حضرت مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات علم و تحقیق اور دعوت و اصلاح کی دنیا کےلیے بظاہر ناقابل تلافی نقصان

 

جنرل سکریٹری بورڈ کا تعزیتی بیان

 

نئی دہلی: ۲۷؍اگست

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنی تعزیتی بیان میں کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد جن چند گنے چنے اہل علم نے اسلام کی مؤثر ترجمانی اور اعتدال و میانہ روی کے ساتھ مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے؛ ان میں بہت ہی نمایاں نام حضرت مولانا سید جلال الدین عمری صاحب کا ہے، وہ ایک بلند پایہ مصنف، صاحب نظر محقق، زمانہ شناس داعی اور ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل شخصیت تھے، انہوں نے اپنی تحریروں میں نوجوان نسل کو اپنا مخاطب بنایا اور عصر حاضر میں ہونے والے مسائل پر گہری بصیرت اور اعتدال کے ساتھ روشنی ڈالی، وہ پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے، انہوں نے خواتین کے مسائل، خاندانی زندگی کی دشواریاں، دعوت دین کا طریقہ اور اصلاح و تربیت کو اپنا خصوصی موضوع بنایا۔ وہ تین دورانیہ تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، اور عرصہ سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر بھی تھے، وہ مسلکی اختلاف سے بالاتر ہوکر اپنی بات کہتے تھے، اور اسی لیے ہر حلقہ میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، اس حقیر پر بھی ان کی بڑی شفقت تھی، وہ جب بھی حیدرآباد تشریف لاتے؛ اس گنہگار سے ملاقات کے خواہش مند رہتے۔ یقینا ان کی وفات نے علمی اور فکری دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔

Comments are closed.