ابراہم معاہدے: امن کی چمک یا مفادات کا اندھیرا؟

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
جب دنیا میں امن کے نام پر معاہدے کیے جاتے ہیں، تو اکثر اُن معاہدوں کے صفحات پر خوشنما الفاظ اور وعدے درج ہوتے ہیں۔ مگر انہی صفحات کے حاشیوں پر تاریخ کے زخم، مظلوموں کی صدائیں، اور مفادات کی روشنائی بھی لکھی ہوتی ہے۔ "ابراہم معاہدے” بھی ایسے ہی ایک باب کا آغاز تھے!!! بظاہر سفارتی کامیابی، مگر باطن میں کئی سوالات، خاموشی کی چیخیں، اور اصولوں سے ہٹ کر کی گئی مصلحتوں کا نوحہ۔
یہ معاہدے ایک ایسے خطے میں طے پائے، جہاں ریت کے ذروں میں بھی صدیاں بولتی ہیں، اور ہر معاہدہ صرف سیاسی نہیں بلکہ تہذیبی، مذہبی اور تاریخی معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ہونے والے ابراہم معاہدات نے جہاں بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک نئی سمت متعین کی، وہیں مشرقِ وسطیٰ کے نقشے پر ایک نئی فکری، اخلاقی اور سیاسی خلیج بھی پیدا کر دی۔
اس تحریر کا مقصد محض ایک معاہدے کا تجزیہ کرنا نہیں، بلکہ اُس پوری فکری و تاریخی جدلیات کو سمجھنا ہے، جو ان معاہدات کے پس منظر میں چھپی ہوئی ہے۔ یہاں سوال صرف سفارتی تعلقات یا اقتصادی تعاون کا نہیں، بلکہ انصاف، اصول، اور مظلوموں کے ساتھ وفاداری کا ہے۔ اس مضمون میں ہم ابراہم معاہدات کے مختلف پہلوؤں کا غیر جانبدارانہ مگر باوقار تجزیہ کریں گے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ یہ معاہدے واقعی امن کی چمک ہیں، یا مفادات کا اندھیرا۔
ابراہم معاہدے (Abraham Accords) مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم سفارتی پیش رفت کا نام ہے، جو اسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اور معاشی و سیکیورٹی تعاون پر مبنی ہے۔ ان معاہدوں کو "ابراہم” (Abraham) کا نام دینا اس لیے بھی علامتی ہے کیونکہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب حضرت ابراہیمؑ کو اپنا جدِّ امجد مانتے ہیں۔
ماضی میں، اسرائیل اور بیشتر عرب ممالک کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات نہیں تھے، بالخصوص فلسطین کے مسئلے کی وجہ سے۔ تاہم، 2020ء میں امریکہ کی ثالثی میں ان معاہدات نے کئی دہائیوں پر محیط سفارتی تعطل کو توڑا۔
● اہم معاہدات کی تفصیلات — سفارت کاری کے پردے میں تاریخ کی نئی تشکیل
ابراہم معاہدے کی زنجیر، جو بظاہر امن، تعاون اور ترقی کے خوشنما عنوانات سے مزین ہے، دراصل ایک پیچیدہ سفارتی جال ہے، جس کے ہر کَڑی میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی تاریخ، فلسطینیوں کی محرومی، اور مسلم دنیا کی نظریاتی کشمکش پیوست ہے۔ یہ معاہدات ایک ایسے دور میں طے پائے، جب صدیاں پرانی دشمنی ایک نئی مصلحت کے تحت "معمول” (Normalization) میں ڈھالی جانے لگی۔
ان معاہدات کی روح کو سمجھنے کے لیے ان کی تاریخی اور سیاسی تفصیلات کو شعوری نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ محض چند ممالک کے باہمی سفارتی فیصلے نہیں، بلکہ ایک نئے عالمی بیانیے کی تشکیل کا حصہ ہیں، جس کا مقصد اسرائیل کے غاصبانہ وجود کو عالمِ عرب میں تسلیم کروانا اور فلسطینی جدوجہد کو غیر مرئی بنانا ہے۔
