قاہرہ میں عید میلاد النبی کا نظارہ!

 

لقمان عثمانی

ہم نے سنا تھا کہ قاہرہ میں بارہ ربیع الاول کے موقع پر بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منایا جاتا ہے اور اس کا سب سے زیادہ اہتمام قلبِ قاہرہ میں واقع مسجدِ حسین میں ہوتا ہے؛ تب سے ہی شدید خواہش تھی کہ اس مناسبت سے وہاں حاضر ہوکر جشنِ آمدِ رسول کی محفل میں شرکت کریں اور ساتھ ہی صورتِ حال کا جائزہ بھی لے سکیں؛ چناں چہ 12 ربیع الاول 1444ھ بہ مطابق 9 اکتوبر 2022ء کو مغرب کے بعد میں برادرم طلحہ سلمان بَلانتوی قاسمی کے ہمراہ مسجدِ حسین کی طرف روانہ ہوگیا جو ہمارے ہاسٹل سے صرف دس منٹ کے فاصلے پر ہی واقع ہے، اس راستے پر حسبِ معمول بھیڑ زیادہ تھی، ہم نے کچھ دور پہلے ہی ”مستشفی حسین“ کے سامنے گاڑی سے اتر جانے میں عافیت جانی اور پیدل ہی مسجدِ حسین کی طرف بڑھنے لگے؛ چناں چہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ہم مسجدِ حسین کے سامنے لگی جالیوں کے پاس پہنچ گئے ـ
اس مسجد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک مدفون ہے؛ لیکن یہ خیال ابھی تشنۂ تحقیق ہے کیوں کہ بہت سے علما جہاں اس کی تائید کرتے ہیں وہیں ایک بڑی تعداد تردید کرنے والوں کی بھی ہے؛ بہر حال حقیقت جو بھی ہو لیکن مسجد ہونے کے علاوہ اس نسبت کی بنیاد پر بھی یہ شیعہ و سنی ہر دو طبقہ کے لیے بے پناہ عقیدتوں کا محور ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں زائرین و مصلین کی مسلسل آمد و رفت سے دوسری مساجد کی بہ نسبت اس کی رونقیں فزوں تر رہا کرتی ہیں، خاص طور پر محرم میں شیعوں کی آمد سے تو عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر سنیوں کے ذکر و اذکار اور درود و سلام سے پوری مسجد گونجتی رہتی ہے، اس کے علاوہ رمضان میں کئی مرتبہ یہاں تراویح کی نماز بھی پڑھنے کا موقع ملا؛چناں چہ جو کیف و سرور یہاں حاصل ہوا وہ مسجدِ حسین کی ہی مخالف سمت میں واقع جامعِ ازہر کے علاوہ کہیں اور حاصل نہ ہوسکا؛ لیکن آج کئی چیزیں خلافِ معمول دیکھنے کو ملیں جو حیرت انگیز بھی تھی اور باعثِ افسوس بھی ـ
عیدِ میلاد النبی کی مشروعیت و بدعیت پر کلام کیا جا سکتا ہے، بدعتِ حسنہ و بدعتِ سیئہ کی تفریق پر بھی گفتگو کی جا سکتی ہے، دین کے لازمی جزو کے طور پر اس کے التزام سے گریز کرتے اور جشن کا اہتمام نہ کرنے والوں پر لعن طعن سے پرہیز کرتے ہوئے، حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے کر اس کے جواز کی سبیل بھی پیدا کی جاسکتی ہے؛ لیکن اس موقع پر جس نوعیت کی حرکتیں انجام دی جاتی ہیں اس کی حرمت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ـ میں اس سے قبل بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے کلیر شریف کا سفر کرچکا ہوں، جہاں کی صورتِ حال کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے یا تو لفظوں کو ننگا کرنا پڑتا ہے یا پھر لحاظا شرما نوکِ قلم کو تہذیب کا جامہ پہنا کر صورتِ حال کی حقیقی منظر کشی سے پہلو تہی پڑتی ہے؛ لیکن شکر ہے کہ یہاں جشن منانے کا معیار کلیر شریف کی بہ نسبت قدرے غنیمت ہے ـ
