Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

نماز کب توڑی جاسکتی ہے ؟
سوال:- کن کن صورتوں میں نماز توڑنا جائز ہے ؟
(راشد حسین،وادی ہدی)
جواب:- نماز اہم ترین عبادت ہے ، جس میں گویا انسان اپنے مالک سے ہم کلام ہوتا ہے ، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ نماز شروع کرنے کے بعد غیر معمولی ضرورت اور مجبوری کے بغیر نماز کا سلسلہ منقطع نہ کرے ، اگر آپ اپنے کسی دوست یا بزرگ سے بات کرر ہے ہوں تو اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے ؛ چہ جائیکہ پروردگار عالم سے ہم کلام ہوں ؛ اس لئے اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ غیر معمولی ضرورت و مجبوری کے بغیر نماز کو توڑنا درست نہیں ، فقہاء نے ایسی چند صورتوں کا ذکر کیا ہے ،جن میں نماز توڑی جاسکتی ہے ، جیسے والدین یا ان میں سے کوئی کسی ضرورت کے لئے بلائے اور کوئی اور شخص ان کی آواز پر لبیک کہنے والا نہ ہو ، اگر نہ ٹوکا جائے تو اجنبی شخص کے چھت سے گرجانے یا آگ میں جل جانے یا پانی میں ڈوب جانے کا خطرہ ہو، نمازی کا سامان کوئی چور لے کر بھاگ جائے ، مسافر کی سواری کے نکل جانے کا اندیشہ ہو ، نابینا کنویں کی طرف بڑھ رہا ہے اوراس کے گرجانے کا خطرہ ہو ، ان تمام صورتوں میں صراحۃً فقہاء نے نماز توڑنے کی اجازت دی ہے ، (ہندیہ : ۱؍۱۰۹ ) اس طرح کی اگر کوئی دوسری صورت ہوتو اس کا بھی یہی حکم ہوگا ؛ کیوںکہ اس طرح کے احکام حالات پر مبنی ہوتے ہیں ، ان کی تحدید نہیں کی جاسکتی ۔

نماز میں تکبیراتِ انتقال کو کھینچ کر پڑھنا
سوال:- ہمارے یہاں ایک قاری صاحب امامت فرماتے ہیں ، ان کی قراء ت بہت اچھی ہوتی ہے ، وہ نماز میں بھی اللہ اکبر کو کافی کھینچ کر ادا کرتے ہیں ، بعض نمازیوں کو اس پر اعتراض ہے ، صحیح حکم کی رہنمائی فرمائیے ۔ ( محمد عطاء اللہ، اندور)
جواب :- ’ اللہ ‘ میں جس قدر’ مد‘ علمائِ تجوید کے نزدیک بہتر ہے ،اتنا ہی کھینچنا چاہیے ، اس سے زیادہ کھینچنے میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ قواعدِ تجوید کی خلاف ورزی ہوتی ہے ، دوسری اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر امام صاحب کے ساتھ مقتدیوں نے تکبیر تحریمہ شروع کی اور امام سے پہلے مقتدیوں کی تکبیر پوری ہوگئی ، تو امام ابو حنیفہؒ کے ایک شاگرد ابن سماعہؒ نے ان سے نقل کیا ہے کہ اقتداء درست نہیں ہوگی ؛ لہٰذا مقتدیوں کی نماز بھی درست نہ ہوگی ، بلکہ علامہ قہستانیؒ نے نقل کیا ہے کہ اس مسئلہ پر امام ابو حنیفہؒ اور ان کے دونوں شاگرد امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ تینوں متفق ہیں :
’’ و لو کبر المقتدی مع الإمام إلا أن الإمام طول قولہ حتی فرغ المقتدي من قولہ : اللّٰہ أکبر قبل أن یفرغ الإمام من قولہ : اللّٰہ لم یصر شارعاً في صلاۃ الإمام ، کذا روی ابن سماعۃ في ’’ نوادرہ ‘‘ و یجب أن تکون ہذہ المسألۃ بالإتفاق ‘‘ (بدائع الصنائع:۱؍۱۳۹)
اس لیے آپ حضرات حکمت کے ساتھ اور امام صاحب کے احترام کو باقی رکھتے ہوئے تنہائی میں انہیں بتائیں اور ترغیب دیں کہ وہ اللہ اکبر کو کھینچ کر ادا کرنے سے گریز کریں ۔