1. اسرائیل – متحدہ عرب امارات معاہدہ (13؍ اگست 2020ء)
اس سفارتی باب کا پہلا صفحہ متحدہ عرب امارات کے ہاتھوں لکھا گیا، جب 13؍ اگست 2020ء کو امارات نے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اس معاہدے کی روشنی میں دونوں ممالک نے نہ صرف سفارت خانے کھولنے پر اتفاق کیا، بلکہ تجارت، سرمایہ کاری، سیاحت، زراعت، ٹیکنالوجی، اور دفاع کے شعبوں میں بھی ہمہ جہت تعاون کا عندیہ دیا۔
یہاں اسرائیل نے مغربی کنارے کے مزید علاقوں کے انضمام کو وقتی طور پر مؤخر کرنے کا وعدہ کیا—مگر مؤخر، منسوخ نہیں۔ گویا فلسطینی سرزمین پر قبضہ برقرار رہا، صرف اسے وقتی سفارتی دھند سے چھپا دیا گیا۔ اس معاہدے نے خطے میں ایک نئی سیاسی لہر کو جنم دیا، جو بظاہر روشن تھی مگر فلسطینیوں کے لیے گہری تاریکی کا پیش خیمہ بنی۔
2. اسرائیل – بحرین معاہدہ (11؍ ستمبر 2020ء)
امارات کے بعد بحرین بھی 11؍ ستمبر 2020ء کو امریکی ثالثی کے تحت اسرائیل سے ہاتھ ملانے والوں میں شامل ہو گیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان تھا، بلکہ عرب لیگ کے دیرینہ بیانیے سے انحراف کا ایک اور سنگ میل بھی تھا۔ بحرین، جو اپنے چھوٹے حجم کے باوجود خطے میں اسلامی شناخت اور فلسطینی حمایت کا دعوے دار رہا، اب نئے عالمی دباؤ کا حصّہ بنتا چلا گیا۔
3. اسرائیل – سوڈان معاہدہ (اکتوبر 2020ء)
اکتوبر 2020ء میں سوڈان، جو عشروں تک اسرائیل کا سخت ناقد اور فلسطینی جدوجہد کا حامی رہا، اچانک ابراہم معاہدوں کی لہر میں بہتا ہوا نظر آیا۔ اگرچہ اس معاہدے کی مکمل سفارتی تفصیلات ابھی واضح نہیں، تاہم سوڈان نے امن کی نیت اور سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے امریکی پابندیاں ہٹانے اور بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے کی خواہش کارفرما تھی، نہ کہ فلسطینی کاز کے کسی واضح حل کی پیش رفت۔
4. اسرائیل – مراکش معاہدہ (دسمبر 2020ء)
دسمبر 2020ء میں مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کر دیا، مگر اس معاہدے کی اصل قیمت فلسطین نہیں بلکہ مغربی صحارا کے مسئلے پر چکائی گئی۔ امریکہ نے، اس معاہدے کے عوض، مراکش کے مغربی صحارا پر دعوے کو تسلیم کیا—گویا فلسطینی کاز کو ایک اور جغرافیائی مسئلے کے سودے میں قربان کر دیا گیا۔ مراکش، جو بیت المقدس کی حفاظت کے دعوے داروں میں شامل رہا، اب ایک نئی جغرافیائی حقیقت کے عوض تاریخی دعووں سے پیچھے ہٹتا نظر آیا۔
یہ تمام معاہدے ایک نئے سفارتی بیانیے کی تشکیل ہیں—ایسا بیانیہ جو فلسطینی درد و الم، اسلامی وحدت، اور اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اقتصادی مفادات، تزویراتی اتحاد، اور جیوپولیٹیکل انجینئرنگ کو فوقیت دیتا ہے۔ ان معاہدات کی موجودگی میں اسرائیل کو نہ صرف خطے میں قانونی جواز حاصل ہوا، بلکہ اس کی پالیسیوں کو خاموش منظوری بھی ملی۔
اگرچہ یہ معاہدے دنیا کے لیے ایک نئی سفارتی فتح سمجھے گئے، مگر فلسطین کے لیے یہ نئے زخموں کا آغاز تھے، جنہیں نہ الفاظ بھر سکتے ہیں، نہ وقتی معذرتیں۔ ابراہم معاہدات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کبھی کبھی امن کے نام پر ایسی سودے بازی بھی ہوتی ہے، جس میں حق، اصول اور تاریخ کو میز پر رکھ کر صرف طاقت اور مفاد کی بولی لگائی جاتی ہے۔
