Baseerat Online News Portal

ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری کی یادمیں معصوم مرادآبادی

میں نے برسوں پہلے ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری سے ایک وعدہ کیا تھا۔آج اس وعدے کی تکمیل کا وقت آیا ہے تو میری نظریں انھیں بے چینی اور شدت کے ساتھ تلاش کررہی ہیں۔یقینا آج وہ زندہ ہوتے تو اس خواب کی تعبیر دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری برصغیر ہندوپاک میں مولانا ابوالکلام آزاد کے سب سے بڑے شیدائی تھے ۔ انھوں نے اپنی عمرعزیز کا بیشتر حصہ ابوالکلامیات پر تحقیق وجستجومیں گزارا۔ وہ بھی ایسی سرزمین پر جہاں اس کی گنجائش سب سے کم تھی۔حالانکہ اسی جدوجہدکے دوران 1986 میں ان کا پورا کتب خانہ جلاکر خاک کردیا گیا تھا ۔ ان کی دوہزار سے زیادہ کتابوں کے ساتھ سینکڑوں مسودات اس میں تلف ہوگئے ، لیکن ان کا جذبہ اتنا صادق تھا کہ انھوں اسی راکھ میں پوشیدہ چنگاریوں سے تحقیق وجستجوکا ایک نیا جہاں آباد کیا اور پرزہ پرزہ جوڑکرسب کچھ ایک بار پھر جمع کیا اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کی کہ وہ ایک ایسی مملکت میں مولانا ابوالکلام آزاد کو زندہ جاوید کرسکیں جو ان کے نظریہ اور سوچ کے برخلاف وجود میں آئی تھی۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد ان کی تحقیق وجستجو کا دوسرا مرکزمولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات تھیں جن کو سمجھنے میں وہ غرق رہے ۔بقول خود

’’میں نہ صرف حضرت ابوالکلام اور حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات کو سمجھنے میں غرق رہا بلکہ ان دونوں بزرگوں کی کتابیں بھی جمع کرتا رہا۔ اس کے علاوہ میں نے ان بزرگوں کی کتابوں کے تمام ہی ایڈیشن جمع کئے۔ میں نے حضرت مولانا ابوالکلام پر تقریباً پچاس کتابیں اور حضرت مولانا سندھی پر بارہ کتابیں تحریر کیں۔‘‘

کوئی 36 برس پرانی بات ہے ۔ میں کراچی میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کے نام مولانا افتخار فریدی مرحوم کا ایک پرزہ لے کر انھیں ڈھونڈتا ہوا علی گڑھ کالونی پہنچا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے اور میں کتنے بڑے اسکالر سے ملنے پہنچا ہوں۔انھوں نے اس پرزے کو پڑھ کر مجھے گلے لگالیا’’ اچھا اچھا آپ منشی عبدالقیوم خاں خطاط کے نواسے ہیں۔‘‘ میں نے اثبات میں سرہلایا اور ان کے قدموں میں بیٹھنے کی کوشش کی مگرانھوں نے مجھے اپنے سامنے والے صوفے پر بڑی محبت سے بٹھایا۔میرے نانامنشی عبدالقیوم خاں ،مولانا آزاد کے کاتب تھے اور ابوسلمان شاہجہانپوری اسی رشتے سے ان سے تعلق میں رہے تھے۔مولانا آزاد کو میرے نانا کاخط اتنا پسند تھا کہ جب وہ کلکتہ میں’ ترجمان القرآن ‘ کی دوسری جلد لکھ رہے تھے تو انھوں نے انھیں مرادآباد سے کلکتہ بلالیا تھا اور اس طرح انھوں نے کوئی ڈیڑھ سال کلکتہ میں ان کے ساتھ قیام کرکے ’ ترجمان القرآن‘ کی دوسری جلد کی کتابت کی ۔ اس کے بعد جب مولانا آزاد قلعہ احمدنگر کی جیل سے رہا ہوئے تو انھوں نے ایک بار پھر ’غبارخاطر‘ کی کتابت کے لیے انھیں یاد کیا ۔ منشی عبدالقیوم خاں ،مولانا آزاد کے محض کاتب ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے ’ترجمان القرآن ‘کی طباعت کے لیے اپنے ایک عزیز سے رقم بھی مہیا کرائی تھی کیونکہ اس زمانے میں مولانا آزاد کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔اس دوران مولانا آزاد اور منشی عبدالقیوم خاں کے درمیان جو خط وکتابت ہوئی اسے ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے ’ مکاتیب ابوالکلام آزاد‘ میں بڑے اہتمام سے شائع کیاہے اور اسی کتاب میں منشی عبدالقیوم خاں کا تفصیلی تعارف بھی کرایاہے۔اس مجموعہ میں میرے نانا کے نام مولانا آزاد کے 14 خطوط شامل ہیں۔

