Baseerat Online News Portal

گجرات اسمبلی انتخابات اور وہاں کی سیاست

 

مظاہر حسین عماد قاسمی

 

ایم نکتے

عام آدمی پارٹی سے گجرات میں کس کا فائدہ اور کس کا نقصان

کیجریوال کے پرجوش و پر امید ہونے کے اسباب

گجرات اسمبلی میں مسلم نمائندگی کی تاریخ

 

گجرات کی سیاسی تاریخ:

 

گجرات اسمبلی انتخابات یکم دسمبر اور پانچ دسمبر کو ہونے جارہے ہیں ، ووٹوں کی گنتی آٹھ دسمبر کو ہوگی ،

پہلے مرحلے کے پرچہ نامزدگی کی آخری تاریخ چودہ نومبر اور دوسرے مرحلے کے پرچہ نامزدگی کی آخری تاریخ سترہ نومبر تھی ،

انیس سو پچانوے سے گجرات پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے ، اور کانگریس وہاں ایک مضبوط اپوزیشن ہے ، پنجاب اسمبلی میں شاندار فتح کے بعد عام آدمی پارٹی کے حوصلے بلند ہیں ، اور وہ گجرات میں خود کو ایک عقلمند ،اور ایماندار ہندو وادی پارٹی کے طور پر پیش کرنے میں سرگرداں ہیں ، اس نے تمام ایک سو بیاسی نشستوں پر امیدوار اتارے ہیں ، بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک سو اکیاسی نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے ، ایک سو پینتالیس نمبر سیٹ منجل پور پر اس کا امیدوار نہیں ہے ، شاید کوئی آزاد اس کا حلیف ہو ،

انڈین نیشنل کانگریس نے ایک سو اناسی اور اس کی حلیف نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے تین سیٹوں پر امیدوار اتارے ہیں ،

دو دہائیوں سے ان دونوں پارٹیوں کا مہاراشٹرا میں اتحاد ہوتا تھا ، مگر گجرات میں نہیں ہوتا تھا اور اس کا نقصان ان دونوں کانگریس کو ہوتا تھا ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ایک دو سیٹیں ہمیشہ ملتی رہی ہیں ،

 

*سورت کی کامیابی سے کیجریوال پرجوش*

گجرات میں فروری دو ہزار اکیس میں احمدآباد ، سورت ، راج کوٹ ، بھاؤ نگر ، اور جام نگر کارپوریشن کے انتخابات ہوئے تھے ، ان کارپوریشنوں کے سیٹوں کی کل تعداد پانچ سو تراسی ہے ،تین اکتوبر دو ہزار اکیس کو گاندھی نگر کارپوریشن کے انتخابات ہوئے ، گاندھی نگر میں کل چوالیس نشستیں ہیں جن میں دو سیٹیں کانگریس کو اور ایک سیٹ عام آدمی پارٹی کو حاصل ہوئی ، بقیہ اکتالیس نشستیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جھولی میں جا ہڑیں،

 

*سورت میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کو ختم کیا*

گجرات کے سورت کارپوریشن انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو زبردست کامیابی ملی ، اس کی وجہ سے کانگریس چھتیس سے زیرو پر آگئی ، اور عام آدمی پارٹی زیرو سے ستائیس پر پہونچ گئی ، عام آدمی پارٹی کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی تیرہ سیٹوں کا فائدہ ہوا ، اس کی سیٹیں اسی (80)سے چھلانگ لگا کر ترانوے تک پہونچ گئیں ،

 

سورت کارپوریشن میں ایک سو بیس نشستیں ہیں ، یہاں کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ، ترانوے سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اور ستائیس سیٹیں عام آدمی پارٹی کو حاصل ہوئیں ,

 

دو ہزار اکیس کے سورت کارپوریشن انتخابات میں بی جے پی کو 48.93 فیصد ووٹ ملے تھے ،دو ہزار سولہ کے مقابلے میں اسے 2.42 فیصد ووٹ کم ملے تھے ، مگر اس کی سیٹوں میں سوا سولہ فیصد کا اضافہ ہوا تھا ،

 

یہ ہندوستانی جمہوریت کی خوبی یا کمی ہے کہ بعض حالات میں کوئی پارٹی پہلے کے مقابلے میں کم ووٹ حاصل کرکے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کر لیتی ہے ،

 

کانگریس کو سوا اکیس فیصد ووٹوں کا نقصان ہوا ، دو ہزار سولہ میں اسے 39.85 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ، اور چھتیس سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ، کانگریس کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے 9.08 فیصد کم ووٹ حاصل ہوئے تھے اور چوالیس نشستیں کم حاصل ہوئی تھیں ،

