یو پی میں اب غیرتسلیم شدہ مدارس پر حکومت کی نظر

دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے تحت آنے والے مدارس کا بھی سروے ہوگا،چائیلڈ کمیشن کی سفارش پر ایکشن، ضلع مجسٹریٹ کو ۲۵ اکتوبر تک رپورٹ سونپنے کی ہدایت ، اویسی نے اسے چھوٹا ’این آر سی‘ قرار دیا
لکھنو۔یکم؍ ستمبر: یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈ مدارس کے علاوہ بھی مدارس کا سروے کئے جانے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریاست میں بورڈ سے تسلیم شدہ مدارس کی تعداد ۱۶ ہزار ۵۱۳ ہے ، اس کے علاوہ بڑی تعداد میں مدارس و مکاتب دارالعلوم ندوۃ العلماء، دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور سمیت دیگر اداروں کے ماتحت تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہیں، بڑی تعداد میں مدارس این جی او کے تحت بھی چل رہے ہیں۔ حکومت اب سبھی مدارس کا سروے کرانے جارہی ہے۔ سروے کمیٹی اے ڈی ایم کی نگرانی میں کام کرے گی۔ریاست میں موجود غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کے سلسلے میں تمام ضلع مجسٹریٹس کو خط لکھا گیا ہے۔ دراصل، چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کو موصول ہونے والی شکایات کی بنیاد پر یہ سروے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں ایسے مدارس کی تعداد، وہاں دستیاب سہولیات اور طلبہ کی تفصیلات جمع کی جائیں گی۔سروے میں ضلع بیسک تعلیمی افسر، ضلع اقلیتی افسر اور متعلقہ حلقہ کے ایس ڈی ایم بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔۱۰ اکتوبر تک سرے مکمل کر کے ڈی ایم کے ذریعہ ۲۵ اکتوبر تک رپورٹ حکومت کو سونپے جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ مدرسہ بورڈ کے مدارس کے تعلق سے بھی تین حکم نامے جاری ہوئےہیں۔ لکھنؤ کے گوسائی گنج حلقہ میں گزشتہ دنوں ایک مدرسہ میں ٹیچر کے ذریعہ بچے کو بیڑی سے باندھ کر زدوکوب کرنے کا واقعہ رونما ہوا تھا، جس کا قومی اطفال کمیشن نے نوٹس لیا تھا۔ قومی اطفال کمیشن کے خط پر ۱۵ جون کو مدرسہ تعلیمی بورڈ میں ہوئی میٹنگ میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ مدرسہ بورڈ کے علاوہ سبھی مدارس کا سروے کرایا جائے، بورڈ ممبران نے اتفاق رائےسے اس قرارداد کومنظور کرتے ہوئےتجویز حکومت کو بھیج دی۔واضح ہو کہ اس سے قبل کی مرتبہ ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں غیر منظور شدہ مدارس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ بہت سے مدارس ضابطے کی کارروائی کے دوران مشکلات میں آسکتے ہیں۔یوپی مدرسہ ایجوکیشن کونسل کے رجسٹرار جگ موہن سنگھ کے مطابق حکومت نے حکم جاری کیا ہے کہ ریاست کے امداد یافتہ مدارس کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کا تبادلہ اب باہمی رضامندی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے درخواست کو اس کی سفارش کے ساتھ رجسٹرار مدرسہ بورڈ کو دو ماہ کے اندر اندر ضلع اقلیتی بہبود افسر کو بھیجنا ہوگارجسٹرار ایک مہینے میں امتحان کرکے اس پر فیصلہ کریں گے۔ اس کے علاوہ اگر کہیں انتظامی کمیٹی میں اختلاف ہے تو متوفی پر مںحصر رہنے والے کی تقرری کے احکامات ضلع اقلیتی بہبود آفیسر اور پرنسپل کے ذریعہ جاری کئے جاسکتے ہیں۔ کمیٹی کے تنازع کی صورت میں اسے روکا نہیں جائے گا۔وہیں امداد یافتہ مدارس میں کام کرنے والی اساتذہ اور دیگر خواتین ملازمین کے لیے بھی اچھی خبر ہے۔ اب دیگر محکموں کی طرح اب وہ بھی چھ ماہ کی زچگی کی چھٹی حاصل کر پائیں گی۔ اس کے علاوہ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دو سال کی چھٹی بھی ملے گی۔ حکومت نے متعلقہ حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخاراحمد جاوید نے بتایا کہ بورڈ سے تسلیم شدہ مدارس کی تفصیلات بورڈ کے پاس ہیں لیکن بڑی تعداد میں مدارس اور بھی چل رہے ہیں، جوکسی دینی ادارے سے منسلک ہیں یا این جی او کے تحت چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جانچ نہیں ہے، صرف سروے ہے۔ کسی کو اس حکم سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سروے سے معلوم ہو سکے گا کہ کل کتنے طرح کے مدارس چل رہے ہیں۔ سروے پر اسدالدین اویسی کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مدارس آئین کے شق ۳۰کے تحت آتے ہیں، تو پھر یوپی حکومت نے سروے کرانے کا حکم کیوں صادر کیا؟ شق ۳۰کے تحت حکومت ہمارے حقوق میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ وہ مسلمانوں کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی اویسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس سروے کو این آر سی کی چھوٹی شکل تصور کیا جانا چاہیے۔اسدالدین اویسی نے مدارس کو لے کر پھیلائے جانے والے جھوٹ، اور اس کے خلاف کی جا رہی سازشوں پر فکر کا اظہار بھی کیا۔ خصوصاً یوگی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مدارس کو لے کر جھوٹ پھیلانا بند کر دیجیے۔ جب مدد نہیں دیتے تو مدارس میں مداخلت کیوں کر رہے ہیں۔
Comments are closed.