عبدالرحمٰن قاسمی کے قلم سے "تحریک شاہین باغ” کی مکمل انسائیکلوپیڈیا مستقبل کے مورخ کے لئے حوالے کا کام دےگی_ از:مولانا محمود احمد خاں دریابادی

ہمارے درمیان بہت سے ” لکھاڑ ” افراد ہیں جو کسی بھی گرماگرم موضوع پر راتوں رات ایک کتاب تیار کردیتے ہیں جو تین دن کے اندر ہی چھپ کر بازار میں آجاتی ہے اور گرم کیک کی طرح فروخت ہوجاتی ہے ـ مجھے یاد ہے شاہ فیصل جن کی بے پناہ جراءت، بے باکی، ملی غیرت و بصیرت کی وجہ سے ساری دینا کے مسلم عوام اُنھیں اپنا آئڈیل اور ہیرو سمجھتے تھے، انھوں نے اسلامی تاریخ میں پہلی بار تیل کا ہتھیار استعمال کرکے دنیا کے تمام نام نہاد سپر پاورز کو اپنے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا، 1975 میں انھیں نامعلوم اندرونی و بیرونی سازشوں کے تحت شہید کرادیا گیا، اپنے ہیرو کی اس طرح حادثادتی موت اور اچانک بچھڑ جانے سے مسلم عوام سخت بے چین ہوئے، لوگوں میں صدمہ تھا، غم تھا اور غصہ بھی، اس موقع پر اُن کی شہادت کے دوسرے دن ہی دہلی کے ایک صاحب نے اُن پر کتاب لکھی، رات ہی میں کئی کاتبوں سے کتابت کروائی( جب کمپوٹر نہیں تھے، ان کا اپنا اخبار بھی نکلتا تھا جس میں کئی کاتب مستقل ملازم ہوا کرتے تھے ) اور تیسرے دن چھپواکر بازار میں لے آئے، چونکہ مسلمانوں کے جذبات پہلے ہی سے مجروح اور مضطرب تھے اس لئے وہ کتاب دو دن میں فروخت ہو گئی، فورا ہی دوسرا ایڈیشن پھر تیسرا، …. ظاہر ہے ایک رات میں لکھی جانے والی کتاب جبکہ اُس وقت علامہ گوگل ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے، ویکیپڈیا کا بھی وجود نہیں تھا، اس میں سوائے لفاظی اور اپنے ہی اخبار میں چھپ چکی چند پرانی خبروں اور تصویروں کے علاوہ کیا ہوسکتا تھا، اوپر سے کاغذ بھی خراب، بے شمار کتابت کی غلطیاں، بہر حال کل ملاکر نتیجہ یہ نکلا کہ چالاک مصنف مسلم عوام کے جذبات کا استحصال کرکے اچھی کمائی کرنے میں بہت کامیاب رہا ـ

 

بالکل اسی طرح ایشیا کی ایک اور شخصیت ذوالفقار علی بھٹو جو اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ چرچا میں رہتے تھے، اُن کے بڑی تعداد میں فین ساری دنیا میں تھے، مخالفین بھی تھے، جب ان کو پھانسی دی گئی تب بھی مسلم عوام میں شدید تشویش کی لہر اُٹھی، دن رات مسلسل خبریں اور شوشل میڈیا کا زمانہ نہیں تھا، لوگ اندورونی تفصیلات جاننے اور اُن کے بعد کے حالات سے آگاہی کے لئے بے چین تھے، ایک لکھاڑ صاحب نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور چوتھے پانچویں دن ایک کتاب بازار میں لانے میں کامیاب ہوگئے، پھر کیا تھا، ہاتھوں ہاتھ کتاب بکی، دوسرا تیسرا ایڈیشن آیا، مگر اُس پوری کتاب میں بھی لفاظی اور جذباتیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا، مختلف اخبارات میں چھپی ہوئی بھٹو کی تصویریں، اُن کے بیوی بچوں کی تصویریں بھی تھیں جو بارہا چھپ چکی تھیں ـ بہر حال ایک موٹی کمائی کرنے میں یہ صاحب بھی کامیاب رہے ـ

