شہرِ آرزو کی موجِ نسیم                                             ✍ ظفر امام 

      ١٦/جولائی ٢٠٢٢؁ء کے سہ پہر کا وقت تھا،دن کے اس پہر بھی دھوپ بےطرح پڑ رہی تھی،راستے تقریبا سنسان تھے،مگر میں کسی ضروری کام کی وجہ سے اس دن صبح ہی سے راہ نوردی میں مصروف تھا کہ سر پر سہ پہر کا وقت آن پہونچا،ظہر کی جماعت کو گھنٹہ بھر کا عرصہ گزر چکا تھا (ہمارے دیہی علاقوں میں یہ بھی ایک خرابی ہے کہ وہ ہر موسم میں ظہر کی نماز ایک متعینہ وقت میں ہی پڑھتے ہیں، جبکہ سردی اور گرمی کے اوقات کے افتراق کا ذکر احادیث کی کتابوں میں موجود ہے کہ گرمی میں ظہر کی نماز ذرا تاخیر سے پڑھنی چاہیے مگر ہمارے دیہات میں جلدی پڑھنے کا جو رواج برسوں سے جاری ہے مجال ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی تخلف ہو) گوکہ اب بھی میرے ذمے کام باقی تھے مگر میں صبح کا چلا اب تھکن سے چور ہو رہا تھا اور ادھر بھوک اور پیاس کی ترکتازی بھی اب آگے کی راہ میں رخنہ انداز ہو رہی تھی، علاوہ ازیں مجھے ظہر کی نماز بھی پڑھنی تھی،سو میں دن کے اس پہر ایک گاؤں کی مسجد میں جا پہونچا۔

وضو سے فراغت کے بعد جب دھوپ کی تمازت سے نکل کر مسجد کی چھت کے نیچے پہونچا اور جیب سے موبائل نکال کر واٹس ایپ کھولا تو اسکرین پر ایک جانے مانے نمبر سے آئے ہوئے وائس میسیج پر نظر پڑی،اس میسیج کو دیکھ کر فورا یاد آگیا کہ آج ١٦/جولائی ہے،شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر پہلے اس میسیج کو سنا،میسیج کیا تھا بس یوں کہہ لیجیے جیسے کسی نے میسیج نہیں بلکہ ہفت اقلیم کی دولت بھیجی ہو،دنیا جہان کی نعمت ارسال کی ہو،میں خوشی سے جھوم اٹھا، میں خوشی سے نم دیدہ ہوگیا،آنکھوں کے دریا میں مجھے آنسوؤں کے قطرے تیرتے محسوس ہوئے،اس سے پہلے صرف تعبیرات کی حد تک ہی افسانوں میں پڑھا کرتا تھا کہ” جسے سن کر آنکھیں نمناک ہوگئیں “ مگر اس دن شاید یہ میرا پہلا تجربہ تھا کہ میری آنکھیں حقیقت میں خوشی سے ڈبڈبا آئی تھیں“۔

قارئین یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اس میسیج میں ایسا تھا کیا کہ جس نے مجھے خوشی و مسرت کے لہکتے گلزار میں پہونچا دیا تھا، تو عرض ہے کہ بقرعید سے چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ مجھے کسی کی معرفت اطلاع ملی کہ پیر و مرشد،نمونۂ اسلاف حضرت اقدس الحاج مفتی صبیح اختر صاحب قاسمی کشن گنجی دامت برکاتہم العالیہ (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ جلالیہ ہوجائی آسام) حج کو جا رہے ہیں،اس اطلاع کا ملنا تھا کہ دل کی تختی پر ایک اَن دیکھی کسک کی لہر دوڑ پڑی،حسرتیں کروٹیں بدلنے لگیں اور دور افقِ دل سے یہ صدا آتی سنائی دینے لگی کہ ” اے کاش اپنی بھی کسی طرح کی کوئی سبیل نکل آتی تو افتاں و خیزاں ایک بار کعبے کے غلاف اور گنبد خضراء کی جالیوں کو ضرور دیکھ آتا۔

پھر دل نے کہا کہ چلو کوئی نہیں اگر اللہ کو منظور ہوا تو ایک نہ ایک دن ضرور مدینے سے بلاوا آئےگا،ان کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں،ظاہری اسباب اور مادی مال و متاع سے وہ ماوراء ہے،وہی دل مدینہ پہونچ پاتا ہے جس میں عشق نبی کی قندیلیں فروزاں ہوں،چاہت رسول کے دیپ جلتے ہوں،میں لاکھ قصوروار سہی مگر الحمدللہ ہر ڈھلتے دن اور چھاتی رات میں عشق کی یہ قندیلیں میرے دل میں ضرور جل اٹھتی ہیں،سردست حضرت مفتی صاحب سے روضۂ اقدس پر سلام پہونچانے کی درخواست کردی جائے،کیا عجب ہے کہ سلام کی یہی محبت مدینہ لے جانا کا ذریعہ بن جائے،باوجودیکہ اس سے پہلے بھی کئی لوگوں سے درخواست کرچکا تھا کہ نام لیکر میرا سلام روضۂ اقدس پر پہونچا دیجیے گا،مگر نفسا نفسی کے اس دور میں بھلا کون کس کو یاد رکھتا ہے، مگر مجھے حضرت مفتی صاحب کی ذات سے بھر پور امید تھی کہ حضرت ضرور بالضرور میری اس مراد کو بارآور کریں گے،سوجھجھکتے اور شرماتے حضرت مفتی صاحب کو میں نے میسیج کیا کہ ”حضرت اگر ہوسکے تو اس ناچیز کو بھی اپنی نیک دعاؤں میں یاد رکھیں،بالخصوص نام لیکر اس آوارہ گرد کا سلام روضۂ اطہر پر پہونچادیں“ حضرت مفتی صاحب نے نہایت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ  ” تمہارا نام لے کر ضرور سلام پہونچاؤں گا،مگر ہوسکتا ہے عین وقت پر بھول جاؤں اس لئے  ١٦/جولائی کو ذرا مجھے یاد دلا دینا،میں ١٦/جولائی کو مدینہ میں ہوں گا“۔