یہ معاہدے تاریخ کے اوراق پر ایک چمکتے باب کے طور پر محفوظ کیے جائیں گے۔ مگر ان کے حاشیے پر فلسطین کے آنسو، القدس کی پکار، اور مسلم دنیا کی خاموش تقسیم کا نوحہ بھی تحریر ہوگا۔
● مفاہمت یا مصلحت؟ سفارتی منڈی میں فلسطین کی قیمت
ابراہم معاہدات جہاں ایک طرف سفارتی تعلقات کی بحالی اور "امن” کے نام پر ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کا خاکہ پیش کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی تہہ میں طاقت، مفاد اور عالمی سودے بازی کا وہ کھیل بھی چھپا ہے جو ہمیشہ سے بڑی طاقتوں کی سفارت کاری کا جزوِ لازم رہا ہے۔ ان معاہدات کی پشت پر سب سے سرگرم کردار ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تھا، جو محض ثالث نہیں بلکہ ان معاہدات کا اصل معمار، ضامن، اور فائدہ اٹھانے والا بھی تھا۔
امریکہ نے ان معاہدات کو کامیاب بنانے کے لیے محض امن کا خواب نہیں دکھایا، بلکہ خواب کے ساتھ مراعات کا طشت بھی پیش کیا—ایسی مراعات جو عسکری، اقتصادی اور سفارتی سطح پر اربوں ڈالر کی قیمت رکھتی تھیں۔ ہر وہ ملک جو اسرائیل سے ہاتھ ملانے پر آمادہ ہوا، اسے کسی نہ کسی صورت میں امریکی عنایتوں کا انعام ملا۔
اس سودے بازی کا سب سے نمایاں پہلو متحدہ عرب امارات کو جدید ترین F-35 جنگی طیاروں کی فروخت تھا۔ یہ طیارے امریکہ کی جدید عسکری ٹیکنالوجی کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور ان کا حصول محض تجارت نہیں، بلکہ اعتماد، وابستگی، اور جیو اسٹریٹجک وفاداری کا نشان بھی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے! کیا یہ طیارے واقعی امن کے محافظ ہوں گے، یا خطے میں طاقت کا توازن مزید بگڑ جائے گا؟ جو معاہدہ امن کے نام پر کیا گیا، اُس کے عوض اسلحے کی فراہمی اور جنگی صلاحیتوں میں اضافہ۔ یہ کیسا امن ہے جو ہتھیاروں کے سودے سے مضبوط کیا جا رہا ہے؟
اسی طرح مراکش کو اسرائیل سے تعلقات کے بدلے امریکہ کی جانب سے مغربی صحارا پر خودمختاری کے دعوے کی تائید حاصل ہوئی۔ یہ ایک سفارتی انعام تھا، مگر اس میں فلسطینی مسئلے کو ایک اور عالمی تنازع کی بھینٹ چڑھانے کی بُو صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ گویا ایک مظلوم قوم کی حمایت سے دستبردار ہو کر، ایک اور جغرافیائی فائدے کی قیمت چکائی گئی۔
سوڈان، جس پر ماضی میں دہشتگردی کی معاونت کے الزامات کے تحت امریکہ کی سخت اقتصادی پابندیاں عائد تھیں، اسے اسرائیل سے تعلقات کی صورت میں ان پابندیوں کے خاتمے اور عالمی تنہائی سے باہر نکلنے کی نوید دی گئی۔ یہ گویا وہ قیدی تھا جس سے کہا گیا: اگر تم اسرائیل سے ہاتھ ملا لو، تو ہم تمہیں آزادی کی سانس لینے دیں گے۔
امریکہ کی یہ پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ ابراہم معاہدات کا دامن صرف امن کے دعووں سے بھرا نہیں، بلکہ اس کے اندر طاقت کی سیاست، معاشی ترغیب، اور سفارتی سودے بازی کی پرتیں بھی جمی ہوئی ہیں۔
