میڈیا کے لوگ حکومت کی چاپلوسی میں ہر غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط بنا کر پیش کررہے ہیں، یہ لوگ حکومت کے لونڈی اور غلام بنے ہوئے ہیں۔
تو دوسری طرف ملک میں غریب لوگ سرکاری سود کے بوجھ سے خود کشی کر رہے ہیں۔ اکثر لوگوں کا احساس ہے کہ آزاد ہندوستان کا یہ پہلا جشن آزادی تھا، جب بھوک سے بدحال فاقہ کشوں کو روٹی دینے کے بجائے جشن آزادی کا ترنگا تمھایا گیا اور بیماروں کو دوا علاج کے بجائے دیش بھکتی کا نغمہ سنایا جارہا تھا، جس ملک میں دوا، دودھ، کاپی کتاب،نمک،پنسل، دال، چاول اور آٹا، چاکلیٹ اور بسکٹ جیسی بنیادی ضروری اشیاء پر جی آیس ٹی ہو، ان اشیاء پر ٹیکس ہو، وہاں کے باشندے جشن آزادی کی حقیقی خوشی کیسے منا سکتے ہیں؟ ۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ملک کی معیشت کو بہتر بنایا جائے، بے روزگاروں کو روزگار دیا جائے،غریبوں اور پسماندہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے، حصول تعلیم کو مفت،آسان اور سستا بنایا جائے، عدالتی نظام کو چوکس اور مستحکم کیا جائے، عدالتوں کو خود مختاری ملے۔ اور سب سے بڑھ کر نفرت کے ماحول کو ختم کرے دلوں کو جوڑا جائے، پریم بھائی چارہ، مانوتا و انسانیت اور الفت و محبت کو عام کیا جائے۔ اس کے بغیر ہم لوگ آزادی کا صحیح لطف اور مسرت حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ آج یہ ملک نفرت و تعصب کی آگ میں سلگ رہا ہے، اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کیا جارہا ہے، ان کے ساتھ سوتیلا سلوک ہے، مرکزی حکومت کا ایک جمبو جیٹ وزارت ہے سو سوا سو کبینیٹ اور وزیر مملکت ہیں، لیکن افسوس کہ اتنی بڑی مرکزی وزارت میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے، موجودہ حکمراں جماعت کا ایک بھی مسلمان ممبر اسمبلی اور ممبر پارلیمنٹ نہیں ہے۔ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں سے کس قدر نفرت پائی جاتی ہے، ۲۹/ راجیوں میں شاید ایک صوبہ ہے جہاں کا گورنر مسلمان ہے اور ایسا پڑھا پڑھایا غلام ہے کہ زعفرانی لوگوں سے بھی زیادہ اس کو مسلمانوں سے نفرت ہے، مسلمانوں کے اندر اس کو کوئی خوبی اور کمال نظر ہی نہیں آتا ہے، یہ سب اسی تربیت کا نتیجہ ہے، جس ماحول میں وہ حضرت جی رہ رہے ہیں اور پل رہے ہیں۔
میرا احساس ہے بلکہ ہر صاحب عقل و خرد ہماری تائید کریں گے کہ مرکزی حکومت کا نظام جب سے نئے ہاتھوں میں آیا ہے اس کے بعد ہی سے ملک کے حالات عجیب و غریب بنتے جارہے ہیں، ملک کی میڈیا کے ذریعہ غیر معمولی سوالوں کو دیش بھکتی سے جوڑ کر ایک خاص طبقے یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور دوسری طرف اکثر یتی فرقہ کے لوگوں اور بطور خاص نوجوانوں کے ذہن میں نفرت کا بیج بویا جارہا ہے۔ ان حالات کے اثرات سڑکوں گلیوں، محلوں اور سفروں میں نظر آنے لگے ہیں۔ اب تو جنگ آزادی کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے جس میں سب کچھ قربان کردینے والی مسلمان قوم کی قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور ان کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جن کی آزادی کی لڑائی میں کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو پارٹی ساٹھ سال کے قریب حکومت کرتی رہی اس کی حصہ داری تو ہے، لیکن یہ کہنا کہ پوری جنگ آزادی اسی کی دین ہے یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔۔
ضرورت ہے کہ ہم تاریخ کا صحیح مطالعہ کریں اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان حقائق سے روشناس کرائیں، ملک کی سالمیت، اکھنڈتا اور ایکتا کے لیے اپنی بھر پور صلاحیت خرچ کریں، ہندو مسلم دوری کو حکمت و دانشمندی سے دور کریں، خوف کی نفسیات سے اپنے کو باہر کریں، اپنے ملی تقاضے کو پورا کریں، جس مقصد کے لیے ہمیں جانشین انبیاء بنایا گیا ہے، اس مقصد پر کھرے اتریں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے اور ہمارا فرض منصبی بھی۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین

Comments are closed.