کراچی کے سفر میں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے اپنی کئی قیمتی کتابیں مجھے ہدیہ کیں اور مجھ سے ایک وعدہ لیا کہ میں منشی عبدالقیوم خاں پر ایک کتاب لکھوں گا۔برسوں بعد جب میں اس قابل ہوپایا اور میں نے سو سے زائد صفحات کی ایک کتاب مکمل کی تو میری نظریں ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کو ڈھونڈنے لگیں تاکہ میں ان سے بطورتبرک اس کتاب پر کچھ لکھواکر اشاعت کے قابل بناسکوں۔ان کا کوئی رابطہ نمبر یا ای میل بھی میرے پاس نہیں تھا۔ لاہور میں اپنے کرم فرما مولانا شبیر میواتی سے رابطہ قائم کرکے مدعا بیان کیاتو انھوں نے واٹس ایپ پر لکھا کہ ’’ ڈاکٹر صاحب بہت ضعیف ہوگئے ہیں۔ یادداشت بھی بہت کمزور ہوگئی ہے۔وہ واٹس ایپ اور ای میل کا استعمال نہیں کرتے۔‘‘ مولانا شبیرمیواتی صاحب نے ان کا موبائل نمبر دیا ، لیکن اس سے پہلے کہ میں ان سے رابطہ کرتا، اس اطلاع نے مجھے بہت رنجور کردیا کہ’’ ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کراچی میں انتقال فرماگئے۔‘‘

یہ اطلاع بعد کو سوشل میڈیا کے توسط سے عام ہوئی لیکن اگلے روز مجھے یہ دیکھ کر زیادہ صدمہ ہوا کہ ان کے انتقال کی کوئی خبر کسی اخبار میں موجود نہیں تھی۔شاید ہماری صحافتی برادری کے لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔اب یہ بات عام ہوگئی ہے کہ اخبار والے انہی لوگوں کو جانتے اور پہچانتے ہیں جو اپنی سرگرمیوں کی اطلاعات ازخود اخبارات کے دفاتر تک پہنچاتے ہیں۔ لیکن ابوسلمان شاہجہانپوری اس قبیل کے انسان تو بالکل بھی نہیں تھے۔ انھوں نے پوری زندگی گوشہ نشینی میں گزاری اور اپنی کٹیا میں بیٹھ کر ایسے زبردست علمی اور تحقیقی کارنامے انجام دئیے کہ ان کے سامنے بڑے بڑے اسکالر ہیچ ہیں۔انھوں نے 150 سے زیادہ تحقیقی کتابیں اور ہزارہا مضامین اور مقالے اپنی یادگار چھوڑے ہیں ۔وہ صلے اور ستائش کی پروا کیے بغیر اور شہرت سے منہ موڑ کر اپنے کام میں مگن رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مستقبل کا مورخ جب برصغیر ہندوپاک کی تحریکوں اور شخصیات کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اسے قدم قدم پر ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی بیش قیمت کتابوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ انھوں نے جو اہم ترین علمی اور تحقیقی کارنامے انجام دئیے ہیں انھیں فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی مثال ماضی کے ان علماء سے دی جاسکتی ہے جن کے نزدیک علم ہی سب سے بڑی دولت تھی اور کتاب ہی سب سے بڑا سرمایہ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جس علمی اور تحقیقی کام کو بھی ہاتھ لگایا اسے کندن بنادیا۔

ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری 30 جنوری 1940کو شاہجہانپور کے ایک باوقار خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام تصدق حسین خاں تھا۔ابتدائی تعلیم شاہجہانپور میں ہی حاصل کی اور پہلے یہاں کے مدرسہ سعیدیہ اور بعد کو مرادآباد کے مدرسہ شاہی سے حفظ قرآن مکمل کیا۔ مدرسہ شاہی سے ہی ابتدائی عربی اور فارسی پڑھی۔تقسیم کے تین سال بعد جبکہ ان کی عمر محض دس سال تھی ، وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ راجپوتانہ کے تپتے ہوئے ریگستان کوعبور کرتے ہوئے ایک وزنی بکس کے ساتھ جس میں باپ دادا کے زمانے کی قیمتی کتابیں تھی، پاکستان پہنچے۔ بقول خود:

’’میراخاندان حضرت شاہ ولی اللہ کا عقیدت کیش تھا۔ میری خاندانی لائبریری میں کچھ کتابیں اٹھارہویں صدی کے علماء اور لیڈروں کی بھی تھیں۔ تقسیم کے بعد کے ہنگاموں کے زمانے میں میرے ماموؤں نے طے کیا کہ یہ ساری کتابیں کسی درس گاہ کو دے دی جائیں۔ عربی ، فارسی اور کچھ اردو کی کتابیں ، میں انھیں سمجھ بھی نہیں سکتا تھا، لیکن ماموؤں اور خالوؤں کی باتیں سن کر میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوگئی تھی۔ میں نے سوچا مجھے یہ کتابیں اپنے ساتھ پاکستان لے چلنی چاہئیں۔‘‘

شاہجہانپوری صاحب کا بیان ہے کہ ان کے گھر والے چاہتے تھے کہ میں کچھ گھریلو برتن ساتھ رکھ لوں جو سفر میں کام آئیں گے۔ مگر میں نے ان کی جگہ کتابوں کو ترجیح دی۔ افسوس ، وہ کتابیں ایک ناگہانی سیلاب کی نذرہوگئیں، جو نواب شاہ کے نشیبی علاقے میں آگیا تھا، جہاں ان کا قیام تھا۔ مہاجر کیمپ نمبر 2 سیلاب میں غرق ہوگیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:

’’بزرگوں کے اس قیمتی ورثے کے ضائع ہونے سے مجھے شدید صدمہ پہنچا۔ مگر اس نے میری علم کی بھوک کو بہت بڑھادیا۔ ہم 1957 میں کراچی منتقل ہوگئے۔ میں اس وقت تقریباً بیس سال کا تھا۔ میں نے طے کیا کہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کروں۔‘‘

اس کے پانچ برس بعد جبکہ ان کی عمر 25 برس تھی، انھوں نے میٹرک کا امتحان دیا۔ میٹرک کرنے کے سات سال بعد انھوں نے 1970 میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1972میں ان کا تقررنیشنل کالج میں بطور لیکچرر ہوا ۔ اس دوران انھوں نے شاہ ولی اللہ کے خانوادہ علمی پر سرسید احمدخاں کی تحریروں پر بڑی تحقیق وجستجو کے بعد ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا ۔ اسی مقالہ پر انھیں سندھ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی ۔

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کو برصغیر کی سیاسی تحریکات کا جو ادراک تھا وہ ہمارے کم ہی مورخین کے حصے میں آیا۔انھوں نے اپنے گہرے سیاسی اور تاریخی شعور سے ان تحریکات کو اپنی تحریروں میں جلابخشی۔انھیں برصغیر کی آزادی کی تاریخ ، تحریکوں ، تنظیموں اور سرکردہ شخصیات اور ان کے نشیب وفراز کا خاص شعور تھا۔بقول محمدفاروق قریشی:

’’ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری گزشتہ ڈھائی سو برس کی سیاسی تحریکات ، انقلابی شخصیات اور تاریخ وسیاسیا ت کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے وسیع مطالعے اور پختہ سیاسی ذوق کی بنا پر ان کی رائے صائب ہوتی ہے، جس پر سنجیدہ علمی حلقوں میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ نہ صرف ان کی تحریر زبان وبیان اور طرزنگارش کے محاسن سے مرصع ہوتی ہے، انھیں تالیف وتدوین کا خاص سلیقہ ہے۔‘‘

(کتاب نماکا خصوصی شمارہ ،جولائی 2004 ، صفحہ 44)

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی علمی اور تحقیقی زندگی کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنا سارا وقت تحقیق وتالیف میں گزارا۔ انھیں کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور گھومنے پھرنے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اپنے گھر میں سب سے پہلے سونا اور سب سے پہلے اٹھنا ان کا معمول تھا۔ ان کے دوستوں کا کوئی حلقہ نہیں تھا جس کے ساتھ وہ گپ شپ کرکے اپنا وقت ضائع کریں۔ نہ ہی ان کی کوئی مجلسی زندگی تھی اور نہ انھوں نے کسی ادبی ، سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیم سے کوئی تعلق رکھا ۔ انھوں نے 1962 کے بعد کسی سیاسی، مذہبی جلسے یا جلوس میں شرکت نہیں کی۔ مطالعہ اور تصنیف وتالیف کے علاوہ انھیں کوئی شوق نہیں تھااور نہ وہ کسی دوسرے امور سے کوئی دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے موسوم ان کی ذاتی لائبریری میں کم وبیش 20 ہزار کتابوں کا ذخیرہ تھا جس سے ہر کسی کو استفادے کی اجازت تھی۔ وہ علم کی ترسیل وتبلیغ سے بھی اتنا ہی سروکار رکھتے تھے جتنا کہ انھیں تصنیف وتالیف سے تھا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ جتنے بڑے عقیدت مند اور مداح تھے اتنا شاید ہی کوئی اس زمانے میں موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سب سے زیادہ علمی اور تحقیقی کام مولانا آزاد پر کیا ۔1989 میں جب مولانا کی صدی تقریبات منائی گئیں تو انھوں نے دودرجن کتابوں پر مشتمل پورا سیٹ شائع کیا اور اپنے اس کام کے لیے ارباب علم ودانش سے خراج تحسین وصول کیا۔خاص بات یہ تھی کہ یہ کام کسی ادارے نے نہیں بلکہ تنہا ایک شخص نے اپنے بل بوتے پر انجام دیا تھا۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری ،شیخ الہند مولانا محمود حسن کے قابل فخر شاگردوں میں مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا حسین احمدمدنی کی سیرت اور خدمات سے سب زیادہ متاثر نظرآتے ہیں۔ مولانا سندھی کے پچاس سالہ یوم وفات پر انھوں نے ایک درجن سے زائد تالیفات پر شائع کیں۔

سیاسی مطالعات ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کا ایک مقبول عام سلسلہ ہے۔انھوں نے اس سلسلہ میں مولانا محمودحسن، مولانا حسین احمد مدنی،مفتی کفایت اللہ اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے سیاسی مطالعات شائع کئے۔شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کی سیاسی تحریک ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی عقیدت ومحبت کا خاص محور ہے۔یہ تحریک چونکہ اپنی تاریخی اہمیت اور علمی فیضان کی وجہ سے بہت سی فکری ، علمی ، اصلاحی اور سیاسی تحریکوں کا سرچشمہ ہے اور ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے اس تحریک کے خاص اثرات اور برصغیر میں اس کے فیضان کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے برصغیر کی جن قومی وملی اور سیاسی تحریکوں کو اپنی تحقیق وجستجو کا محور بنایا ان میں ہندوپاک کی ملی تحریکات کے علاوہ تحریک خدام کعبہ،تحریک ہجرت، تحریک دارالعلوم، ریشمی رومال تحریک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس ذیل میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کی سیاسی ڈائری ‘‘ ہے۔ سات ہزار صفحات پر آٹھ جلدوں میں اس بے مثال کتاب کو جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے بڑے اہتما م سے شائع کیا ہے۔

