گلشن زبیدہ شکاری پور میں جشن یوم اساتذہ

آج جو بھی انسان کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہے، تعلیم و تربیت کی بدولت کسی بڑے منصب کا حق دار ہے۔ اپنی علمیت اور ادبیت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے اور وہ اپنے ابتدائی زمانے سے لے کر اعلیٰ تعلیم دینے والے اساتذہ تک کو فراموش کرچکا ہے تو انسان کہلانے کے لائق نہیں ہے۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی
شکاری پور(پریس ریلیز)آج بہ روز سوموار۵؍ستمبر ۲۰۲۲ء کو گلشن زبیدہ کے خوب صورت اور وسیع احاطے میں ایک شاندار جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ اس جلسے کو زبیدہ نرسری سے لے کر زبیدہ ڈگری کالج کے سبھی طلبا اور طالبات نے مشترکہ طور پر منعقد کیا جس میں طلبا و طالبات نے اپنے اساتذۂ کرام کی گلپوشی کر کے ان کا اعزاز کیا۔ یہ جلسہ اس لیے بھی یادگار جلسہ بن گیا کہ اس جلسہ میں زبیدہ نرسری، زبیدہ پرائمری اسکول انگلش میڈیم، اردو میڈیم، کنڑا میڈیم اور زبیدہ ہائرسکنڈری و ہائی اسکول انگلش میڈیم، اردو میڈیم، اور کنڑا میڈیم کے طلبا و طالبات کے علاوہ زبیدہ سائنس پی ،یو،کالج زبیدہ کامرس پی ،یو،کالج، زبیدہ خواتین ڈگری کالج، زبیدہ خواتین ڈی ایڈ کالج کے طلبا و طالبات نے نہایت خوب صورت پروگرامس پیش کیے۔ اس جلسے میں سارے اسکولوں، کالجوں کے پرنسپل حضرات کے علاوہ دوسرے اساتذہ نے شرکت کی۔ جبکہ مہمان ذی وقار کی حیثیت سے ادارے کے بانی و سرپرست قومی ادبی انعام یافتہ شاعر و ادیب ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے بھی شرکت کی۔ ان کے علاوہ ادارے کے نائب سرپرست جناب انیس الرّحمان، ایچ،کے فاؤنڈیشن کے صدر جناب فیاض احمد صاحب، کنڑا صحافتی تنظیم کے ضلعی صدر جناب ہچرایپّا کے علاوہ بھی بہت سارے معززین و عمائدین نے شرکت کی۔
اس موقع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اساتذہ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگ قوم کے معمار ہیں۔ آج دنیا میں جتنے بڑے بڑے سائنسداں، وکیل، جج، کارپوریٹر، فلسفی، اسکالر، شاعر، ادیب، صحافی، دانشور ہیں سب آپ ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اگر آپ تعلیم و تعلم کے پیشے سے وابستہ نہ ہوتے تو آج دنیا بھر میں نہ کوئی اسکول ہوتا نہ کالج۔ اور نہ یونیورسیٹی اور نہ حکومت کے کسی شعبے میں افسر ہوتے اور نہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں اپنے اپنے فن کے ماہرین۔ اس لیے آپ لوگوں کو خدا کا شکرادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے قوم و ملّت کے مستقبل کی تعمیر کے لیے آپ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کے آ ج میں جو کچھ بھی ہوں وہ میرے اساتذہ کا صدقہ ہے رادھاکرشنن جی بھی ایک استاد تھے۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ پایہ کی خدمات، قابلیت، لیاقت، اور ذمہ داری کو نبھانے کی بے مثال طاقت سے کام لے کر اس ملک کی ایسی خدمت کی جو کبھی بھلائی نہیں جاسکے گی۔ آپ سبھی اساتذہ ان کی وراثت کے پاسبان ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج جو بھی انسان کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہے، تعلیم و تربیت کی بدولت کسی بڑے منصب کا حق دار ہے۔ اپنی علمیت اور ادبیت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے اور وہ اپنے ابتدائی زمانے سے لے کر اعلیٰ تعلیم دینے والے اساتذہ تک کو فراموش کرچکا ہے تو انسان کہلانے کے لائق نہیں ہے۔اساتذہ ہی کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی تعمیر کی بنیاد کا پہلا پتھر رکھتے ہیں۔ آپ سبھی اساتذہ ہمارے قیمتی سرمایہ ہیں۔
ادارہ کے نائب سرپرست جناب انیس الرّحمان نے کہا کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ میں ایک ایسی شخصیت کی سرپرستی میں پروان چڑھا جن کی زندگی کا مقصد ہی علم و ادب اور خدمت خلق ہے۔ اور میرے لیے فخر کی بات یہ ہوگی کہ میں ان کی وراثت کا بھروسے مند وارث بن سکوں۔ ویسے یوم اساتذہ کے اس موقع سے میں کہنا چاہوں گا کہ اساتذۂ کرام! آپ اس خود اعتمادی کے ساتھ درس و تدریس کا فریضہ انجام دیں کہ جو کام آپ کررہے ہیں وہ سب سے بنیادی اور مقدس کا م ہے۔ رادھا کرشنن جی ایک استاد تھے، ان کی خدمات کی بدولت ہی ملک عزیز کی صدارت کی کرسی ان تک چل کر آئی تھی۔ ایک دن آپ کی خدمات سے بھی نئی صبح پیدا ہوگی۔ اور ہر طرف روشنی پھیلے گی۔