اس کے بعد مجھے اس تاریخ کا شدت سے انتظار رہنے لگا،مگر اس دن کسی کام میں اتنا مگن ہوگیا کہ مجھے موقع ہی نہیں ملا کہ حضرت کو یاد دلادوں،موقع کی تاک میں رہا کہ کب موقع ملتا ہے کہ میسیج کروں یہاں تک کہ دن کا سہ پہر افق عالم پر نمودار ہوگیا،دھوپ کی تمازت اس دن قہر برپا کر رہی تھی،میں دن بھر کا تھکا ہارا ایک مسجد میں جا پہونچا اور جونہی موبائل نکالا سامنے اسکرین پر حضرت مفتی صاحب کا میسیج میرا انتظار کر رہا تھا،میسیج سنا،سن کر از خود رفتہ ہوگیا،آنکھوں کی سطح پر موٹے موٹے قطرے اتر آئے،تھکن سے چور اس موقع پر یک بیک میری حالت اس صحرائی مسافر کی سی ہوگئی جسے بیابان میں ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد کسی درخت کا فرحت انگیز سایہ نصیب ہوا ہو،اور اسے یوں محسوس ہو رہا ہو جیسے تھکن سے دور تک کا بھی اس کا کوئی واسطہ نہیں۔

میں تصور میں مدینے کی ان گلیوں میں پہونچ گیا جن میں اب تک پیارے آقا ﷺ کے پسینے کی بُو اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یادیں بسی ہوئی ہیں،جو آج بھی اپنے بطن میں پھرنے والے انسانوں کو اپنے ماضی کی شاندار تاریخ بتاتی اور انہیں اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کا گُرسکھاتی ہیں،میرے خیالات ان کوچوں میں گردش کرنے لگے جہاں کبھی میرے آقا ﷺ کے پاؤں مبارک پڑاکرتے اور صحابۂ کرامؓ کی مقدس اور بابرکت جماعت وہاں کی خاک کو اٹھا کر اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا کرتی،میں کچھ دیر کے لئے اس زمانے کی آغوش میں سما گیا جب بنفس نفیس فخر کائنات اس کے تختے پر چلا کرتے جن کی تابناکی اور تابداری کو دیکھ کر سورج کی شعاعیں،چاند کی کرنیں، تاروں کی چمک اور پھولوں کی مہک بھی رشک کرنے لگتیں، آج جب اس شہرِ آرزو کی ایک موجِ نسیم نے میرے کانوں میں سرگوشی کی تو میں خود کو بےخود ہونے سے روک نہ سکا،آنسوؤں کے ساتھ میری ہچکیاں بھی بندھ آئی تھیں،ان ہچکیوں میں بس یہی ایک التجا تھی کہ خداوندا جیتے جی ایک بار ضرور اس شہرِ آرزو کی سیر کرا لانا۔

پھر میں نے انہی نمناک آنکھوں کے ساتھ نماز کی نیت باندھ لی،  پورے نماز میں، میں اشک ریز رہا اور یہ سوچتا رہا کہ جس دیار سے موج نسیم میرے لئے یہ پیغام لائی ہے نہ جانے اس دیار والے کا موقف مجھ خطاکار اور سراپا گنہ گار کے سلسلے میں کیا ہے؟معلوم نہیں انہوں نے میری طرف سے بھیجے گئے سلام کو سن کر تبسم فرمایا تھا یا اپنا رخ موڑ لیا تھا۔

نماز کے بعد میں نے حضرت مفتی صاحب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ نامہ بھیجا اور دل میں فیصلہ کرلیا کہ آج رات ہی اس کو مختصر لکھوں گا مگر ہائے رے شور بختی کہ اسی دن مغرب کے وقت میرا موبائل گم ہوگیا،جس کی وجہ سے سارے منصوبوں پر مٹی پڑ گئی،کئی دنوں کے بعد موبائل تو لے لیا مگر اس بیچ غفلت کی آندھیوں نے اس زور سے گھیرلیا کہ ہر دن ارادہ کرنے کے باجود بھی نہ لکھ سکا،آج نہ چاہتے ہوئے بھی یہ چند بےہنگم سطریں لکھنے میں کامیاب ہوسکا ہوں،اس امید کے ساتھ کہ اس خوشی کا حق تو ادا نہ کرسکا مگر جتنا بھی کیا یہی ایک بےمایہ شخص کے لئے بہت ہے۔

              ظفر امام،کھجورباڑی 

                                    دارالعلوم بہادرگنج 

                                   ١٧/اگست ٢٠٢٢؁ء

Comments are closed.