 

دو ہزار اکیس کے سورت کارپوریشن انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو ستائیس نشستیں حاصل ہوئیں اور 28.00 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ، عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے 21.25 فیصد ووٹ پر شب خون مارا ہے اور اسے چھتیس سیٹوں کا نقصان پہونچایا ہے ،

 

مجموعی طور پر سات کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے گجرات کے سیاسی میدان میں آنے کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک سو انیس سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے ، دو ہزار سولہ میں اسے کل چھ سو ستائیس نشستوں میں سے چار سو پانچ نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور دو ہزار اکیس میں اسے پانچ سو چوبیس نشستیں حاصل ہوئی ہیں ،

بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ بھی بڑھا ہے ، اسے دو ہزار سولہ میں 49.13 فیصد ووٹ ملے تھے اور دو ہزار اکیس میں اسے 53.08 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں ،

 

کانگریس کو دو ہزار سولہ میں کل چھ سو ستائیس نشستوں میں سے ایک سو بانوے نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور دو ہزار اکیس میں اسے صرف سنتاون نشستیں حاصل ہوئی ہیں ، اسے ایک سو پینتیس نشستوں کا نقصان ہوا ہے ،

کانگریس کا ووٹ بھی گھٹ گیا ہے ، اسے دو ہزار سولہ میں 41.35 فیصد ووٹ ملے تھے اور دو ہزار اکیس میں اسے صرف 26.90 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں ، اس کا 14.45 فیصد ووٹ گھٹ گیا ہے ،

عام آدمی پارٹی کو صرف 13.28 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور صرف اٹھائیس نشستیں حاصل ہوئی ہیں ،

 

یہ تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے وجود سے کانگریس کو نقصان ہورہا ہے ، اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ ہورہا ہے ، عام آدمی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ نہیں کاٹ رہی ہے ،وہ کانگریس کا ووٹ کاٹ رہی ہے

یہی کام اس نے دلی اور پنجاب میں کیا ہے ،

 

بھارتیہ جنتا پارٹی والے گرم ہندوتوا والے ہیں ، ان کے اندر جہالت اور حکومت کی رعونت کے آثار نمایاں ہیں ،

کیجریوال نرم ہندوتوا کے نمائندے ہیں ، وہ اٹل بہاری واجپائی کے نقش قدم پر ہیں ، بلکہ بعض چیزوں میں ان سے دو قدم آگے ہیں ، اٹل بہاری واجپائی ہر جلسے میں وندے ماترم کا شرکیہ نعرہ نہیں لگاتے تھے ، مگر کیجریوال یہ نعرہ لگانا کبھی نہیں بھولتے ،

 

اگر دسمبر دو ہزار بائیس کے گجرات اسمبلی کے انتخابات میں گجرات کے سیکولر ووٹ دہندگان کیجری وال کے جھانسے میں آگئے تو بھارتیہ جنتا پارٹی مزید طاقت ور ہو جائے گی ،

میرا اندازہ یہ ہے عام آدمی پارٹی کو ایک سیٹ بھی نہ ملے ، مگر سو پچاس یا چند سو ووٹوں سے کانگریس کئی سیٹوں پر ہار جائے اور دو ہزار سترہ کی طرح کانگریس جیتتے جیتتے ہار جائے ،

*گجرات کی جنتا کو چاہیے کہ وہ ک ستائیس سالوں کے بعد دو بارہ کانگریس کو خدمت کا موقع دے ،*

 

*گجرات کی سیاسی تاریخ*

*کانگریسی دور*

یکم مئی انیس سو ساٹھ کو ریاست گجرات کی تشکیل ہوئی تھی ، اس سے قبل گجرات بمبئی ریاست کا حصہ تھا ،

 

یکم مئی انیس سو ساٹھ سے تین اپریل انیس سو سڑسٹھ تک گجرات میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت تھی ، انیس سو چھیاسٹھ میں اندرا گاندھی جی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان سے ناراض کانگریسی لیڈران نے انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن بنائی تھی ، گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ہتیندر کنہیا لال ڈیسائی بھی مکمل اکثریت کے ساتھ انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن میں شامل ہوگئے ،اور تین اپریل انیس سو سڑسٹھ تا بارہ مئی انیس سو اکہتر انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن کے ممبر کے طور پر گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے ، انڈین نیشنل کانگریس کے رکن کے طور پر وہ انیس ستمبر انیس سو پینسٹھ تا تین اپریل انیس سو سڑسٹھ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ،

