مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

یوم سرسید کی مناسبت سے خصوصی لیکچر کا اہتمام
علی گڑھ،13اکتوبر: سر سید احمد خاں نے ہندوستان میں خاص طور پر 1857 کی بغاوت کے بعد سماج کے مختلف طبقات کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے مثالی کوششیں کی۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کے ماحول میں سر سید نے مفاہمت اور سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کے زیر اہتمام ’پرامن بقائے باہمی کی سرسید کی کاوش‘ موضوع پر آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں منعقدہ ایک لیکچر کے دوران مقررین نے اس نکتے کو اجاگر کیا۔
یہ پروگرام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے یو م پیدائش (یوم سرسید) سے متعلق تقریبات کا حصہ تھا۔
اپنی تقریر میں پروفیسر عبدالرحیم قدوائی، ڈائریکٹر، کے اے نظامی مرکز برائے قرآنی مطالعات، اے ایم یو، نے 1850 کی دہائی میں شمالی ہند میں معاشرے میں تکثیریت اور بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے سرسید کی کوششوں کو سیاق و سباق کے حوالے سے پیش کیا۔ انھوں نے کہا ’یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک ہنگامہ خیز دور تھا جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تھا اور مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کی حالت میں تھے۔ سر سید نے اپنی تحریریں اس وقت لکھیں جب عمومی ماحول پر مستشرقین کے تعصبات، فرقہ وارانہ مباحثوں اور مشنری سرگرمیوں کا غلبہ تھا‘۔
پروفیسر قدوائی نے کہا کہ سر سید نے اپنے دور کے مسلمانوں میں مفاہمت ، رواداری اور دوسروں سے تال میل کا احساس پیدا کیا تاکہ وہ جدیدیت کے چیلنجوں سے نمٹ سکیں جو مغربی تعلیم اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔
انھوں نے کہا ’’سرسید کا مقصد حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان خلیج کو پُر کرنا تھا۔ اسی لئے انھوں نے ’اسباب بغاوت ہند‘ لکھی جس میں انھوں نے واضح طور پر ہندوستان میں برطانوی انتظامیہ کی ان خامیوں کی نشاندہی کی جو 1857 کی بغاوت کا باعث بنی‘‘۔
انہوں نے مزید کہا: سرسید نے تبیین الکلام اور تفسیر التوراۃ و الانجیل لکھی تاکہ بائبل، قرآن پاک اور یہودیوں کی تورات کے درمیان مماثلت کو بیان کرسکیں۔ وہ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ان آسمانی کتابوں کو جوڑنے کی کوشش کی۔ مزید یہ کہ ان کے رسالہ احکام الطعام فی اہل کتاب نے لوگوں کو انگریزوں کے ساتھ سماجی تعلقات برقرار رکھنے پر زور دیا۔
پروفیسر قدوائی نے کہا ’’سرسید نے ہندو بھائیوں کو انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک سفر کرنے کی بھی ترغیب دی۔ سرسید کی ان کوششوں کا نتیجہ نکلا اور بالآخر ایم اے او کالج کی تعمیر کے لیے ایک سو بیس عطیہ دہندگان میں سے 80 عطیہ دہندگان ہندو اور عیسائی تھے‘‘۔
پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے مزید کہا ’’اس طرح سرسید نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے ہندوستان کو اپنے دل کے بہت قریب رکھا اور معاشرے میں تہذیب اور باہمی احترام کو پروان چڑھایا۔‘‘