لیکن بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو سلگتے موضوعات پر تو ضرور ہوتی ہیں، مگر پوری محنت، جستجو، جانکاہی و جانفشانی کے بعد سامنے آتی ہیں، جن میں موضوع کا پورا حق ادا کردیا جاتا ہے اور اُنھیں ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہےـ ایسی ہی ایک کتاب مولانا عبدالرحمن قاسمی ایڈیٹر نگارشات ڈاٹ کام کی ” CAA, NRC اور تحریک شاہین باغ ” ہے، جو مولانا نے ازراہ کرم بذریعہ ڈاک مجھے بھجوائی ہے، اس کتاب کے مطالعے کے بعد ذہن میں جو تاثرات آئے مصنف کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئےوہ رقم کررہاہوں ـ

یوں تو شاہین باغ دہلی کا ایک علاقہ ہے، مگر آج سے دو ڈھائی سال قبل شاہین باغ کو وہاں کی حوصلہ مند و جانباز خواتین نےکمزوروں اور مظلوموں کی اپنے وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کے خلاف بے خوف جد وجہد کی ایک علامت بنادیا تھا اور اِن بظاہر کمزور، بے سروسامان خواتین کے مجاہدانہ کردار کی دھمک ساری دنیا میں محسوس کی گئی تھی ـ اُس احتجاج کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں وہ پردہ نشین گھریلو اور سماجی خدمت کا کوئی تجربہ نہ رکھنے والی سادہ لوح و سادہ دل خواتین شریک تھیں جو اس سے پہلے کبھی اس طرح سڑکوں پر نہیں اُتریں، ان میں ضعیف العمر اور مُعمّر خواتین بھی خاصی تعداد میں تھیں، نیز اس احتجاج کی قیادت بھی رسمی قائدین کے بجائے اُنھیں سادہ و ناتجربہ کار خواتین کے ہاتھ میں تھی ـ یہ دنیا دارالاسباب ہے، جب انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے، تمام ممکنہ اسباب کو اختیار کرکے نتیجہ اللہ کے سپرد کردیتا ہے تو پھر قدرت خداوندی بھی مدد کو آتی ہے ـ چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ اُنھیں بے کس وبے بس، بے سہارا و ناتجربہ کار عورتوں نے اپنے وقت کی ظالم ترین سرکار کو اپنےقدم پیچھے کرنے پر مجبور کردیا، آج تک حکومت سی اےاے قانون نافذ کرپائی نہ ہی این آرسی لانے کی ہمت جٹا پائی ـ اسی احتجاج میں شامل معمراور رسمی تعلیم سے بے بہرہ تین دادیاں ملک کے وزیر داخلہ سے ملاقات کے لئے جاتی ہیں مگر وزیر داخلہ ملنے کی ہمت نہیں کرپاتا، دنیا بھر کے موافق اور مخالف بلکہ اپنے ہی ملک کے سازشی گودی میڈیا کا سامنا کرتی ہیں، پورے اعتماد سے جوابات دیتی ہیں ـ یہی وجہ ہوئی کہ پوری دنیا کے سو بااثر افراد جن میں کئی ملکوں کے بادشاہ، صدر، وزیر اعظم، مذہبی وسماجی شخصیات شامل ہیں، خود ہمارے وزیر اعظم بھی ہیں، ان تمام بڑے اور طاقتور لوگوں میں شاہین باغ کی ایک بوڑھی اور نحیف عورت بلقیس خاتون کو بھی شامل کیا جاتا ہے ـ

