ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کے دریا پار کرو

الیاس اعظمی
(سابق ممبر پارلیمنٹ)
رابطہ: 9868180355
۲۰۲۴ کا چنائو اپوزیشن پارٹیاں جیتیں گی، بشرطیکہ وہ اترپردیش کی زمینی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اترپردیش کی بے سری قوم عام مسلمانوں کی اجتماعی حماقت کے نتیجے میں ہی بھاجپا ۲۰۱۴ کے بعد کا ہر چنائو بڑی اکثریت سے جیتتی رہی ہے، ۲۰۱۴ کے عام چنائو کے وقت یہاں سماج وادی کے اکھیلیش یادو کی اکثریتی حکومت تھی، جس میں حکومت نے اپنے عمل سے عوام پر یہ ثابت کردیا تھا کہ یادو برادری نے اترپردیش کو تلوار سے فتح کیا ہے۔ زیادہ ثبوت کی ضرورت نہیں۔ لکھنو میں بیالس پولس تھانے تھے جن میں چالیس کے انچارج ایک ہی براردری کے تھے انسپکٹر نہ تھے تو سب انسپکٹروں کو تھانہ پربھاری بنادیاگیا۔ اس مثال کو قارئین پورے یوپی پر محیط سمجھیں۔ اخباروں میں روزانہ یہ خبریں چھپتی تھیں کہ ساٹھ میں چالیس اور پچاس میں پینتس لیکن ان خبروں کی تردید کرنے کے بجائے اکھلیش یادو خوش ہوتا تھا، تھانہ پربھاریوں نے زمینوں پر قبضہ کرانے یا قبضہ چھڑانے کا دھندہ اپنالیا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک برادری کو چھوڑ پوری آبادی نے یہ تہیہ کرلیا کہ اب اکھلیش کو جیتنے نہیں دیں گے، غیر یادو پچھڑی جاتیاں ۲۸ فیصد ، اپرکاسٹ ۱۸ فیصد، جاٹ ۲ فیصد، جاٹو یا چمار ۱۲ فیصد، تقریباً ۶۰ فیصد میں سے پچاس فیصد نے تہیہ کرلیا کہ اکھلیش یادو کو روکنے کےلیے کسی کو بھی ووٹ دیں گے اگر پچاس فیصد ووٹروں نے کسی کو جیت سے روکنے کا فیصلہ کرلیا ہوتو ۲۰ فیصد مسلمان اور زیادہ سے زیادہ ۹ فیصد یادو اگر سر کے بل بھی کھڑے ہوجائیں تب بھی کیا کرسکتے ہیں۔
پچھلے اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں نے اپنی سو فیصد طاقت جھونک دی، اکھلیش گٹھ بندھن نے ایک سو پچیس سیٹیں جیتیں ان میں ایک سو سیٹیں ایسی ہیں جن میں اگر مسلمان ساٹھ فیصد سماج وادی کو جاتا تب بھی یہ سیٹیں نہیں جیت سکتی تھیں، اب عام مسلمانوں نے یہ مان لیا ہے کہ ہم اکھلیش یادو کے ذریعہ بی جے پی کو کسی بھی حال میں نہیں ہراسکتے، ان کے نئے رجحان کا آئینہ دو مہینہ بعد اعظم گڑھ اور رام پور میں خود اکھلیش یادو اور اعظم خان کی خالی ہوئی لوک سبھا چنائو میں ظاہر ہوگیا، اترپردیش لوک سبھا میں سماج وادی پارٹی کی تین سب سے مضبوط سیٹوں میں یہ دو سیٹیںبھی جو سماج وادی پارٹی گنوا چکی ہے۔
میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگلے لوک سبھا چنائو میں اگر ساری پارٹیاں گٹھ بندھن کرلیں تب بی جے پی ضرور جیتے گی کیوں کہ اسمبلی میں سماج وادی پارٹی کے واحد اپوزیشن پارٹی ہونے کی وجہ سے گٹھ بندھن میں سماج وادی پارٹی کا دبدبہ ہوگا جس کی وجہ سے مذکورہ جاتیوں کا ووٹ نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کو جائے گا، اگر اکھلیش کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں کا گٹھ بندھن ہوتا ہے تو بی جے پی کا صفایا ہوجائے گا، اگر سب لڑتے ہیں تو بھی بی جے پی آدھی ہی بچے گی کیو ںکہ اب اکھلیش کو ۲۰ فیصد مسلم ووٹوں میں کچھ بھی نہیں ملنے والا ہے۔