خطبہ کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شان محمد، سابق ڈائرکٹر، سر سید اکیڈمی، اے ایم یو نے کہا، ’’سر سید کی علمی کاوشیں ان کی دور اندیشی اور پرحوصلہ رویہ کا مظہر تھیں، کیوںکہ انہوں نے خاص طور پر سیاسی انتشار کے دور میں لکھا۔ 1857 کی بغاوت میں دہلی شہر کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا اس نے مسلم دانشوروں کو بہت حیران و پریشان اور حکومت کی طرف سے ہر قسم کی حمایت سے محروم کر دیا تھا۔ ان حالات میں سرسید نے برطانوی حکومت اور ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان مواصلاتی خلیج کو پاٹنے کے لیے اپنی تخلیقات لکھیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک مؤرخ اور ماہر آثار قدیمہ کے طور پر بھی سرسید کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی تصنیف آثار الصنادید دہلی کی یادگاروں پر سب سے زیادہ مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔
قبل ازیں پروفیسر گلفشاں خان، چیئرپرسن و کوآرڈینیٹر، شعبہ تاریخ نے مقررین کا خیرمقدم کیا اور ان کا تعارف کرایا۔
لیکچر میں اساتذہ اور طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر نذر الباری نے کی اور ڈاکٹر ثنا عزیز نے شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کے دو اساتذہ ’آؤٹ اسٹینڈنگ ریسرچرز ایوارڈ 2022 ‘ کے لئے منتخب
علی گڑھ، 13 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے دو اساتذہ پروفیسر فرخ ارجمند (شعبہ کیمسٹری) اور ڈاکٹر حفظ الرحمٰن صدیق (شعبہ حیوانیات) کو ’فیکلٹی آف سائنس، لائف سائنسز، انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی، میڈیسن، یونانی میڈیسن اور ایگریکلچرل سائنسز‘ کے زمرے میں کیمسٹری اور زولوجی میں ان کی نمایاں خدمات کے لیے ‘آؤٹ اسٹینڈنگ ریسرچرز ایوارڈ 2022 ‘ کے لئے مشترکہ طور سے منتخب کیا گیا ہے۔ انھیں 17 اکتوبر کو یوم سرسید یادگاری تقریب میں یہ ایوارڈ اور فی کس 50,000 روپے کاانعام دیا جائے گا۔
بایواِن آرگینک کیمسٹری، میڈیسنل اِن آرگینک کیمسٹری، اینٹی ٹیومر میٹالوڈرگس کے کیرکٹرائزیشن اور سنتھیسس میں پروفیسر فرخ ارجمند کی تحقیق نے ادویات کی تیاری سے لے کر میٹیریئلس اور ڈائیگنوسٹکس تک امکانات کے دروازے کھولے ہیں اور ایک سائنسداں کے طور پر معتبر تحقیقی جرائد میں ان کی 160 سے زائد اشاعتوں نے ان کی اہلیت کا لوہا منوایا ہے۔
ان کے پاس ایچ-انڈیکس 37 اور i10-انڈیکس 107 کے ساتھ 4717 سائٹیشن اور میٹلک اینٹی ٹیومر ادویات سے متعلق دو مخصوص پیٹنٹ ہیں۔
پروفیسر ارجمند نے یوجی سی، سی ایس آئی آر اور ڈی بی ٹی، حکومت ہند کے چھ بڑے تحقیقی پروجیکٹوں میں بطور پرنسپل انویسٹی گیٹر کام کیا ہے۔
انھوں نے قومی اور بین الاقوامی تحقیقی اداروں جیسے کہ آئی آئی ٹی کھڑگپور، آئی آئی سی ٹی حیدرآباد، اے سی ٹی آر ای سی، ممبئی؛ یوایس ٹی سی، چین؛ انسٹی ٹیوٹ ڈی فزیک ڈی رینس، فرانس اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکہ کے ساتھ تحقیقی اشتراک کیا ہے۔
دوسری طرف، مالیکیولر کینسر جینیٹکس اینڈ ٹرانسلیشنل ریسرچ لیب، شعبہ زولوجی سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حفظ الرحمٰن صدیق نے کینسر کی کیمیائی مزاحمت اور پیش رفت میں مختلف خلیات، جینز اور پروٹینز کے کردار پر گرانقدر تحقیق کی ہے۔
ٍ ان کی لیبارٹری، پرائمری اور ایکوائرڈ کیمورسٹینس کے عمل میں کینسر کے اسٹیم سیلز، ٹرانسکرپشن فیکٹر؍ اسٹیم سیل فیکٹر، اور نان کوڈنگ آر این اے کے کردار پر تحقیق کرتی ہے جس میں وٹرو ماڈلز، جانوروں کے ماڈلز، اور انسانی طبی نمونوں کااستعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حفظ الرحمٰن کی تحقیق میں لیور کینسر اسٹیم سیلز اور پروسٹیٹ کینسر کے بائیو مارکرز کی دریافت شامل ہے۔