فینانس پر گاڑی لینے کی ایک جائز صورت
سوال:- آج کل فینانس پر گاڑی فروخت کی جاتی ہے ، اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا تین لاکھ کی گاڑی کمپنی تین لاکھ پچاس ہزار روپئے میں فروخت کرتی ہے ، پچاس ہزار روپئے شروع میں وصول کرلئے جاتے ہیں ، باقی تین لاکھ روپئے دس مساوی قسطوں میں لئے جاتے ہیں ، اگر خرید کرنے والے نے مطلوبہ قسط ادا نہیں کی ، تو اس کی وجہ سے قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا ؛ بلکہ کمپنی گاڑی ضبط کرلیتی ہے ، اسے فروخت کرکے اپنا بقایہ وصول کرلیتی ہے اور اگر کچھ پیسے بچ گئے تو واپس کردیتی ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ صورت جائز ہے ؟ ( رفعت حسین،بنجارہ ہلز)
جواب:- یہ صورت درست ہے ، اگر کسی سامان کی ایک لاکھ قیمت متعین ہو ، ادائے گی میں تاخیر کی صورت میں قیمت میں اضافہ نہیں کیا جائے ، البتہ ادھار قیمت نقد سے زیادہ رکھی جائے ، تویہ سود کے دائرے میں نہیں آتا ہے ، یہ بات بھی درست ہے کہ سابقہ معاہدہ کے مطابق قیمت ادا نہ کرنے کی صورت میں سامان ضبط کرلیا جائے اور اس سے اپنی رقم حاصل کرلی جائے ، یہی حکم مال رہن کا ہے ، گویا خریدار نے خرید کردہ گاڑی کمپنی ہی کے پاس رہن رکھ دی ہے اور اس کی اجازت سے اسے استعمال کررہاہے ، ہاں ! اگر ایک قیمت مقرر نہ کی جائے بلکہ طے پائے کہ قیمت کی ادائے گی میں جس قدر تاخیر ہوتی جائے گی ، اسی نسبت سے قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا ، تو یہ جائز نہیں ہے اور سود میں داخل ہے ۔

مکان دار اور کرایہ دار میں اختلاف
سوال:- میں چار سال سے ایک مکان میں مقیم ہوں ، مکان لیتے وقت طے پایا تھا کہ کرایہ میں ہر دوسال پر ۵۰/ روپے کا اضافہ ہوگا ، مگر موصوف نے دوسال ہونے پر ایک سو پچاس روپے کا اضافہ کردیا ، اب ڈیڑھ سال کے بعد پانچ سو روپے اضافہ کرنا چاہتے ہیں ، کیا ان کا یہ عمل درست ہے ؟ عام طور پر مالکانِ مکان کا رویہ کرایہ داروں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا ، اس سلسلہ میں شرعی ہدایات کیا ہیں ؟ (محمد ارشد ، سیتاپور)
جواب:- مکان کو کرایہ پر دینے اور لینے کا مسئلہ شرعاً معاہدہ ہے ، اورمعاہدات کے سلسلہ میں قرآن مجید میں اصولی بات فرمادی گئی ہے کہ معاہدات کو پورے کیا کرو : {أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ } (المائدۃ : ۱) اس لئے اگر شروع میں یہ بات طے پائی ہو کہ آپ طویل عرصہ تک اس مکان میں رہیں گے ، جب تک مالک مکان کی طرف سے انکار نہ ہوجائے یا کرایہ دار خود مکان چھوڑنانہ چاہیں ، اس وقت تک کرایہ داری باقی رہے گی، اس صورت میں دو سال پر حسب معاہدہ ۵۰/ روپے کا اضافہ کرنے کا مالک کو حق ہوگا ؛ سوائے اس کے کہ اس سے زیادہ پر دونوں راضی ہوجائیں ،اور اگر مدتِ کرایہ داری دو سال طے ہو ، اس کے بعد از سر نو کرایہ داری کی تجدید کی بات طے پائی ہو تو ہر دوسال پر فریقین کی باہمی رضامندی سے کرایہ میں اضافہ ہوگا اور مالک مکان نے بطور وعدہ و ارادہ کے کہا ہو کہ اس وقت میں پچاس روپے اضافہ کیا کروںگاتوچوںکہ اس کی حیثیت ایک طرف وعدہ کی ہے نہ کہ دو طرفہ عقد و معاہدہ کی؛ اس لئے اس کی تعمیل واجب نہیں ، کرایہ میں اضافہ کی نئی مقدار فریقین کی رضامندی سے طے پاسکتی ہے ۔
جہاں تک مالک مکان کی زیادتی کی بات ہے تو واقعی یہ ایک اہم مسئلہ ہے اورحقیقت یہ ہے کہ جیسے مالکان مکان کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے ، اکثر اوقات کرایہ داروں کی طرف سے اس سے بڑھ کر زیادتی ہوتی ہے ، کرایہ دار مکان پر قابض ہوجاتے ہیں ، کرایہ میں اضافہ نہیں کرتے ؛ یہاں تک کہ بعض اوقات خود مالک مکان سے پیسہ وصول کرکے مکان خالی کرتے ہیں اور بعض دفعہ مالک مکان کی طرف سے بھی زیادتی ہوتی ہے ، وہ حسب معاہدہ کرایہ دار کو سہولتیں نہیں پہنچاتے اور پریشان کرتے ہیں ؛ اس لئے صحیح شرعی طریقہ یہ ہے کہ معاملہ طے کرتے وقت ساری جزئیات طے کرلی جائیں ، معاملات میں ابہام نہ رکھا جائے اورتمام امور کو لکھ کر فریقین اپنے اور گواہوں کے دستخط کردیں ، نیز معاہدہ میں ایک دفعہ یہ بھی ہو کہ اگر ہمارے درمیان کسی بات کے سلسلہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو دار القضاء ……… / شرعی پنچایت …/ فلاں شخصیت حَکم ہوگی ، اس سے انشاء اللہ نزاع کا سد باب ہوگا اور عدالتی چارہ جوئی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔

