پریش میستاکی ہلاکت کا معاملہ: بی جے پی معافی مانگے اور استعفی دے: عبدالمجید میسور ایس ڈی پی آئی

بنگلورو(پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے ریاستی صدر عبدالمجید میسور نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ2017 میں پریش میستا نامی نوجوان غلطی سے جھیل میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ جیسے ہی بی جے پی نے ایک ہندو کی لاش دیکھی اس نے اسے اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑی۔ بی جے پی نے الزام لگایا کہ کہ یہ ایک قتل ہے اور اس کا ارتکاب مسلمانوں نے کیا ہے، قتل کے ساتھ ایس ڈی پی آئی پارٹی اور پی ایف آئی تنظیم کا نام بھی گھسیٹا گیا۔ اس معاملے میں کچھ بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ بی جے پی نے اس قتل میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا اور فسادات کو ہوا دی اور پورے کرناٹک کو آگ لگا دی اور پولیس کی گاڑیوں کو جلایا۔لیکن سی بی آئی نے اپنی حتمی رپورٹ میں پریش میستا کی موت کو حادثاتی بتایا ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ بی جے پی معافی مانگے اور استعفیٰ دے: ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالمجید میسور نے مزید کہا ہے کہ کوئی بھی موت عام طور پر ہمدردی کو جنم دیتی ہے۔ لیکن اسے فاشسٹ بی جے پی ایک سیاسی موقع کے طور پر دیکھ رہی تھی جو گدھ کی طرح لاشوں کا انتظار کرتی ہے۔ اس واقعہ کے بعدبی جے پی کے سبھی لیڈر مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت انگیز تقاریر کرنے اور پوری ریاست میں فسادات بھڑکانے کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ فاشسٹ بی جے پی نے ایسا تشدد کیا جس میں آئی جی پی کی گاڑی بھی جلا دی گئی۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے، ‘فساد چانکیہ’ امت شاہ کو سیاسی فائدے کے لیے عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اب اسی بی جے پی حکومت کے تحت آنے والی سی بی آئی تحقیقاتی ایجنسی نے حتمی رپورٹ دے دی ہے کہ یہ ایک حادثاتی موت تھی۔ عبدالمجیدنے کہا کہ اگر اس پارٹی میں ذرا سا بھی وقار ہے تو اسے عوام کے درمیان آکر اس وقت کے تشدد کا جواب دینا چاہیے۔یہ صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح فرقہ پرست بی جے پی پارٹی ہندو مسلم نفرت کا فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کرتی ہے۔ عبدالمجید نے بی جے پی حکومت کو چیلنج کیا کہ اگر ان میں شرم، غیرت اور وقار باقی ہے اور اگر ان میں ہمت اور طاقت ہے جس طرح وہ دوسروں کو للکارتے ہیں تو وہ اسمبلی تحلیل کر کے عوام کے سامنے آئیں اور دوبارہ انتخابات کرائیں۔
دوسری طرف کانگریس کا یہ حال ہے کہ کانگریس پارٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ پی ایف آئی تنظیم پر پابندی لگائی جائے، جب اس پر پابندی لگائی گئی تھی توسدارامیا اور ڈی کے۔ شیوکمار نے اس کا خیر مقدم کیا۔ لیکن میستا کی موت کے بعد فسادات کے وقت پوری ریاست کو جلایا جا رہا تھا اور آئی جی پی کی گاڑی کو بھی جلایا گیا۔ یہی سدارامیا جو اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور ڈی کے شیوکمار وزیر تھے، انہوں نے ان فسادیوں کے خلاف یو اے پی اے کا استعمال نہیں کیا۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی مسلمانوں کی پریشانیوں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایس ڈی پی آئی ریاستی صدر عبدالمجید نے درخواست کی کہ ریاست کے عوام ان سب باتوں کا نوٹس لیں اور اگلے الیکشن میں ان پارٹیوں کو مناسب سبق سکھائیں۔

Comments are closed.