ڈاکٹر حفظ الرحمن ‘ہربل میڈیسن- اے بون فار ہیلتھی ہیومن لائف’ (ایلزیویئر) اور 85 سائنسی مضامین کے مصنف ہیں جو ہیپاٹولوجی، نیچر کمیونیکیشنز، سیمینارز ان کینسر بایولوجی، کوآرڈینیشن کیمسٹری ریویو، کلینیکل کینسر ریسرچ، کینسر ریسرچ، انٹرنیشنل جے آف کینسر،ا سٹیم سیلز، کیموسفیئر، اے سی ایس اپلائیڈ نینو میٹریئلز، لائف سائنسز جیسے معتبر رسائل میں شائع ہوئے ہیں، جن کا اوسط امپیکٹ فیکٹر 10 سے اوپر ہے۔ انھوں نے نو کتابوں میں ابواب بھی تحریر کئے ہیں۔
تھیریپی -مزاحم کینسر پر ان کی تحقیق کو 2014 میں یو ایس اے ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس نے تین ‘فیچرڈ پروسٹیٹ کینسر ریسرچ’ میں سب سے بہترین کے طور پر منتخب کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
کیریئر کاؤنسلنگ سیشن
علی گڑھ، 13 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بیگم سلطان جہاں ہال کی رہائشی طالبات نے یونیورسٹی کے ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ آفس (جنرل) کے زیر اہتمام منعقدہ کیریئر کاؤنسلنگ سیشن میں کامیاب کیریئر کی منصوبہ بندی کی باریکیوں اور واضح ہدف، ٹائم مینجمنٹ، اعتماد اور مسائل کو حل کرنے کی مہارتوں کے بارے میں سیکھا۔
ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ آفیسر جنرل مسٹر سعد حمید نے طالبات کے سوالوں کے جواب دئے اور ملازمت اور کیریئر بنانے کے درمیان فرق کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ایک واضح ہدف کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کرنا آسان ہے جن سے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں مدد ملے ”۔
ڈاکٹر مزمل مشتاق، اسسٹنٹ ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ آفیسر-جنرل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ہر طالب علم کو اپنی زندگی میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اب آگے کیا کیا جائے۔
انھوں نے تعلیم کے بعد ’ملازمت کی دنیا‘کے لیے تیاری کرنے کے بارے میں گفتگو کی اورتعلیم کے ساتھ ساتھ نیٹ ورکنگ اور سافٹ اِسکلس کی اہمیت پر زور دیا۔
ڈاکٹر سائرہ مہناز، پرووسٹ، بیگم سلطان جہاں ہال نے طالبات کو نصیحت کی کہ وہ آرام طلبی سے باہر نکلیں، نئی چیزیں سیکھیں، اور اپنے صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے مشکل حالات کا سامنا کریں۔
٭٭٭٭٭٭
‘سوشل ورک میں کیریئر ‘ موضوع پر ورکشاپ
علی گڑھ، 13 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سوشل ورک شعبہ میں عظیم پریم جی یونیورسٹی ، عظیم پریم جی فاؤنڈیشن اور ٹی پی او جنرل کے اشتراک سے آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں ’سوشل ورک میں کیریئر ‘ موضوع پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
ریسورس پرسن فالگنی سارنگی (لیڈر-ایسوسی ایٹ فیلوشپ پروگرام برائے عظیم پریم جی فاؤنڈیشن) نے شرکاء کو فاؤنڈیشن کے بارے میں بتایا، جو سن 2000 سے ابتدائی تعلیم کے میدان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں کام کر رہی ہے۔
انہوں نے سماجی شعبے ، این جی او سیکٹر اور حکومت اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے چلائے جانے والے مختلف قومی اور بین الاقوامی فیلوشپ پروگراموں میں ملازمت کے مواقع پر بھی روشنی ڈالی۔
دیگر ریسورس پرسن مسٹر پیوش شکلا ،انچارج-رکروٹمنٹ اینڈ آؤٹ ریچ، بہار، یوپی و این سی آر اور مسٹر دھول بھاسکر، انچارج ایڈمیشن اینڈ آؤٹ ریچ عظیم پریم جی یونیورسٹی و عظیم پریم جی فاؤنڈیشن نے بھی اظہار خیال کیا۔
