یہ کیسی الجھن ہے جس کا حل، سردست کسی کے پاس نہیں

یہ کیسی الجھن ہے جس کا حل، سردست کسی کے پاس نہیں

جعفر حسین ماپکر
+91 86685 56701
میرا حلقہ احباب وسیع نہیں ہے تو محدود بھی نہیں. کچھ لوگوں سے وقتی طور پر شناسائی بھی رہی، وقت کے ساتھ ساتھ کچھ شناساؤں سے قربت بڑھی تو دوستی بھی ہوئی. کلیم صاحب بھی میرے کچھ اسطرح سے ہی دوست بنے. موصوف کی شادی کو برسوں گذرے مگر پاپا یا ابا کہنے والا کوئی نہیں. میاں بیوی کا بہتیرا علاج معالجہ بھی ہوا، وقت بیتا مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہی رہے اور شاید اسی لئے وہ افسردہ رہتے تھے.
ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ مجھے مفتی صاحب سے کچھ بات کرنی ہے، اگر آپ ساتھ رہیں تو مجھے اچھا لگے گا. فجر کی نماز کے بعد کلیم صاحب، میں اور مفتی صاحب، نزدیکی ریسٹورنٹ میں گئے. کلیم صاحب نے بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے اپنے بارے میں جتنا ضروری تھا، وہ سب مفتی صاحب کو بتایا. انہوں نے اپنی افسردگی کی وجہ بھی اولاد کا نہ ہونا ہی بتایا. آخر میں ہچکچاہٹ سے انہوں نے مفتی صاحب سے پوچھا ” میں اولاد کی خاطر دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہوں، مگر میری بیوی رضا مند نہیں. کیا اس کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ میرے جائز مطالبے کو نہ مانے اور اللہ تعالی کی حلال کردہ چيز کوحرام قرار دے ؟ میری بیوی الحمد للہ اسلامی تعلیمات کی پابند ہے، پھر بھی وہ میری دوسری شادی کے لئے راضی نہیں ہوتی. آپ اس معاملے میں میری رہنمائی کریں تو ممنون رہوں گا“. یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئے.
مفتی صاحب نے ان سے کہا کہ کلیم صاحب، شریعت اسلامی کی رو سے شوہر اس بات کا پابند نہیں کہ وہ دوسری شادی کے متعلق پہلی بیوی یا اپنے کسی بھی رشتے دار سے اجازت طلب کرے. لہٰذا دوسرے نکاح کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا شرعاً شوہر، پابند نہیں. پھر کہنے لگے کہ اب دوسری شادی اتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں اس کے لئے شریعت نے کچھ شرطیں بیان کی ہیں. تب جا کر ایک مسلمان مرد اپنا دوسرا نکاح کرسکتا ہے
پہلی شرط : دونوں بیویوں میں عدل قائم کرسکے ۔اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء:3 ) یعنی اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے ۔
دوسری شرط: دونوں بیوی کو کھلانے کی طاقت ہو، اللہ کا فرمان ہے : وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (النور:33)
ترجمہ: اوران لوگوں کوپاکدامن رہنا چاہیے جواپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے مالدار کردے ۔
تیسری شرط : مرد میں ایک سے زائد عورت کے لئے قوت مردانگی موجود ہو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : من استطاع منكم الباءةَ فليتزوجْ (صحیح مسلم) یعنی تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہی شادی کر ے. ان شرائط کی اگر آپ پابندی کرسکتے ہیں تو آپ دوسری شادی کرسکتے ہیں ورنہ نہیں.
کلیم صاحب اس ضمن میں یہ دھیان رہے کہ دوسری شادی کےبعض حقوق وآداب ہوتے ہیں. بیویوں کے حقوق میں سے ہے کہ دونوں کے درمیان رات بسر کرنے کے لئے باری متعین کرنی ہوگی، اسی طرح سفر پہ جانے کے لئے بیوی کے نام سے آپ کو قرع اندازی کرنی ہوگی پھر جس کا نام آئے اسے سفر پہ لے جانا ہوگا. دونوں بیویوں کے لئے یکساں کھانے ،رہائش اور کپڑے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اسی طرح دونوں بیویوں کو الگ الگ کمرے میں رکھے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عورت کا ستر دوسری عورت کے لئے دیکھنا جائز نہیں ہے. کسی ایک بیوی کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا شرعاً ناجائز ہے اور حدیث میں اس کی بہت سخت وعید آئی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چل دیئے. یہ سب سن کر کلیم صاحب کو چپ لگ گئی.
میں نے ان سے پوچھا مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیوی سے دوسری شادی کے متعلق بات کی تو اس نے ٹکا سا جواب دیا کہ بچہ گود لو میاں، میں تمہیں کسی کے بھی ساتھ شئیر کرنے سے رہی. سالے صاحبان نے آکر دھمکیاں دیں کہ دوسری شادی کروگے تو ہم تمہیں دیکھ لینگے. کلیم صاحب نے پولیس رپورٹ تو درج کرائی ہے مگر بھابھی جی کو سمجھا نہیں پا رہے ہیں . بیوی نے جب دیکھا کہ وہ دوسری شادی کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں تو ان سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ دوسری شادی کرتے ہیں تو بے شک کریں، مگر اسے طلاق دیں اور وہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کے حق میں بالکل نہیں ہے.
میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اولاد نرینہ کے لئے نکاح کرتے ہیں تو کچھ عیاشیوں کے لئے. کچھ لوگ ”تو نہیں تو اور سہی کے قائل ہیں“. جہاں تک میں کلیم صاحب کو جانتا اور سمجھتا ہوں، وہ ایک سمجھدار اور سُلجھے ہوئے انسان ہیں. بزنس مین ہیں اور اللہ تعالیٰ نے وسعت بھی دے رکھی ہے. بظاہر دونوں میں کوئی نقص نہیں ہے تو اولاد کا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی ہوئی. اگر وہ دوسرا نکاح اولاد کی خاطر کرنا چاہتے ہیں تو کیا حرج ہے. یہ ان کا حق ہے. انہیں اپنی ذمہ داری کا بخوبی اندازہ بھی ہے اور احساس بھی. جہاں جائز وجہ ہو تو پھر کیا مانع ہے کہ ان کی بیوی راضی نہیں ہوتی. یہاں آکر لوگوں کا اسلام اور ایمان بدل جاتا ہے. میں ان کی باتوں کو سُن کر کافی پریشان رہا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ بیشک ہم اپنی ذات اور مفاد کے حوالے سے بٹے ہوئے لوگ ہیں. مگر سوال یہ ہے کہ اسطرح کی عقل وفراست اور ایمان کے ساتھ، کیا ہم واقعتاً مسلمان ہیں؟
حعفر حیسن ماپکر

Comments are closed.