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے مولانا آزاد اور مولانا محمدعلی کی صحافتی خدمات پر دوالگ الگ کتابیں قلم بند کی ہیں۔مولانا آزاد کے پہلے رسالہ’ لسان الصدق‘ پرایک بسیط مقدمہ لکھ کراس کی عکسی اشاعت کا بار اٹھایا۔اس کے علاوہ مولانا آزاد کی نگرانی میں شائع ہونے والے’ پیغام ‘(کلکتہ)کوبھی ایک طویل مقدمہ کے ساتھ بڑے سائز پر عکس شائع کروایا۔یہ اخبار مرکزی خلافت کمیٹی کا ترجمان تھا۔

ڈاکٹر شاہجہانپوری نے مکاتیب پر بھی خاطر خواہ کام کیا ہے۔ انھوں نے مولانا آزاد، علامہ سید سلیمان ندوی مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا محمدعلی جوہراور مولانا عبید اللہ سندھی کے مکاتیب مرتب کئے اور ان پر نہایت فکرخیز اور تحقیقی مقدمے لکھے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے دوران کسی سیاسی یا مذہبی مباحثے میں نہیں الجھے اور انھوں نے اپنے لیے تصنیف وتالیف کی جو راہیں متعین کی تھیں ، ان کے باہر کبھی قدم نہیں رکھا۔ان کی تصنیف وتالیف کی جملہ وسعتیں تقسیم ہند پر تمام ہوجاتی ہیں۔ بقول خود’’ جس روز میں نے تصنیف وتالیف کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا، یہ عہد بھی کرلیا تھاکہ وہ وقت کی سیاسیا ت سے تعلق نہیں رکھیں گے اور 14 اگست 1947 کی لکیر سے آگے نہیں بڑھیں گے۔‘‘

ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری نے ابوالکلامیات پر جو غیر معمولی کام کیا ہے ، اس کے لیے انھیں تمام بڑے اسکالرز نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ڈاکٹر عابد رضا بیدار جنھوں نے خدابخش لائبریری کے زمانہ کار میں ان کی کئی کتابیں شائع کیں ، لکھتے ہیں:

’’ابوسلمان شاہجہانپوری نے مولانا آزاد پر جیسا اور جتنا کام کیا ہے، آج کل افراد کیا ادارے بھی نہیں کرپاتے۔ انھوں نے مولانا کی اپنی نادر تحریروں کی دریافت کے ساتھ ساتھ مولانا پر لٹریچر کا قیمتی ذخیرہ فراہم کردیا ہے۔۔۔ابوسلمان ،مولاناکے ان عاشقوں میں ہیں جنھیں ستائش یا صلے کی خواہش نہیں ہوا کرتی۔ دوقومی نظریے والے ملک میں ایک قومی نظریے کے سب سے بڑے مبلغ کا پرچار کرنا اور کرتے رہنابڑی ہمت ، جرات ، جسارت اور بہت بڑی اخلاقی قوت چاہتا ہے۔ یہ اخلاقی جرات ، یہ بہادری اور بے خوفی کسی قوم کے ایک فرد میں بھی ہوں تو پوری قوم کی زندگی کی ضمانت ہے۔‘‘

(پیش لفظ عکسی اشاعت’پیغام ‘ کلکتہ)

افسوس کہ ابوالکلامیات کا یہ ماہر اور برصغیر کی سیاسی اور علمی تحریکوں کا نبض شناس گزشتہ 2 فروری 2021 کوبہ عمر 81 سال اپنے مالک حقیقی سے جاملا ۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

Comments are closed.