اگر پارسل راستہ میں ضائع ہوجائے؟
سوال:- میں نے ایک صاحب کو پارسل بھیجا ، پارسل روانہ کرتے وقت ڈا ک خرچ بھی پورا ادا کردیا ؛ لیکن پارسل وہاں پہونچ نہیں پایا ، اب وہ قیمت دینے کو تیار نہیں ہیں ، اور کہتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری تم پر ہے ، حالاںکہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوئی، براہ کرم حکم شرعی سے آگاہ فرمائیں ۔
(مسیح اللہ، ممبئی)
جواب:- جب آپ نے پوسٹ یا کسی پرائیوٹ ذریعۂ ترسیل سے اپنے خریدار تک سامان بھیجنے کی کوشش کی ،اور اس کو آرڈر دیا کہ یہ سامان ان صاحب تک پہونچا دیا جائے تو پوسٹ آفس یا جس ادارہ سے آپ نے بھیجا ہو،وہ آپ کا وکیل ہوا ؛ اس لئے وہ شئ آپ ہی کی ذمہ داری میں ہے ، جب تک وہ سامان پہونچ نہ جائے ، کسی کوتاہی کی وجہ سے سامان ضائع ہوجائے تو آپ ہی اس کے ذمہ دار ہوںگے ؛ کیوںکہ وکیل کی کوتاہی مؤکل کی طرف منسوب ہوتی ہے ، ہاں ! اگر آپ نے معاملہ طئے پاتے وقت وضاحت کردی کہ آپ جس ذریعہ سے کہیں، اس سے ہم سامان روانہ کردیںگے ،اور اگر سامان خدا نخواستہ راستہ میں ضائع ہوجائے تو اس کے ذمہ دار آپ ہوںگے ،اور انہوں نے قبول کرلیا ،تو آپ پر اس کی ذمہ داری نہیں ہوگی؛ کیوںکہ اس وضاحت کے بعد جس کمپنی کے ذریعہ آپ نے مال بھیجا ہو ، وہ کمپنی خریدار کی وکیل قرار پائے گی اور حوالہ کرنے کے بعد ذمہ سے آپ بری ہوجائیںگے ؛ لہٰذا جو صورت آپ نے لکھی ہے اس میں کتابوں کے ضائع ہونے کا نقصان آپ ہی کو اٹھانا ہوگا؛البتہ آپ کے لئے گنجائش ہے کہ آپ ڈاک کے حکم سے اس کا ہر جا نہ وصول کریں اور اس سلسلہ میں قانونی کا روائی کریں۔

دور حاضر اور میڈیکل انشورنس
سوال:- میڈیکل انشورنس کے بارے میں کیا حکم ہے ، جائز ہے یا ناجائز ؟ (الطاف خان، گلبرگہ)
جواب:- میڈیکل انشورنس کے بارے میں بعض اہل علم کی رائے جائز ہونے کی ہے ؛ کیوںکہ اس میں اگر آدمی کے بیمار ہونے کی نوبت نہ آئے تو کوئی رقم نہیں ملتی ، اس طرح اس میں سود نہیں پایا جاتا ؛ لیکن اکثر علماء کی رائے میں میڈیکل انشورنس میں بھی قمار کی کیفیت پائی جاتی ہے ؛ کیوںکہ یہ بھی ممکن ہے کہ جو رقم انشورنس لینے والے نے جمع کرائی ہے ، وہ بھی ڈوب جائے اور اگر وہ واقعی بیمار پڑجائے تو جمع کردہ رقم سے کہیں زیادہ رقم اس پر خرچ ہو ، — تاہم مغربی ملکوں میں علاج کے گراں ہونے اور قانونا میڈیکل انشورنس کے لازم ہونے کی وجہ سے وہاں علماء نے اس کے درست ہونے کا فتوی دیا ہے ، ہندوستان میں بھی سرکاری ہا سپٹلوں کے زوال ، کارپوریٹ ہاسپٹلوں کے عروج ، ڈاکٹروں کی کمیشن خوری اور عالمی تجارتی معاہدات کے سبب دواؤں کے گراں ہونے کی وجہ سے نہ صرف خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں ؛ بلکہ درمیانی معاشی معیار کے حامل لوگوں کے لئے بھی خطرناک بیماریوں کا علاج دشوار ہوگیا ہے ، ان حالات میں اگر گورنمنٹ کی طرف سے قانونا انشورنس کرانا لازم ہو، یا وہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو ،جو اسباب کے درجے میں کسی خطرناک اور گراں علاج بیماری کا سبب بن سکتی ہے ، جیسے شوگر یا بی پی وغیرہ ، اور اس کی معاشی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ مقروض ہوئے بغیر اپنا علاج کراسکے تو اس کے لئے میڈیکل انشورنس کرانے کی گنجائش ہے ، اور جو لوگ اس صورتحال سے دوچار نہ ہوں ، ان کے لئے میڈیکل انشورنس کرانا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ۔

Comments are closed.