مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد نے اپنے ہی طلبہ کا مستقبل لگایا داؤ پر

سیف الرحمن کی خصوصی رپورٹ
ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کی انتظامیہ نے اپنے 40 طلباء پر بڑی کارروائی کرتے ہوئے اُنکا رزلٹ روک دیا ہے اور اس بارے میں یہ خبر بھی ہے کہ اُن میں سے بڑی تعداد کو ہاسٹل سے بھی نکال دیا ہے ساتھ ہی طلباء کی ایک بڑی تعداد کے 03 سال تک یونیورسٹی میں داخلہ لینے پر روک لگادی ہے تو وہیں کئی طلباء لیڈران پر مستقبل میں یونیوسٹی کے طلباء یونین کے انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے پر بھی روک لگا دیا گیا ہے- ان تمام کارروائیوں کے ساتھ ہی طلباء پر 01 ہزار سے لیکر 05 ہزار تک کا جرمانہ بھی لگایا گیا ہے- یونیورسٹی انتظامیہ کی یہ کارروائی طلباء کی طرف سے گزشتہ 06 اور 07 جون کو یونیورسٹی کے صدر دروازے پر میس فیس میں اضافہ کے خلاف ہوئے مظاہرے کو لیکر کیا گیا ہے- یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ مئی مہینے کا طلباء کا میس فیس لسٹ آیا تو اُس میں سابقہ مہینوں کے مقابلے قریب آٹھ سو روپے زیادہ مانگے گئے تھے جس سے ناراض طلباء نے طلباء یونین کے اعلان پر یہ مظاہرہ منعقد کیا تھا جس کو انتظامیہ کے ذریعے درخواست کرنے کے بعد طلباء یونین نے انتظامیہ کی طرف سے مثبت اقدام کی امیدوں کے ساتھ ختم کردیا تھا اور اس موقع پر انتظامیہ نے وعدہ کیا تھا کہ مظاہرے میں شامل قریب 500 طلباء میں سے کسی پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی لیکن انتظامیہ نے اپنے وعدے کے بر خلاف پہلے طلباء کے کھانے سے چکن کا ایک آئٹم ختم کردیا تو وہیں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا کر پہلے تو سمسٹر امتحان کے زمانے میں ہی بہت سے طلباء کو پوچھ تاچھ کے نام پر ہراساں کیا گیا اور پھر سمسٹر کی چھٹی ہو جانے کے بعد جب طلباء گھروں کو چلے گئے تب اس بڑی کارروائی کا اعلان 18 اگست و 19 اگست کو کیا گیا- اس میں حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ یہ کارروائی طلباء یونین کے لیڈران پر بھی کیا گیا ہے-
اس معاملے پر ٹائمس آف انڈیا نے یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر عظیم الدین کا بیان لکھا ہے کہ "طلباء کو میس فیس میں 600 سے 700 روپے بڑھنے سے مسئلہ تھا تو انہیں احتجاج کا مکمل حق ہے لیکن اُنہوں نے صدر دروازہ کیوں بند کیا اور تعلیمی و غیر تعلیمی ملازمین کیلئے خلل کیوں پیدا کیا؟ عظیم الدین صاحب نے کہا کہ میس کے معاملات سے یونیورسٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ طلباء اور میس انچارج دیکھتے ہیں جو کہ وصول کرنے اور منصوبہ بندی کا کام کرتے ہیں پھر یونیورسٹی کے خلاف مظاہرہ کیوں کیا گیا؟
پراکٹر کے اس بیان پر مانو کے ایک طالب علم نے اسے بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ میس و ہاسٹل کے معاملات بنیادی طور پر انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے جسمیں طلباء کے بیچ سے بنے میس انچارج کا کوئی خاص کردار نہیں رہتا ہے
اس بیچ طلباء یونین کے صدر مرسلین اسلم، نائب صدر ابو حمزہ اور جوائنٹ سیکرٹری انم جہاں سمیت یونیورسٹی کے تمام طلباء لیڈران اور کیمپس فرنٹ آف انڈیا، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن، آزاد نیشنل اسٹوڈنٹس اسوسیشن،آزاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس فیڈریشن،آل انڈیا آزاد اسٹوڈنٹس لیگ،مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت یونیورسٹی میں موجود تمام طلباء تنظیموں نے یونیورسٹی کے اس اقدام کو غیر قانونی اور ظلم بتاتے ہوئے فوری طور پر اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ہی یہ خبر بھی ہے کہ طلباء برادری کی طرف سے یونیورسٹی انتظامیہ سے بات چیت کی کوشش کے ساتھ ہی قانونی کارروائی کی تیاری بھی ہو رہی ہے کہ اگر انتظامیہ نے فیصلہ واپس نہیں لیا تو طلباء معاملہ تلنگانہ ہائی کورٹ سمیت دیگر متعلق قانونی اداروں کے پاس لیکر بھی جائنگے-
یقینا یونیورسٹی کا یہ قدم جہاں ایک طرف آواز اٹھانے کے بنیادی جمہوری حقوق کے خلاف ہے تو وہیں طلباء کے ایک بڑی تعداد کے کیرئیر کو تباہ کر دینے والا بھی ایک قدم ہے کیونکہ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ کئی سارے طلباء کورس مکمّل کر لینے کے بعد مانو میں ہی تو کئی دیگر یونیورسٹی میں اگلے کورس میں داخلہ لے رہےتھے یہاں تک کہ ایسے طلباء بھی ہیں جنکا مانو سے ماسٹرس مکمّل ہوا ہے اور ریسرچ میں مانو کا داخلہ امتحان نکال چکے ہیں مگر اب ان تمام کیلئے یہ داخلہ لے پانا نا ممکن ہوگا جو کہ اُنکا کیرئیر برباد کرنے کے مترادف ہے یہاں تک کہ کچھ ضرورت مند طلباء نوکری کے سلسلے میں بھی جا رہے تھے جنکا روزگار بھی رزلٹ نہیں مل پانے کی وجہ سے خطرے میں آ چکا ہے ایسے میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ سے ہر طرف سے یہ مانگ کی جا رہی ہے اور اُمّید جتائی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرینگے اور طلباء کے کیریئر و انکے جمہوری حقوق کی حفاظت کرنے کا کام کرینگے.
Comments are closed.