ہم نے دیکھا کہ مسجد سے متصل سڑک مکمل طور پر نوعِ انسانی کی دونوں صنفوں سے جام تھی اور سڑک کی پگڈنڈیوں پہ دونوں جانب جہاں خواتین بیٹھی تھیں، وہیں مَردوں کا بھی ہجوم تھا، ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اختلاط سے بچ پانا تقریبا ناممکن ہے، مزید برآں خواتینِ مصر کے لباس کا تجزیہ کرنے کے لیے میں علامہ شبلی نعمانی کے الفاظ سے بہتر کوئی لفظ نہیں پاتا کہ وہ انتہائی بیہودہ ہوا کرتے ہیں اور اس پر حیرت بھی نہیں ہونی چاہیے، کہ یورپ زدہ تہذیب کے علمبرداروں سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؛ لیکن یہاں جو چیز قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں جو لوگ وہاں پہ جشن منانے کی غرض سے آئے ہوتے ہیں وہ دوشیزاؤں کی آغوش میں بیٹھ کر اور شہوت انگیز مناظر سے آنکھیں سینک کر کس منہ سے سرکار سے عشق کا دعوی کرتے ہیں؟ اور جو خواتین ”حبیبی یا رسول اللہ“ کے نعرے لگا کر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبتوں کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں وہ ساتھ ہی غیر محرموں کی ہوس ناک نگاہوں کو کیوں کر اپنے لیے باعثِ افتخار تصور کرتی ہیں؟ اور آخر یہ کیسا حبِ رسول ہے جب کہ دونوں کا عمل احکامِ رسول کے بالکل برعکس ہے ـ
میں یہ نہیں کہتا کہ ان افسوس ناک مناظر سے صرف عیدِ میلاد النبی کے موقع پر ہی سابقہ پڑا؛ لیکن یہ ضرور ذہن نشیں رہنا چاہیے کہ یہ بھیڑ اسی موقع پر اور اسی مقصد سے جمع ہوئی تھی اور یہ سب کچھ عشقِ نبی کا لیبل لگا کر انجام دیا جا رہا تھا، یوں تو بے حیائیاں ہر حال میں قابلِ سرزنش ہوتی ہیں لیکن جب اس کو دین کے کسی شعبے سے جوڑ کر انجام دیا جائے تو اس میں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے، یقینا جو لوگ عیدِ میلاد النبی کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں وہ بھی ان غیر شرعی حرکتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے؛ لیکن ہمارا تعلق جس دینِ متین سے ہے اس میں گناہ تو گناہ، دواعیِ گناہ سے بھی احتراز کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛ چناں چہ ان حتمی نتائج سے واقف ہوجانے کے بعد حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عینِ تقاضہ یہ ہے کہ یا تو ان غیر ضروری رسومات سے ہی گریز کیا جائے تاکہ دین کے نام پر ان بیہودگیوں کا سدِ باب ہوسکے یا اگر نبی سے اظہارِ محبت کی یہی واحد صورت رہ گئی ہے تو کم از کم جشن کے طریقے پر غور کر لیا جائے اور اغیار کی طرح سڑکوں پر جہالت کا مظاہرہ کرکے دین کا مذاق نہ بنایا جائے ـ
بہر حال بڑی تگ و دو کے بعد جب ہم اس جمگھٹ سے نکل پانے میں کامیاب ہوئے تو مسجدِ حسین کے شمالی دروازے سے مسجد کے اندر داخل ہوگئے، اندرونِ مسجد کا نظارہ بڑا ہی دلکش اور ماحول بہت ہی وجد آفریں تھا، کچھ لوگ مختلف جگہوں پہ نماز ادا کر رہے تھے تو وہیں لوگوں کا ایک بڑا حلقہ منبر کے پاس بیٹھ کر بہ یک آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں نغمۂ جاں فزاں گنگنا رہے تھے، کہ جس کی تاثیر سے انسان طبعی طور پر جھوم اٹھتا ہے…… کچھ دیر وہاں ٹھہرنے اور محظوظ ہو لینے کے بعد ہم باہر نکل کر دوسرے راستے سے جامعِ ازہر کے پاس نکلنے والی سرنگ کے نزدیک آگئے، تبھی عشا کی اذان ہوئی اور ہم اسی سرنگ کے پُر سکون راستے سے جامعِ ازہر پہنچے، ازہر کے اندر جاکر دیکھا تو لوگ سنن و نوافل میں مشغول تھے اور یہاں خصوصی نوعیت کی ایسی کوئی چہل پہل دیکھنے کو نہ ملی، ایسا نہیں کہ ازہر کے نزدیک جشن منانا درست نہیں؛ لیکن جن خارجی مفاسد کی بنیاد پر اس کو غیر درست قرار دیا جاتا ہے ازہر ان سے پاک ہے ـ

Comments are closed.