بارہ مئی انیس سو اکہتر کو گجرات میں پہلی بار صدر راج نافذ ہوا جو سترہ مارچ دو ہزار بہتر تک کل دس ماہ پانچ دن رہا ،

انیس سو بہتر کے انتخاب میں دو بارہ انڈین نیشنل کانگریس کو گجرات کی باگ و ڈور ملی اسے ایک سو چالیس نشستیں حاصل ہوئیں مگر سیاسی اتھل پتھل جاری رہا ،

سترہ مارچ انیس سو پچھتر تا نو فروری انیس سو چوہتر ، دو سال سے بھی کم عرصے میں یکے بعد دیگرے گھنشیام اوجھا اور چمن بھائی پٹیل وزیر اعلی بنائے گئے تھے ، نو فروری انیس سو چوہتر تا اٹھارہ جون انیس پچھتر کل ایک سال چار ماہ نودن صدرا راج نافذ رہا ،

 

*جنتا پارٹی دور*

اور صدر راج میں ہی انیس سو پچھتر میں وسط مدتی انتخابات ہوئے ، کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی ، انڈین نیشنل کانگریس کو پچھتر اور انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن کو چھپن نشستیں حاصل ہوئیں ،

انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن کے بابو بھائی پٹیل وزیر اعلی مقرر ہوئے ، وہ بارہ مئی انیس سو چھہتر تا چوبیس دسمبر انیس سو چھہتر کل نو ماہ بارہ دن وزیر اعلی رہے ، اور دو بارہ گیارہ اپریل انیس سو ستہتر تا سترہ فروری انیس سو اسی جنتا پارٹی کے رکن کی حیثیت سے وزیر اعلی رہے

درمیان میں چوبیس دسمبر انیس سو چھہتر تا دس اپریل انیس سو ستہتر کل تین ماہ سولہ دن انڈین نیشنل کانگریس کے مادھو سنگھ سولنکی وزیر اعلی رہے تھے ،

 

*کانگریسی دور (2)*

انیس سو اسی کے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کو ایک سو اکتالیس سیٹیں ملیں ، اکیاون فیصد ووٹ ملے تھے ، اور مادھو سنگھ سولنکی پانچ سال وزیر اعلی رہے ، بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف نو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، اور چودہ فیصد ووٹ ملے تھے ،

 

انیس سو پچاسی کے انتخابات میں بھی انڈین نیشنل کانگریس کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی اسے ساڑھے پچپن فیصد ووٹ ملے تھے اور ایک سو انچاس نشستیں حاصل ہوئی تھیں ، بھارتیہ جنتا پارٹی کو پندرہ فیصد ووٹ ملے تھے اور گیارہ نشستیں حاصل ہوئی تھیں ،

 

کانگریس کے امر سنگھ چودھری وزیر اعلی مقرر ہوئے جو چھ جولائی انیس سو پچاسی تا نو دسمبر انیس سو نواسی وزیر اعلی رہے ، دس دسمبر انیس سو نواسی کو سہ بارہ مادھو سنگھ سولنکی کو وزیر اعلی بنایا گیا جو تین مارچ انیس سو نوے تک کل دو ماہ ستائیس دن وزیر اعلی رہے ،

 

*جنتادل اور کانگریسی دور*

انیس سو نوے کے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی ، انڈین نیشنل کانگریس کو شرمناک شکست نصیب ہوئی ، اسے صرف تینتیس نشستیں حاصل ہوئیں اور ایک سو سولہ نشستوں کا نقصان ہوا ،

اس انتخاب سے قبل کانگریس کے کئی بڑے لیڈران جنتادل یا بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے تھے ،

سابق وزیر اعلی چمن بھائی پٹیل بھی جنتادل میں شامل ہوگئے تھے ، جنتادل ستر نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی تھی ، مگر حکمرانی کے لیے اسے مزید بائیس سیٹوں کی ضرورت تھی ،

