برطانیہ سیاسی بحران:بورس جانسن دوڑ سے باہر، رشی سونک کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار

آن لائن نیوزڈیسک
بورس جانسن کے وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کا فیصلہ ترک کرنے کے بعد اب انڈین نژاد رشی سونک ملک کے سربراہ بننے کے لیے تیار ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مستعفی ہونے والی لز ٹرس کے استعفیٰ کے بعد شروع ہونے والے مقابلے کے لیے امیدواروں کو پیر کو دوپہر دو بجے تک کم از کم 100 کنزرویٹو ایم پیز کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اتوار کو اپنی امیدواری کا اعلان کرنے اور ٹوری پارٹی کے قانون سازوں کی جانب سے تقریباً 150 عوامی نامزدگیوں کو جمع کرنے سے قبل سوناک جمعے کی رات تک اس حد کو عبور کر چکے تھے۔
اگر پارٹی رہنما بننے کی دوڑ میں شامل دیگر امیدوار 100 ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو رشی سونک کنزرویٹیو جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے۔
بورس جانسن کی دوڑ سے دستبرداری کے بعد اب کابینہ کی رکن پینی مورڈانٹ ہی دوسری اعلان کردہ امیدوار ہیں۔
اگرچہ انہوں نے اپنا مومینٹم بڑھانے کے لیے کافی محنت کی ہے تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ پینی مورڈانٹ دباؤ میں آکر اس دوڑ کو ترک کر دیں گی اور مقابلہ جلد ختم ہوجائے گا کیونکہ برطانیہ متعدد بحرانوں سے دوچار ہے۔
اگر 49 سالہ پینی مورڈانٹ مزاحمت کرتی ہیں اور 100 نامزدگیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں تو پارٹی کے تقریباً 170,000 اراکین کی جانب سے ہفتے کے آخر میں آن لائن ووٹنگ میں دوڑ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیجہ کا اعلان جمعے کو کیا جائے گا۔
صرف دو ماہ قبل اراکین نے رشی سونک کے بجائے لز ٹرس کو منتخب کیا تھا جنہیں اراکین پارلیمنٹ میں زیادہ حمایت حاصل تھی۔
رشی سونک نے فوری طور پر بورس جانسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ٹویٹ کی کہ ’مجھے واقعی امید ہے کہ وہ اندرون اور بیرون ملک عوامی زندگی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔‘
سنیچر کو کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں بورس جانسن اور رشی سونک نے ملاقات کی تھی۔
سابق وزیراعظم بورس جانسن کریبین میں چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے مگر لِز ٹرس کے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے واپس پہنچ گئے تھے۔
سابق وزیر خزانہ رشی سونک سے بورس جانسن کی اس ملاقات کے بارے میں سنڈے ٹیلیگراف نے لکھا ہے کہ دونوں نے اس بات پر غور کیا کہ ’ایک مشترکہ ٹکٹ‘ کے ذریعے ٹوری پارٹی میں ’خانہ جنگی‘ سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.