مسٹر سعد حمید (ٹریننگ و پلیسمنٹ آفیسر) نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر قرۃ العین علی نے نظامت کی اور ڈاکٹر محمد طاہر نے اظہار تشکر کیا۔
فیکلٹی ممبران، مسٹر محمد عذیر ، ڈاکٹر سمیرا خانم، ریسرچ اسکالرز اور ایم ایس ڈبلیو اور بی اے (سوشل ورک) کے طلباء نے پروگرام میں شرکت کی۔
٭٭٭٭٭٭
ہوم سائنس شعبہ میں صفائی مہم کا اہتمام
علی گڑھ، 13 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ہوم سائنس شعبہ نے گاندھی جینتی کے موقع پر صفائی مہم کے تحت مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا۔
شعبہ کے طلباء اور عملہ کے ارکان نے صفائی کی سرگرمیاں انجام دیں ۔ انھوں نے پریکٹیکل لیب کی صفائی کی، فرش صاف کیا، کچرا جمع کیا اور انھیں کوڑے دان میں ڈالا۔
ان سرگرمیوں کے بعد شعبہ کی چیئرپرسن پروفیسر فرزانہ علیم نے تدریسی اور غیر تدریسی اراکین اور طلباء کو ’صفائی‘ کا حلف دلایا۔ ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ گھر اور دفتر میں صفائی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے طلباء کو آگے بڑھنے اور صفائی مہم کے مقاصد کے حصول کے لئے ساتھ مل کر کام کرنے کی ترغیب دی۔
قبل ازیں تدریسی اور غیر تدریسی عملہ نے اپنے دفتر کی میز پر فائلوں اور فولڈرز کو سلیقہ سے ترتیب دے کر دفتر میں صاف ستھراماحول برقرار رکھنے پر زور دیا ۔ پروگرام کا اہتمام شعبہ کی ڈاکٹر مریم فاطمہ، اور ڈاکٹر ارم اسلم نے کیا۔
٭٭٭٭٭٭
سول انجینئرنگ شعبہ کی جانب سے ورکشاپ کا اہتمام
علی گڑھ، 13 اکتوبر:ذاکر حسین کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی جانب سے ’’سول انجینئرنگ کے ڈھانچوں کو لاحق خطرات کے چیلنجز اور ان میں کمی‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
پروفیسر عبدالباقی، چیئرپرسن، شعبہ سول انجینئرنگ نے مہمانوں، ریسورس پرسن اور شرکاء کو خوش آمدید کہا۔ پروگرام کے کوآرڈینیٹر پروفیسر امجد مسعود نے ورکشاپ کے موضوع کا تعارف کرایا۔
آئی آئی ٹی گوہاٹی کے پروفیسر ابھیشیک کمار نے اظہار خیال کرتے ہوئے قدرتی اور انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے خطرات پر روشنی ڈالی اور آفات سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا۔
پروفیسر ابھیشیک نے کہا، ’’مائیکرو زونیشن نقشے سائٹ کو لاحق مخصوص خطرے کاتجزیہ کرنے میں مددگار ہوتے ہیں، جو نیوکلیئر پاور پلانٹس، سب وے، پل، ایلیویٹڈ ہائی وے، اسکائی ٹرین اور ڈیم سائٹس جیسے اہم ڈھانچے کے لیے ضروری ہے‘‘۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مائیکرو زونیشن کو زلزلے کے خطرے کو کم کرنے کے مطالعے کے ابتدائی مرحلے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
انجینئر سبودھ کے گپتا، ڈائریکٹر (پروجیکٹس)، ایم ایم آر سی، ممبئی نے کہا کہ زیر زمین ڈھانچے، نقل و حمل اور یوٹیلیٹی نیٹ ورکس میں اسٹریٹجک عناصر ہیں، جیسے کہ میٹروپولیٹن شہروں میں ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے لیے استعمال ہونے والی سرنگیں، ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے واٹر کنڈکٹر سسٹم،پہاڑی علاقوں میں روڈ وے اور ریلوے سرنگیں، زیر زمین گیس اور پیٹرولیم کے بڑے ذخیرے، جوہری فضلے کے ذخیرے وغیرہ۔