بھارتیہ جنتا پارٹی سڑسٹھ سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی ، جنتادل اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر حکومت سازی کی ، جنتادل کے سابق کانگریسی وزیر اعلی چمن بھائی پٹیل وزیر اعلی مقرر ہوئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کیشو بھائی پٹیل نائب وزیر اعلی مقرر ہوئے ، مگر یہ اتحاد زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا ، مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت سے جنتا دل کے وی پی سنگھ وزیر اعظم تھے ، بابری مسجد کی بازیابی کے نام پر ہندوؤں کو مشتعل کرنے کے مقصد سے لال کرشن اڈوانی رتھ یاترا پر نکلے تھے ، ان کی اس یاترا سے امن و امان کو خطرہ ہوگیا تھا ، ۔ 23 ستمبر 1990 کو، بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد نے ایل کے اڈوانی کو سمستی پور بہار میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ، جس کے نتیجے میں جنتادل کی مرکزی سرکار اور گجرات کی ریاستی سرکار سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے حمایت واپس لے لیا ، اس صورت حال میں چمن بھائی پٹیل جنتادل کے دو تہائی سے زیادہ ممبران اسمبلی کے ساتھ کانگریس میں شامل ہوگئے اور پچیس اکتوبر انیس سو نوے سے اپنی وفات سترہ فروری انیس سو چورانوے تک کانگریس کے ممبر کی حیثیت سے وزیر اعلی رہے ، ان کی موت کے بعد سترہ فروری انیس سو چورانوے تا اکیس اکتوبر انیس سو پچانوے گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے ،

 

*بھارتیہ جنتا پارٹی دور*

بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات میں انیس سو پچانوے سے مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت میں ہے ،

 

بھارتیہ جنتا پارٹی کو انیس سو پچانوے میں ایک سو اکیس نشستیں اور 42.51 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے

اور چون سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا ،

کانگریس کو 32.86 فیصد ووٹ ملے تھے اور پینتالیس نشستیں ملی تھیں

انیس سو نوے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو سڑسٹھ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،

انیس سو پچاسی میں گیارہ اور انیس سو اسی میں صرف نو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،

بھارتیہ جنتا پارٹی کا قیام انیس سو اسی میں ہی ہوا ہے ، اس کی اصل بھارتیہ جن سنگھ ہے ، بھارتیہ جن سنگھ انیس سو اکیاون سے انیس سو ستہتر تک تھی ، انیس سو ستہتر میں جن سنگھ جنتا پارٹی میں ضم ہوگئی تھی ، انیس سو اسی میں اٹل بہاری واجپائی نے پرانے جن سنگھ کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ دیا ،

بھارتیہ جن سنگھ کو گجرات اسمبلی میں انیس سو سڑسٹھ میں پہلی بار ایک سیٹ ملی تھی ، انیس سو بہتر میں تین اور انیس سو پچھتر میں اٹھارہ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،

 

انیس سو انٹھانوے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک سو سترہ اور 44.81 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ،

کانگریس کو 34.05 فیصد ووٹ ملے تھے اور ترپن نشستیں ملی تھیں

 

دو ہزار دو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک سو ستائیس نشستیں ملی تھیں اور 49.85 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے، یہ انتخابات نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے چند ماہ بعد ہوئے بدنام زمانہ گجرات فسادات کے بعد ہوئے تھے ، انیس سو انٹھانوے کے مقابلے 5.04 فیصد بھارتیہ جنتا پارٹی کا بڑھ گیا تھا اور دس سیٹوں کا اضافہ ہوا تھا ،

کانگریس کو 39.28فیصد ووٹ ملے تھے اور اکیاون نشستیں ملی تھیں ، 4.43 فیصد ووٹوں کا اضافہ ہوا تھا ، مگر دو سیٹیں کم ہوگئی تھیں ،

 

، دو ہزار سات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک سو سترہ

سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ، 49.12 فیصد ووٹ ملے تھے ، دس سیٹیں کم ہوئی تھیں اور 0.63 فیصد ووٹ کم ہوا تھا ،

کانگریس کو 38فیصد ووٹ ملے تھے اور انسٹھ نشستیں ملی تھیں ،

 

دو ہزار بارہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک سو پندرہ

سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ، 49.12 فیصد ووٹ ملے تھے ، دس سیٹیں کم ہوئی تھیں اور 0.63 فیصد ووٹ کم ہوا تھا ،

کانگریس کو 38.93 فیصد ووٹ ملے تھے اور اکسٹھ نشستیں ملی تھیں ،

 