بہر حال شاہین باغ محض ایک علاقہ نہیں بلکہ ایک تحریک اور ساری دینا میں ظلم و ناانصافی کے خلاف جد جہد کی ایک علامت ہے ـ مصنف نے پہلے سی اے اے اور این آرسی کا تعارف کرایا ہے، آسام میں اس کا نفاذ، اس کے بعد پیدا ہونے والی دشواریاں، بہت بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد بھی بے شمار غلطیاں، اپنی شہریت بچانے کے لئے عوام کی پریشانیاں اور مصیبتیں بیان کی ہیں، اس کے بعد تحریک شاہین باغ کا آغاز، اس میں شامل خواتین کی قربانیاں، موسم کی خرابی اور بے سروسامانی کے باوجود شرکاء کا عزم واستقلال، مخالفین کی شازشیں، غلط پروپیگنڈے، خوف زدہ کرنے کی کوششیں، جارحانہ اور قاتلانہ حملے جیسی ساری تفصیلات تاریخ وار اخباری حوالوں کے ساتھ مولانا عبدالرحمن قاسمی نے ایک جگہ جمع کردی ہیں، مخالفت اور مواقفت میں آنے والے بیانات، تقریریں، زہریلے بیانات اور عالمی میڈیا میں نشر ہونے والی خبروں اور تبصروں کے ویڈیو لنک میں بھی شامل کردئے ہیں ـ اس کے علاوہ اسی زمانے میں دہلی میں ہونے والے ہولناک فساد کی تفصیل، مسلم مخالف بیانات، مرنے والوں اور گرفتار ہونے والوں کے نام اور دہلی شاہین باغ سے متاثر ہوکر ملک کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ قائم ہونے والے شاہین باغوں میں سے کچھ کا تذکرہ ہے، وہاں ہونے والے انتظامیہ کے ظلم وستم، گرفتاریاں، جرمانے، شرکاء خصوصا وہاں کی خواتین کا عزم وحوصلہ اور ان کی قربانیوں کا ذکر کیاگیا ہے، ساتھ ہی شاہین باغ تحریک میں معاون بننے والے دہلی کے اسٹوڈنٹ و سماجی کارکنان آصف اقبال تنہا، عمر خالد، صفورہ زر گر اور آفرین فاطمہ وغیرہ کے حالات، ہر طرح کےظلم وجبر کےخلاف اُن کے سینہ سپر رہنے کا تذکرہ ہے،گورکھپور کے ڈاکٹر کفیل خاں اور یوپی حکومت کی اُن کے ساتھ ناانصافی اور ناکردہ جرم کی سزا کے طور پر عرصے تک اُن کا جیل میں رہنا، عدالت کی مداخلت کے بعد رہائی اور رہائی کے بعد ایک بار پھر بلا کسی خوف کے ظالموں اور جابروں کے خلاف ان کے میدان میں آجانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ـ

غرض کہ یہ کتاب تحریک شاہین باغ کی ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا ہے جس کو ظلم وستم کے خلاف عالمی جہد وجہد کی تاریخ لکھنے والا مورخ ہرگز نظر انداز نہیں کرسکے گا ـ

 

عمدہ کاغذ اور نفیس گٹ اپ میں شایع ہونے والی یہ کتاب ملی پبلیکیشنس ابوالفضل انکلیو نئی دہلی، مکتبہ محمودیہ بشن پورا مغربی چمارن، مکتبہ زمزم دیوبند اور مکتبہ النور دیوبند سے حاصل ہوسکتی ہے، قیمت 250 روپیہ ہے ـ مصنف کا وہاٹس ایپ نمبر 8791519573 ہے ـ

 

ہاں کتاب میں ایک چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے، اگر ابتدا، آخر یا ٹائٹل پیج میں مصنف کا تعارف مختصر ہی سہی ہوجاتا تو یہ تشنگی بھی ختم ہوسکتی تھی، بہر حال مصنف کی محنت و جانفشانی کو ایک بار پھر داد تحسین پیش کرتے ہوئے اس شعر پر بات ختم کرتا ہوں_

آفتاب تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا

آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

Comments are closed.