ابھی مسلمانوں نے یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ کدھر جائیں گے، لیکن یہ طے ہے کہ وہ سماج وادی کی طرف نہیں جائیں گے، نہ ہی وہ ایم آئی ایم کی طرف جاکر اپنا ووٹ بے اثر کریں گے، اسلیے ایم آئی ایم کتنا بھی ’جے بھیم اور جے میم‘ کا نعرہ لگائے کسی حلقے میں مسلمانوں کا نصف سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکتی اور اتنے ووٹ پر وہ کوئی لوک سبھا سیٹ نہیں جیت سکتی۔ کسی آل انڈیا گٹھ بندھن میں اسے بھی تین چار سیٹیں دی جانی چاہئے لیکن شمالی ہند میں نہیں۔ جہاں تک بی ایس پی کا سوال ہے اس کا وہی مسئلہ ہے جو سماج وادی کا ہے یعنی ای ڈی، انکم ٹیکس، اور سی بی آئی کا خوف۔ اس لیے وہ کسی گٹھ بندھن کا حصہ وہ جبھی بنے گی جب اسکو یہ یقین ہوجائے کہ اب گجرات کا ملک پر راج ختم ہو، ایسی حالت میں وہ الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد ہی کسی گٹھ بندھن کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس وقت اس کے دس لوک سبھا ممبرا ن ہی کسی بڑے گٹھ بندھن کا حصہ بن جاتے پر وہ اپنی طاقت برقرار رکھ سکتی ، کوئی بھی گٹھ ب ندھن نہ ہونے کی صورت میں وہ شاید ہی لوک سبھا میں کھاتہ کھول سکے کیو ںکہ اس کے ووٹروں میں پارٹی کے تئیں کوئی جوش وخروش نہیں ہے اس کا ٹکٹ بھی مشکل سے بکے گا۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کیا کریں؟ ویسے بھی عام مسلمان خود ہی فیصلہ کرتا ہے اس کا کوئی امکان مجھے نظر نہیں آتا وہ اپنی کسی پرانی یا نئی قیادت کی بات مانے گا، مجھ سے لوک پورے اترپردیش سے فون پر پوچھ رہے ہیں کہ آپ کی کیا رائے ہے، ہم کدھر جائیں؟ میں ابھی سے مشورہ دے رہا ہوں اگر کوئی گٹھ بندھن سماج وادی کے بغیر بنتا ہے تو اس کو ووٹ دیں، اگر گٹھ بندھن نہیں ہوتا اور سب پارٹیاں چنائو لڑتی ہیں تو اس بار پورے پردیش کا فیصلہ نہ کریں بلکہ ہر لوک سبھا سیٹ پر اچھے امیدوار کو اجتماعی ووٹ دیں ایسی حالت میں کچھ سیٹوں پر سماج وادی پارٹی کے اچھے اور قابل امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے لیکن چند سیٹو ںپر اگر بی جے پی بھی اچھے امیدوار اتار دیتی ہےتو اسے بھی ووٹ دینا مناسب ہوگا یہ سمجھ لیں کہ سیکولر ازم اور دستور کوبچانا اور جمہوریت کو مضبوط رکھنا ہر بھارتی کی ذمہ داری ہے۔ صرف اقلیتوں کی نہ تو ذمہ داری ہے نہ ہی صرف اقلیتی اس کو بچا سکتی ہیں، نہ ہی مسلمان یا دیگر اقلیتوں نے سیکولر ازم اور دستور کو بچانے کا ٹھیکہ لےرکھا ہے دستور کو بچانے کی اصل ذمہ داری دلت اور پچھڑی جاتیوں پر عائد ہوتی ہے اگر ان میں اجتماعی شعور ہوتو دستور کو کوئی خطرہ نہیں کیوںکہ ملک میں شودروں کی بھاری اکثریت ہے۔

Comments are closed.