مسلمانوں کے اخلاقی بگاڑ سے معاشرے پر منفی اثر : مولانا رضاء اللہ قاسمی

اسلام کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کرنے کے لئے دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت
جالے( محمد رفیع ساگر؍بی این ایس )
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفائے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔مذکورہ باتیں مدرسہ کریمیہ بشارت العلوم بوکھڑا کے ناظم تعلیمات مولانا محمد رضاءاللہ قاسمی نے ایک پریس ریلیز میں کہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اور اپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہو چکے ہیں۔جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اسلام کی بد نامی کا سبب بن رہے ہیں۔
مولانا رضا ء اللہ قاسمی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمارے معاشرہ اور سماج میں جو معاشرتی بگاڑ آیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی نیا معاملہ سامنے آرہا ہے ۔کہیں ہماری ماں بہنیں مرتد ہورہی ہیں تو کہیں غیر کے پیار ومحبت میں پھنس کر اپنے دین اور ایمان کا سودا کررہی ہیں۔ آج کے اس پرفتن دور میں اگر بروقت اصلاح نہیں کی گئی تو اسکا نتیجہ اور برا ہونے والا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے۔اسکے لئے عوام الناس بالخصوص علماء طبقہ کو آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے سماج کے اندر جاری خرابیوں کو دور کیا جاسکے ۔ مولانا محمد رضاءاللہ قاسمی نے آگے کہا کہ آج ہماری سب سے بڑی کوتاہی یہ آگئی ہے کہ دوسروں کے اصلاح کی فکر میں اپنی اصلاح نہیں کرپاتے ہیں جب کہ اصلاح کی ابتداء اپنے گھر سے شروع ہونی چاہئے۔حالانکہ اسلام اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم یہ ہے کہ اصلاح کی ابتداء اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہو۔اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والوں خود کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جب ہر فرد اور خاندان اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے پوری کرے تو اس عمل سے پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئیگا اور اس پاکیزہ معاشرہ میں نیکیوں کی رغبت ،حوصلہ افزائی اور برائیوں اورگناہوں سے نفرت و حوصلہ شکنی کا ماحول بنے گا۔پھر اچھی باتوں کی تلقین و ترغیب اور بری باتوں سے نفرت اور دوری اس مثالی معاشرے کی پہچان بن جائے گی۔

Comments are closed.