مولانا سید جلال الدین عمری جوار رحمت میں۔آفتاب غروب ہوگیا مگر روشنی باقی ہے: مولانا محمداحمدبیگ ندوی

قومی صدرآل انڈیا امامس کونسل، و سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تعزیتی کلمات
لکھنؤ (پریس ریلیز)
مولانا سید جلال الدین انصر عمری رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال بالخصوص اسلامیان ہند اور بالعموم تمام مسلمانان عالم کے لیے ایک جانکاہ حادثہ ہے، 1935 میں تاملناڈو کی سرزمین پر آپ کی ولادت ہوئی، اپنے صوبے میں تعلیمی مراحل طے کرکے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی، اوائلِ عمر ہی سے لکھنے پڑھنے کا ذوق موجود تھا، رفتہ رفتہ یہ ذوق پرون چڑھتا رہا اور ایک شعوری نصب العین کی طرف ان کا رہوار قلم تیز گامی کے ساتھ ایسے موضوعات کی طرف بڑھتا رہا، جن موضوعات پر ماضی کی تین چار دہائیوں میں ہمارے ملکی اسلامک اسکالروں میں سے کم ہی لوگوں نے توجہ کی ہے، لکھنے والوں کی کمی نہیں، البتہ اوریجنل لیٹریچر کے خالق شاذ ونادر ہی ملیں گے، مرحوم معاصر اسلامک موضوعات بالخصوص فکر اسلامی پر لکھنے والوں میں اپنی ایک الگ پہچان اور انفرادیت رکھتے ہیں، راقم نے سیکڑوں مصنفین کی تحریریں پڑھی ہیں، مگر جو عالمانہ وقار، محققانہ انداز ، متوازن و البیلا طرز نگارش، زبان وبیان کا در وبست، فضول لفاظی و عبارت آرائی سے پاک ان کی تحریروں کا قیمتی ذخیرہ عصر جدید میں اسلام کا ترجمان اور مختلف پہلوؤں سے اسلام کی صداقت اور حقانیت کا نمائندہ ہے یہ حصہ وافر بہت کم لوگوں کو مل سکا۔
یہ موقع نہیں کہ ان کی کتابوں پر تبصرہ کیا جائے مگر چند کتابوں کے موضوعات سے ان کی فکری بالیدگی، وسیع النظری،اور عصری تقاضوں کے مد نظر اسلام کی تفہیم و نمائندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مثال کے طور پر (1) غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق (2) اسلام انسانی حقوق کا پاسبان (3) اسلام میں خدمت خلق کا تصور (4) انسان اور اس کے مسائل (5) کمزور و مظلوم اسلام کے سایے میں (6) اسلام کی دعوت (7)عورت اسلامی معاشرہ میں، مشت نمونہ از خروارے کے طور پر یہ چند کتابیں ہیں ورنہ ان کی پچاس سے زائد قیمتی اور وقیع تصنیفات کا ذخیرہ اسلامک لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے، اور بہت سی کتابوں کے ترجمے عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، تلگو، ملیالم، بنگلہ ،تمل،مراٹہی، اور گجراتی، زبانوں میں ہوچکے ہیں، یہ ترجمے بول رہے ہیں کہ ان کی نگارشات کی کیا قدر وقیمت ہے، وہ ایک ایسی تحریک سے وابستہ تھے جس کے بارے میں روز اول سے علماء کے ایک گروہ کا بقول ان کےاصولی اختلاف ہے، بہر کیف ،مرحوم نے کبھی کوئی اختلافی بات نہیں کی۔
مولانا مرحوم ہندستان کی بڑی بڑی تنظیموں اور اداروں کے اعلی مناصب پر فائز رہے، ”جماعت اسلامی ہند“ کے 2007 سے 2019 تک امیر رہے، مسلم مجلس مشاورت کے بھی ایک فعال رکن رہے، ادارہ تحقیات اسلامی علی گڑھ برسوں آپ کی رہنمائی و سرپرستی میں رہ نوردشوق رہا، خود بڑے اسکالر تھے،اور نا معلوم کتنوں کو قلم کا ہمنشیں بنادیا،یہ بھی ان کے محاسن کا ایک نمایاں پہلو ہے، مرحوم مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک، اور سنجیدگی، ومتانت کا پہاڑ تھے، آپ کی علمی، فکری و اخلاقی صفات کو اجاگر کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے،(سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے)
بقول اقبال مولانا اس شعر کے مصداق تھے:
خورشید جہاں تاب کی ضوء تیرے شرر میں
آباد ہے ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
مولانا حیات مستعار کے 87 سال مکمل کر کے بروز جمعہ بوقت ساڑھے آٹھ بجے شب 27 محرم الحرام 1444ھ مطابق 26 اگست 2022 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ، متعلقین و متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بالخصوص جماعت اسلامی ہند کو ان جیسا فکری، وعلمی وشعو ری نصب العین رکھنے والا قائد نصیب کرے تاکہ یہ تحریک ملت کی کشت ویراں کو تا دیر سیراب کرتی رہے، اور بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کی ذمے داری نبھاتی رہے۔
آل انڈیا امامس کونسل مولانائے مرحوم کے انتقال پر اظہار غم اور تعزیت پیش کرتی ہے، اسی کے ساتھ ساتھ تمام علم دوست احباب سے یہ گزارش کرتی ہے کہ مولانا مرحوم کے علمی ورثے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے یہی ان کے لئے حقیقی خراجِ عقیدت و تحسین ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
Comments are closed.