دو ہزار سترہ کے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو 49.05 فیصد ووٹ اور ننانوے نشستیں حاصل ہوئی تھیں ، 1.15 فیصد ووٹ کے اضافے کے باوجود اسے سولہ نشستوں کا نقصان ہوا تھا ، بھارتیہ جنتا پارٹی نے دو ہزار سترہ کے انتخابات سے چند ماہ قبل احمد پٹیل مرحوم کو ہرانے اور راجیہ سبھا نہ پہونچنے دینے کے مقصد سے کانگریس میں بغاوت کرائی تھی اور اس کے پندرہ سولہ ممبران کو خرید لیا تھا ، اور احمد پٹیل کے مقابلے میں اپنا امیدوار بھی اتارا تھا ، مگر احمد پٹیل بڑی مشکل سے راجیہ سبھا کا رکن بننے میں کامیاب ہوگئے تھے ، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو بتیس نشستوں کا نقصان ہوا تھا ،

کانگریس کو دو ہزار سترہ میں ستہتر نشستیں ملی تھیں اور 41.44 فیصد ووٹ ملے تھے ،

 

دو ہزار بارہ کے مقابلے میں سولہ نشستوں اور 2.57 فیصد ووٹ کا فائدہ اسے ہوا تھا ، دو ہزار سترہ کے انتخابات کے وقت اس کے اکسٹھ میں سولہ ممبران اسمبلی بھارتیہ جنتہ پارٹی میں چلے گئے تھے ، پرانے ممبران اسمبلی صرف پینتالیس تھے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کانگریس کو اکتیس سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا ، ایک آزاد امیدوار اور بھارتیہ ٹرایبل پارٹی کے دو امیدوار بھی اس کی حمایت سے کامیاب ہوئے تھے ، نیشنلسٹ کانگریس کا بھی ایک امیدوار کامیاب ہوا تھا ،

کانگریس اتحاد اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں صرف سولہ نشستوں کا فرق تھا ، اور کانگریس صرف گیارہ سیٹوں کے فرق سے گجرات کی حکومت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی ،

گجرات اسمبلی کی کل نشستیں ایک سو بیاسی ہیں ، اور حکمرانی کے لیے بانوے نشستوں کی ضروت پڑتی ہے ،

 

*اب دیکھنا یہ ہے کہ کیجریوال کے گیم سے کسے فائدہ پہونچتا ہے ، خود کو ، کانگریس کو یا بی جے پی کو ،*

 

عام آدمی پارٹی کے رہنما کیجریوال جی کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی صاحبہ اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما شرد پوار صاحب وغیرہ کو چاہیے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف مضبوط اتحاد قائم کریں ،

انیس سو پچانوے سے گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے ، اس نے اب تک لگاتار چھ اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے ، اسے ایک سو بیاسی رکنی اسمبلی میں ننانوے تا ایک سو ستائیس نشستیں حاصل ہوئی ہیں ، اور 42.51 تا 49.85 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں ،

دوسری طرف گذشتہ سائیس سالوں میں ہوئے چھ اسمبلی انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کو پینتالیس تا ستہتر سیٹیں ملتی رہی ہیں ، اس طرح گجرات میں کانگریس مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرتی رہی ہے ، مگر اس کے ساتھ ہمیشہ یہ مصیبت رہی ہے کہ تقریبا ہر انتخاب سے قبل اس کے چند بڑے لیڈران اور ایک ڈیڑھ درجن ممبران اسمبلی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوتے رہے ہیں ،

دو ہزار سترہ میں کانگریس کو ستہتر سیٹیں حاصل ہوئی تھیں مگر پانچ سال کے اندر اس کی اٹھارہ سیٹیں گھٹ گئیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ننانوے سیٹیں تھیں جو بڑھ کر ایک سو نو ہوگئیں ، الپیش ٹھاکر سمیت کئی کانگریسی لیڈران بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوگئے ،

اس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہمیشہ انڈین نیشنل کانگریس کا تازہ خون ملتا رہا ہے ،

گجرات میں انیس سو نوے کے بعد سے ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی مضبوط نہیں ہوسکی ، بہوجن سماج پارٹی ، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور جنتادل یونائیٹڈ وغیرہ نے صرف کانگریس کا سیکولر ووٹ چرایا ہے ،

*گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ صرف کانگریس ہی کرسکتی ہے ،*

 

*گجرات اسمبلی میں میں مسلم نمائندگی*

 

گجرات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 9.67 فیصد مسلمان ہیں ، مگر اسمبلی میں مسلم نمائندگی چار فیصد سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی ، گجرات اسمبلی میں سب سے زیادہ بارہ مسلم ممبران اسمبلی انیس سو اسی میں تھے ، جب گجرات اسمبلی میں کانگریس کے ایک سو اکتالیس ممبران اسمبلی تھے ، اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صرف نو ممبران تھے ، جنتاپارٹی کو اکیس سیٹیں ملی تھیں ،