یہ معاہدات، اگرچہ ظاہراً دشمنی کے خاتمے، ترقی کے فروغ اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی علامت قرار دیے گئے، لیکن ان کے گرد ڈالر، ہتھیار، اور تسلیم شدہ مفادات کا ایک خاموش بازار بھی بسا ہوا ہے۔ جہاں مظلوموں کے حقوق، تاریخی جدوجہد اور مذہبی حساسیتوں کو قیمت میں شامل نہیں کیا گیا۔
ابراہم معاہدات کے تحت دی جانے والی امریکی مراعات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سفارت کاری کی دنیا میں اصول نہیں، مفادات بولتے ہیں؛ امن نہیں، توازنِ طاقت کی نئی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ معاہدات ہمیں ایک بار پھر اس پرانے سوال پر لا کھڑا کرتے ہیں! کیا امن واقعی خرید و فروخت کی ایک شے بن چکا ہے؟ اگر جواب ہاں ہے، تو تاریخ اس امن کو خریدی ہوئی خاموشی اور کمزوروں پر ڈھائے گئے "نظم” کے نام سے یاد رکھے گی، نہ کہ حقیقی مصالحت کے نام سے۔
● جھوٹے مقاصد اور دعوے — سچائی کے پس پردہ سفارتی فریب
ابراہم معاہدے جن نعروں، دعووں اور مقاصد کے ساتھ پیش کیے گئے، وہ بظاہر خطے میں امن، ترقی اور بین الاقوامی ہم آہنگی کی ایک خوشنما تصویر تراشتے ہیں۔ ان معاہدات کے مدّاحین اسے نئے مشرقِ وسطیٰ کا آغاز قرار دیتے ہیں، جہاں جنگ کے بجائے مکالمہ، دشمنی کے بجائے شراکت داری، اور تنہائی کے بجائے انضمام کی روش اپنائی جائے گی۔ مگر اگر ان نعرۂ امن کے پردوں کو ہٹایا جائے، تو نیچے سیاسی مفادات، تزویراتی کھیل، اور اخلاقی تضادات کی ایک تلخ حقیقت چمکتی دکھائی دیتی ہے۔
1. خطے میں امن و استحکام کا دعویٰ
یہ معاہدے امن کے نام پر وجود میں لائے گئے، مگر وہ امن جو فلسطینی زمین پر تاحال ناپید ہے۔ یہ کیسا امن ہے جو غزہ کی گلیوں میں ملبے اور ماتم کو نظر انداز کرتا ہے؟ جس میں اسرائیلی مظالم کے شکار مظلومین کو خاموشی سے تماشائی بنایا گیا؟ امن کا حقیقی مفہوم تبھی بامعنی ہوتا ہے جب وہ انصاف سے جُڑا ہو۔ بصورتِ دیگر، یہ معاہدے محض طاقتوروں کے لیے ایک "سفارتی فتح” اور کمزوروں کے لیے ایک "تاریخی شکست” بن جاتے ہیں۔
2. ایران کے خلاف اتحاد بنانا
ان معاہدات کے غیر اعلانیہ مقاصد میں ایک بڑا مقصد ایران کے خلاف علاقائی اتحاد تشکیل دینا ہے۔ امن کے نام پر کیے گئے یہ معاہدے دراصل ایک نئی سرد جنگ کے خدوخال لیے ہوئے ہیں، جہاں مذہبی مسالک، سیاسی مفادات، اور علاقائی بالا دستی کی خواہشات کو خوشنما الفاظ میں چھپا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یوں یہ معاہدے خطے میں ہم آہنگی کے بجائے نئی محاذ آرائیوں کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں۔
3. فلسطینی تنازع سے ہٹ کر اقتصادی تعاون کی کوشش
ان معاہدات کے تحت فلسطینی مسئلے کو پس منظر میں دھکیل کر، توجہ کا مرکز تجارت، سرمایہ کاری، اور ٹیکنالوجی بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایسا طرزِ فکر ہے جو ظلم کے وجود کو تسلیم کیے بغیر ترقی کی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ترقی جو عدل کی بنیاد سے محروم ہو، وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ فلسطین، جس کی زمین پر معاہدات کی سیاسی قیمت چکائی گئی، اُسے اقتصادی اشتراک کی اس بساط پر کوئی واضح مقام نہیں دیا گیا۔
4. نئی نسلوں کو "نارملائزیشن” کی طرف مائل کرنا