گلشن زبیدہ کی سینیر پروفیسر سومیتا میڈم نے کہا کہ میرے والد بھی استاد تھے اور ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی بھی استاد تھے بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ فطرتاً آج بھی استاد ہیں۔ انہوں نے جو یہ مثالی ادارہ قائم کیا ہے جہاں ہندو مسلم سبھی اساتذہ اور طلبا مل جل کر تعلیم و تعلم کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں۔ وہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کے سیکولر اور جمہوری مزاج کا آئینہ ہے۔ ان کے زیر سرپرستی کام کرتے ہوئے جس اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر شری رادھا کرشنن کی شخصیت کی ساری خوبیاں ان کے اندر پائی جاتی ہیں۔
زبیدہ جونیر سائنس اینڈ کامرس کالج کے پرنسپل تپیش نے کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کے خون پسینے سے سینچا ہوا چمن ہے۔ اس چمن میں ہر رنگ کے پھول ایک ساتھ کھلتے اور اپنی خوشبو بکھیر کر ہندوستان کے مشترکہ کلچر کے حسن کا احساس دلاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شری رادھاکرشنن جی کی آتما ایسے ہی لوگوں کی خدمات کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہوگی۔
گلشن زبیدہ کی ایک طالب علم رخسا نازنے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کے زیر سرپرستی تعلیم و تربیت حاصل کررہے ہیں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی ادارے کے سرپرست سے زیادہ ایک مخلص، شفیق، اور ہر طرح خیال رکھنے والے والد کی طرح ہیں۔ وہ ہماری ایک ایک ضرورت کا اس طرح خیال رکھتے ہیں کہ شاید ہی کوئی دوسرا رکھ پائے گا۔ ان کی نظر ہر چھوٹی بڑی باتوں اور چیزوں پر ہوتی ہے۔ ان کا چہرہ دیکھ کر ہمارے دل کھل جاتے ہیں کیوں کہ ان کے چہرے سے ایک شفیق والد کی شفقت ٹپکتی محسوس ہوتی ہے۔
زبیدہ خواتین ڈی ایڈ کالج کی ٹیچر محترمہ سیما ناز نے کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی میرے استاد ہیں جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت بھی دی تھی۔ اسی لیے میں ماسٹرڈگری تک پہونچ سکی۔ اور آج ایک معلمہ بن کر خدمت انجام دے رہی ہوں۔ ملک و قوم اور بچوں کے مستقبل کی تعمیر کی فکر میں وہ اس طرح لگے رہتے ہیں گویا ڈاکٹر رادھا کرشنن جی نے اپنی وراثت انہیں کے سپرد کی ہو۔
گلشن زبیدہ کی طالب علم امینہ پروین نے کہا کہ آج ملک میں تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر وہ اتنے کمرشیل ہیں کہ انہیں قومی اثاثہ شمار کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن حافظؔ کرناٹکی صاحب ایسے انسان ہیں جو صرف اور صرف تعلیم پر توجہ کرتے ہیں۔ غریبوں، یتیموں اور بے کس طالب علموں کی پوری کفالت اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ ہندوستان میں شاید ہی ایسا کوئی پرائیویٹ تعلیمی ادارہ ہوگا جسے اس کا بانی اپنا سرمایہ لگا کر چلاتا ہوگا۔اس لیے سچی تعلیم وتربیت اور ملک و قوم کے مستقبل کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کو ڈاکٹر رادھا کرشنن اور سرسید احمد خان کا سچا وارث کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جناب ہچرایپّا نے کہا کہ میں اس ادارے کو تیس سالوں سے دیکھ رہا ہوں یہاں کے اسکولوں، کالجوں میں غیر مسلم اساتذہ اور غیر مسلم ہیڈ ماسٹرس اور پرنسپل کی تعداد مسلمانوں سے کم نہیں ہے۔ دیس کے سبھی لوگوں سے اس طرح ٹوٹ کر پیار کرنے والا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح ڈاکٹر رادھا کرشنن جی کی زندگی کا مشن ملک اور قوم کی خدمت کرنا تھی اسی طرح اس ادارے کے بانی کی زندگی کا مشن بھی ملک و قوم کی خدمت کرنا اور تعلیم کو گھر گھر پہونچانا ہے۔ اس مشن کے لیے وہ اپنا مالی نقصان تو گوارہ کرلیتے ہیں مگر بچوں کو غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں ہونے دیتے ہیں۔
ایچ، کے ،فاؤنڈیشن کے صدر جناب فیاض احمد نے کہا کہ جس طرح ڈاکٹر رادھا کرشنن اپنے طلبا میں نہایت مقبول تھے اور ان کی محبت کا دم بھرنا اپنی زندگی کا حاصل گردانتے تھے ، اسی طرح اس ادارے کے سرپر ست سے طلبا اور یہاں خدمات انجام دینے والے اساتذہ اور طلبا ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی خدمات بے لوث ہیں۔
اس جلسے کا باضابطہ آغازمحمد سورین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔حمد یہ کلام مسکان بانو نے پیش کیا نعت خوانی کا جادو ایمن شفا نے جگایا۔ اغراض و مقاصد اور استقبال کے فرائض مطیع الرّحمن نے ادا کیے۔ یہ جلسہ بچوں اور بچیوں کے بہت سارے تعلیمی اور ادبی پروگراموں پر مشتمل تھا جو اپنے وقت پر انجنیر محمد شعیب کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچا۔
Comments are closed.