دو ہزار دو میں تین ، دوہزار سات میں پانچ اور دو ہزار بارہ میں صرف دو اور دو ہزار سترہ میں تین ممبر اسمبلی مسلم تھے ،

ایک سو بیاسی رکنی اسمبلی میں مسلمانوں کا حق 17.60 ہے ، یعنی ہر پارٹی جو تمام ایک سو بیاسی اسمبلی نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے اس پر ضروری ہے کہ سترہ یا اٹھارہ مسلمانوں کو گجرات اسمبلی کا ٹکٹ دے اس لیے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گجرات میں مسلمان نو اعشاریہ سڑسٹھ فیصد (9.68٪) ہیں

پچیس تیس سال قبل کانگریس اسمبلی انتخابات میں سولہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی تھی ، مگر اب وہ بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کے دباؤ میں صرف چار پانچ یا چھ مسلمانوں کو ہی ٹکٹ دیتی ہے ، گذشتہ بار اس نے چھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا اور اس بار صرف چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے ,

 

*دو ہزار سترہ کے کانگریسی مسلم امیدوار*

دو ہزار سترہ میں کانگریس نے چھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیے تھے جن میں تین کامیاب ہوئے تھے اور تین ناکام ،

دریاپور ،احمد آباد سے کانگریسی امیدوار غیاث الدین صاحب نے سابق وزیر بھرت باروٹ کو چھ ہزار ایک سو ستاسی ووٹوں سے ہرایا تھا ، غیاث الدین کو 63712 اور باروٹ کو 57225 ووٹ ملے تھے ،

جمال پور کھڈیا ، احمد آباد عمران کھیڑا والا نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی ، انہیں 75346 ووٹ حاصل ہوئے تھے ، جب کہ بی جے پی کے بھوشن بھٹ کو 46007 ووٹ ملے تھے

عمران اس بار بھی کانگریس کے امیدوار ہیں

 

وانکانیر ، ضلع موربی سے محمد جاوید پیر زادہ 1361 ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے ، وہ دو ہزار سات اور بارہ میں بھی کامیاب ہوئے تھے ، اس سیٹ پر ان کے والد عبد المطلب پیر زادہ اور ان کے دو بھائی منظور پیر زادہ اور خورشید پیر زادہ بھی کامیاب ہوچکے ہیں ،

محمد جاوید پیر زادہ اس بار بھی امیدوار ہیں ،

دو ہزار سترہ میں سلیمان پٹیل واگرا ضلع بھروچ سے 2370 ووٹ سے ہارگئے تھے وہ اس بار بھی کانگریس کے امیدوار ہیں ،

بھج ضلع بھج سے آدم چاکی 1400 ووٹ سے ہار گئے تھے

سورت ویسٹ سے اقبال پٹیل 77882 ووٹوں سے ہار گئے تھے ,

اور یہ سب سے زیادہ مارجن سے ہارنے والے مسلمان تھے ، یہاں سے یورنیش مودی کو 111615 ووٹ ملے تھے اور اقبال پٹیل کو صرف 33733 ووٹ حاصل ہوئے تھے ،

*دو ہزار بائیس میں گجرات اسمبلی کے مسلم امیدوار*

کانگریس نے صرف چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے

1- دریاپور احمد آباد سے اسلم سائیکل والا

2- جمال پور ، احمد آباد سے موجودہ ممبر اسمبلی عمران کھیڑا والا

3- وانکانیر ضلع موربی سے موجودہ ممبر اسمبلی محمد جاوید پیر زادہ

4- واگرا ضلع بھروچ سلیمان موسی بھائی پٹیل

ہم ان چاروں کی کامیابی کی دعا کرتے ہیں اور ان حلقوں کے رائے دہندگان سے اپیل کرتے ہیں کہ ان کو بھاری اکثریت سے کامیاب کریں

عام آدمی پارٹی کا صرف ایک امیدوار مسلم ہے اور وہ ہارون ناگوری ہے جو جمال پور احمد آباد سے موجودہ ممبر اسمبلی عمران کھیڑا والا کا مخالف امیدوار ہے ،

بھارتیہ جنتا پارٹی نے انیس سو انٹھانوے میں ایک مسلمان کو ٹکٹ دیا تھا ، اس کے بعد سے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا جھوٹا نعرہ لگانے والی اس پارٹی نے کبھی کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے ،

Comments are closed.