ابراہم معاہدے صرف موجودہ سیاسی قیادتوں کے فیصلے نہیں، بلکہ وہ نئی نسلوں کے اذہان میں ایک بیانیہ تشکیل دینے کی شعوری کوشش بھی ہیں۔ میڈیا، تعلیم، اور ثقافتی تبادلوں کے ذریعے فلسطین کے ساتھ تاریخی ہمدردی کو مدھم کرنا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ایک "نارمل” حقیقت کے طور پر پیش کرنا—یہ ایک گہری فکری حکمتِ عملی ہے۔ یہ کوشش گویا اُس اجتماعی شعور کو دھندلانے کی ایک مہم ہے، جو نسلوں سے مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف مزاحمت کی بنیاد پر قائم رہا ہے۔
یوں یہ معاہدے جنہیں دنیا امن و استحکام کا سنگِ میل کہہ رہی ہے، درحقیقت کئی غیر ظاہر مفادات، اخلاقی پیچیدگیوں اور تاریخی غفلتوں کا مرکب ہیں۔ ان کے مقاصد بظاہر سنہرے ہیں، مگر ان کے نیچے چھپے حقائق گہرے سائے رکھتے ہیں—جن سائے میں فلسطین کا حق، اُمّت کا اتحاد، اور عدل کا معیار دھندلا پڑ رہا ہے۔
یہ معاہدے ہمیں ایک بنیادی سوال کی طرف لے جاتے ہیں! کیا وہ ترقی جو مظلوم کی چیخوں کو خاموشی سے روند کر حاصل کی جائے، واقعی ترقی کہلانے کی مستحق ہے؟ اگر نہیں، تو ابراہم معاہدے ایک نہیں، کئی اخلاقی سوالات کی بازگشت ہیں، جن کے جواب وقت دے گا… یا تاریخ۔
● "ابراہم معاہدے” — فلسطینی اور اسلامی دنیا کا ردِّ عمل
جب ابراہم معاہدے کی روشنائی ابھی کاغذ پر خشک بھی نہ ہوئی تھی، تبھی فلسطین کی فضاؤں میں ایک نئی بے چینی نے جنم لیا۔ فلسطینی قیادت اور عوام کے لیے یہ معاہدے کسی تاریخی کامیابی کے بجائے ایک تلخ یاد، ایک اذیت ناک دھوکہ بن کر اُبھرے۔ رام اللہ سے غزہ تک، ان معاہدوں کو "پیٹھ میں چھرا گھونپنے” سے تشبیہ دی گئی—ایسا عمل جو بھائی چارے، حمایت، اور عرب اتحاد کی طویل روایت کو یکایک روند کر گزر گیا۔
فلسطینی مؤقف واضح اور دوٹوک تھا۔ ابراہم معاہدے عرب دنیا کے اُس اجتماعی عہد سے انحراف تھے، جو 2002ء کے عرب لیگ امن منصوبے میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک منصوبہ جس نے ایک اصولی موقف اختیار کیا تھا کہ جب تک اسرائیل 1967ء کی حدود پر واپس نہیں آتا، مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتا، اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق بحال نہیں کیے جاتے، تب تک اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر ان معاہدوں نے گویا ان اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر، اسرائیل کو سفارتی و سیاسی جواز عطاء کر دیا، جسے فلسطینی قیادت ایک کھلی غداری کے مترادف قرار دیتی ہے۔
یہی درد اور مزاحمت کی فضا عالمِ اسلام کے مختلف خطوں میں بھی دیکھی گئی۔ اگرچہ کچھ مسلم حکومتوں نے ریاستی مفادات اور علاقائی توازنات کے تحت ان معاہدوں کو قبول کیا، مگر عوامی سطح پر ردِّ عمل شدید، جذباتی اور غم و غصّے سے بھرپور تھا۔ سڑکوں پر مظاہرے، سوشل میڈیا پر احتجاج، اور علما کی تقاریر میں ان معاہدوں کو "قضیہ فلسطین” کے ساتھ خیانت اور اسرائیلی ناجائز قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔
بہت سے مبصرین نے ان معاہدات کو سیاسی حقیقت پسندی اور مذہبی و اخلاقی اصولوں کے درمیان کشمکش کی ایک علامت قرار دیا۔ ایک طرف عالمی سیاست کی شطرنج پر طاقت، معیشت، اور علاقائی اتحادوں کے مہرے چلائے جا رہے تھے، تو دوسری طرف بیت المقدس، الاقصیٰ، اور شہیدوں کے لہو کی پکار تھی، جو نسلوں سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے خواب میں ڈھلی ہوئی تھی۔
ابراہم معاہدے کے بعد پیدا ہونے والی یہ دو رخی کیفیت۔ جہاں ایک طرف امن، ترقی اور تعاون کی باتیں ہو رہی تھیں، اور دوسری طرف ناانصافی، ناراضی اور بے وفائی کے الزامات۔ یہ اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات محض جغرافیائی یا سیاسی نوعیت کے نہیں، بلکہ تاریخی زخموں، مذہبی حساسیتوں، اور قوموں کی اجتماعی حافظے سے جڑے ہوئے ہیں۔
یوں ابراہم معاہدے نہ صرف سفارتی تعلقات کی ایک نئی جہت ہیں، بلکہ ضمیر، سیاست اور نظریات کے درمیان ایک آزمائش بھی بن گئے ہیں، جس کے اثرات وقت کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
● ابراہم معاہدات کے بعد کا مشرقِ وسطیٰ: امن یا اضطراب؟
ابراہم معاہدے کی روشنی میں مشرقِ وسطیٰ کی فضا بظاہر ایک نئی کروٹ لیتی دکھائی دیتی ہے۔ اسرائیل اور بعض عرب ریاستوں کے درمیان جو طویل مدّت تک فاصلوں، شکوک اور خاموشیوں کا رشتہ رہا، وہ اب براہِ راست پروازوں، تجارتی معاہدوں، تکنیکی تعاون، اور سرمایہ کاری کے پُلوں میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ ہوائی جہاز، جو کبھی فضاؤں میں پرواز کرنے سے قبل ان دِلوں کے بوجھ تلے رُک جاتے تھے، اب تل ابیب سے ابوظہبی، منامہ اور رباط کی جانب رواں دواں ہیں۔ بظاہر یہ منظر نامہ ترقی، اشتراک، اور بین الاقوامی ہم آہنگی کا مظہر لگتا ہے۔
مگر اگر اس ظاہری چمک کے نیچے جھانکا جائے، تو وہاں ایک تلخ حقیقت اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ فلسطین، جو اس پورے قضیے کی روح ہے، آج بھی نااُمیدی، بے وطنی، اور زخم خوردہ تاریخ کا اسیر ہے۔ جس لمحے عرب دنیا کے کچھ حصّے اسرائیل سے ہاتھ ملا رہے تھے، اُسی لمحے غربِ اردن، غزہ، اور یروشلم کے مکین بے بسی کی نگاہ سے ان معاہدوں کو دیکھ رہے تھے، جیسے کوئی قافلہ اپنے زخمی ساتھی کو بیابان میں چھوڑ کر منزل کی طرف بڑھ جائے۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ فلسطینی مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے، اور اس مسئلے کے حل کے بغیر پورے خطے میں "پائیدار امن” کا خواب، محض ایک سراب ہی رہے گا۔ ابراہم معاہدے نے بلاشبہ ایک نیا سفارتی باب کھولا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ مزاحمت اور اختلاف کی ایک نئی خلیج بھی جنم لے چکی ہے۔ ایسی خلیج جو صرف فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان نہیں، بلکہ مسلم دنیا کے اندر بھی نظریاتی و سیاسی سطح پر تقسیم پیدا کر رہی ہے۔
یہ معاہدے جسے دنیا امن، ترقی، اور باہمی تعاون کی ایک علامت کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے، اُن کے پس پردہ سیاسی مصلحتیں، جغرافیائی جوڑ توڑ، اور طاقت کی بازی گری کا ایک پیچیدہ جال بھی بُنا گیا ہے۔ کچھ ناقدین کے نزدیک یہ معاہدے فلسطینی حقوق کی صریح نظر اندازی اور اُن قربانیوں کی بے قدری ہیں جو عشروں پر محیط جدوجہد میں دی گئیں۔