انہوں نے کہا ’’میٹروکی زیر زمین سرنگوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا جانا چاہئے کہ چلتی ٹرینوں کے ساتھ ساتھ زلزلوں کی وجہ سے ہونے والی حرکت سفر کرنے والے مسافروں، ٹنل لائنرز، سرنگوں میں موجود دیگر اہم آلات، زمینی سطح پر اور زمین کے اوپری ڈھانچے پر کوئی خاص اثر نہ ڈالیں‘‘۔
پروفیسر مسرور عالم نے موسمیاتی تبدیلی کے مظاہر اور جیو انجینئرنگ کے مسئلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلیاں جاری رہیں گی، یہ ممکنہ طور پر زیادہ ،بار بار اور شدید قدرتی خطرات کا باعث بنیں گی۔
اے ایم یو فیکلٹی ممبر نے کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات شدید ہوں گے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے غربت اور غذائی اجلاس کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو زیادہ تعداد میں نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے۔
قبل ازیں اپنے افتتاحی کلمات میں پروفیسر عبدالباقی نے شعبہ کی حصولیابیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ آفات مینجمنٹ وقت کی ضرورت ہے اور شعبہ، زلزلہ مزاحم ڈیزائن اور ڈھانچوں کی جانچ کے میدان میں کنسلٹینسی اور حل پیش کرنے میں پیش پیش رہے گا۔
ورکشاپ کے آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر رضوان اے خا ں نے شکریہ ادا کیا۔ ورکشاپ کے دیگر آرگنائزنگ سکریٹریز میں ڈاکٹر محمد ریحان صادق اور ڈاکٹر اجمل حسین شامل تھے۔ ایم ٹیک، سال دوئم کے طالب علم ہمانک شرما اور تاویشی شرما ،ورکشاپ کے اسٹوڈینٹ کوآرڈینیٹر تھے۔
٭٭٭٭٭٭
زیڈ اے ڈینٹل کالج میں طبی پروگرام
علی گڑھ، 13 اکتوبر: زیڈ اے ڈینٹل کالج (زیڈ اے ڈی سی)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اورل اینڈ ڈینٹل پیتھالوجی، مائیکرو بایولوجی ؍ اورل میڈیسن اینڈ ڈینٹل ریڈیولوجی شعبہ میں نیشنل کانٹینیونگ ڈینٹل ایجوکیشن (سی ڈی ای) پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان تھا ’’منھ جسم کا آئینہ ہے‘‘۔
مہمان مقرر، ڈاکٹر راجیندر گوڈا پاٹل (سربراہ، شعبہ اورل میڈیسن و ریڈیولوجی، کوٹھیوال ڈینٹل کالج و اسپتال، مرادآباد) نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انتہائی حساسیت، انفیکشن، ہارمون، تناؤ اور وٹامنوں کی کمی سے منہ میں امراض و مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ متعدد بیماریوں کی علامات پہلے منھ میں ظاہر ہوتی ہیں۔
پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر راکیش بھارگو (ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن، اے ایم یو) نے کہا: ’’دانتوں کی خالی جگہ بہت سی متعدی اور سوزش والی بیماریوں کی جگہ ہوتی ہے اور منھ اور دیگر بیماری کے درمیان تعلق ایک تیزی سے آگے بڑھنے والا تحقیقی میدان ہے‘‘۔
پروفیسر آر کے تیواری (پرنسپل، زیڈ اے ڈی سی) نے بتایا کہ کس طرح پیریڈونٹل بیماریاں صحت کے مختلف حالات سے تعلق رکھتی ہیںجن میں دل کی بیماری اور ذیابیطس بھی شامل ہے ۔
پروفیسر پردھومان ورما (چیئرمین، شعبہ اورل اینڈ ڈینٹل پیتھالوجی اینڈ مائیکروبائیولوجی/اورل میڈیسن اینڈ ڈینٹل ریڈیولوجی) نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ اس پروگرام کے تجربے نے 100 سے زائد ڈینٹل پریکٹیشنرز کے طبی علم اور مہارت میں اضافہ کیا ہے‘‘ ۔
ڈاکٹر محمد اسد اللہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور ڈاکٹر انشول اگروال نے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر جوہی گپتا نے پروگرام کی نظامت کی۔

Comments are closed.