مسلم اُمّہ کی وحدت، جو کبھی فلسطینی کاز کے گرد سمٹ جایا کرتی تھی، اب ان معاہدات کے بعد نئے تضادات کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک طرف معاشی ترقی اور عالمی تنہائی سے نکلنے کی کوششیں ہیں، تو دوسری طرف تاریخ، عقیدہ، اور مظلوم کے حق میں کھڑے ہونے کی اخلاقی ذمّہ داریاں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ابراہم معاہدے نہ صرف ایک نئی سفارتی سمت کی نمائندگی کرتے ہیں، بلکہ ایک اخلاقی و فکری کشمکش کی عکاسی بھی ہیں۔ یہ معاہدے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کسی خطے کا حقیقی امن صرف ہوائی راہوں، تجارتی معاہدوں یا ٹیکنالوجی کے تبادلے سے نہیں آتا!! بلکہ انصاف، خودمختاری، اور انسانی وقار کی بحالی سے آتا ہے۔ اور جب تک فلسطین کی سر زمین پر یہ اصول غالب نہیں آتے، ابراہم معاہدے کی روشنی بھی ایک ادھوری، جھلملاتی اور ناپائیدار روشنی ہی رہے گی۔
امن کے آئینے میں سچ کی دھند
ابراہم معاہدات کو اگر صرف سفارتی کامیابی کے زاویے سے دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ معاہدے خطے میں ایک نئی راہ متعین کرتے ہیں۔ ایسی راہ جو تجارت، ترقی اور تعلقات کی روشنی سے مزین ہے۔ لیکن اگر ان معاہدات کو اُس تاریخی پس منظر، مذہبی جذبات، اور فلسطینی عوام کے درد کے تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ روشنی کئی اندھیروں کو اپنے ساتھ لیے چلتی ہے۔
سوال صرف یہ نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا گیا، بلکہ یہ ہے کہ کیا اُس کو تسلیم کرتے ہوئے تاریخ کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا؟ کیا وہ اصول، جن پر اُمّتِ مسلمہ دہائیوں سے متفق تھی، آج مفادات کے مقابلے میں مضمحل ہو گئے؟ کیا ترقی کا مطلب یہ ہے کہ مظلوم کی آواز کو دبا دیا جائے، اور انصاف کو نظر انداز کر کے صرف سفارتی تصاویر کو کامیابی کہا جائے؟
ابراہم معاہدے ایک موقع تھے کہ دنیا کو یہ دکھایا جائے کہ امن، طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ انصاف کی بنیاد سے قائم ہوتا ہے۔ مگر افسوس، یہ موقع بھی طاقت، مفاد اور مجبوری کی نذر ہو گیا۔ فلسطین، جو صرف ایک سر زمین نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک جدوجہد، اور ایک ضمیر کی صدا ہے۔ آج بھی اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں کل تھا: تنہا، زخمی، اور سوال کرتی ہوئی۔
یہ معاہدات تاریخ میں محفوظ ہو جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے!!! کس کی تاریخ میں؟ ظالم کی، یا مظلوم کی؟ طاقتور کی، یا حق کے متلاشی کی؟ وقت گزر جائے گا، معاہدوں کے کاغذ زرد ہو جائیں گے، لیکن فلسطینی بچّے، شہیدوں کے لہو، اور الاقصیٰ کی اذانیں گواہی دیں گی کہ امن صرف لفظوں سے نہیں آتا!! وہ اصول، عدل اور سچائی کا تقاضا کرتا ہے۔
اگر امن وہ ہے جس میں مظلوم کی آواز گم ہو جائے، تو ہمیں اس "امن” پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ کیونکہ جو امن عدل سے خالی ہو، وہ دراصل امن نہیں، مفادات کی ایک عارضی چادر ہے!! جو وقت کے تیز جھونکوں میں اُڑ سکتی ہے… اور تاریخ پھر سے خود کو دہرا سکتی ہے۔

Comments are closed.