لالو یادو کو پہلی بار وزیر اعلیٰ بنانے میں شرد یادو کا بڑا ہاتھ تھا

نئی دہلی(ایجنسی)سینئر سماجی رہنما اور سابق مرکزی وزیر شرد یادو نہیں رہے ۔ شرد یادو سوشلسٹ تحریک کے ایک مضبوط ستون رہے۔ اپنے سیاسی کیریئر میں، وہ مدھیہ پردیش میں اپنی جائے پیدائش جبل پور سے دو بار لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے، ایک بار اتر پردیش کے بدایوں سے اور چار بار بہار کے مدھے پورہ سے۔ اس کے علاوہ وہ جنتا دل یونائیٹڈ کی جانب سے بہار حلقہ راجیہ سبھا کے رکن بھی منتخب ہوئے، شردیادوجنتادل یونائیٹیڈکے سب سے لمبے عرصے تک صدررہے ہیں۔
لالویادوکووزیراعلیٰ بنانے میں شردیادوکااہم کردار
شرد یادو نے اپنے سیاسی کیرئیر میں جتنا اثر بہار کی سیاست میں ڈالا، شاید ہی کسی اور ریاست میں ایسا اثر دیکھا گیاہو۔ شرد یادو کی سیاسی زندگی کی کئی دلچسپ کہانیاں تھیں۔ ان میں مارچ 1990 کا ایک واقعہ ہے۔ 1989 میں مرکز میں وی پی سنگھ کی قیادت میں متحدہ محاذ کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات بھی ہوئے اور وہاں ملائم سنگھ یادو کی قیادت میں نئی حکومت بنی۔ بہار اسمبلی انتخابات مارچ 1990 میں ہوئے اور کانگریس کو عوام نے اقتدار سے باہر کر دیا۔ جب جنتا دل لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر منتخب کرنے کی باری آئی تو خیال کیا جا رہا تھا کہ رام سندر داس جوکہ 1979 میں چند ماہ تک وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے ،اب بھی وہی وزیر اعلیٰ ہوں گے، کیونکہ وہ وزیراعظم وی پی سنگھ اورجارج فرنانڈیزکی پہلی پسند تھے۔دوسری جانب لالو یادو کا نام بھی سرخیوں میں تھا کیوں کہ وہ دیوی لال،شرد یادو اورنتیش کمار کی پسندتھے۔
داس کے حق میں یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ ہیں تو بہار میں بھی ایک یادو وزیر اعلیٰ کیسے ہو سکتا ہے۔ حالانکہ کانگریس کے دور میں اتر پردیش کے نارائن دت تیواری اور بھگوت جھا آزاد سے لے کر ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا تک ایک ہی وقت میں بہار کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ جب جنتا دل لیجسلیچر پارٹی کے لیڈر کے انتخاب کا عمل متفقہ طور پر شروع ہوا تو شرد یادو ایم ایل اے سے ووٹنگ کے ذریعے لیڈر کا انتخاب کرانے پر بضد تھے۔ اس ملاقات سے پہلے شرد یادو، نتیش کمار اور لالو یادو کو اندازہ تھا کہ اگر سیدھا مقابلہ ہوا تو داس جیت سکتے ہیں۔ دوسری طرف اس وقت پارٹی کے سینئر لیڈر سابق وزیر اعظم چندر شیکھر بھی وی پی سنگھ کو ہرانے کے لیے اپنے حامی رگھوناتھ جھا کو امیدوار بنانا چاہتے تھے۔ رگھوناتھ جھا کو زیادہ تر راجپوت ایم ایل اے کے ووٹ ملے۔ پٹنہ کے وراج کشور میموریل ہال میں منعقدہ اس دلچسپ میٹنگ میں لالو یادو کی جیت کا فاصلہ اتناہی رہاجتنا رگھوناتھ جھا کو ووٹ ملاتھا۔
حلف برداری کی تقریب کویادگاربنانے میں بھی شردیادوکااہم رول رہا
بھلے ہی لالو یادو کو لیجسلیچر پارٹی میٹنگ میں لیڈر منتخب کر لیا گیا تھا، لیکن انہیں اس وقت کے گورنر محمد یونس سلیم کی طرف سے حلف لینے کا دعوت نامہ نہیں مل رہا تھا اور مانا جا رہا تھا کہ یہ مرکز کے حکم پر ہو رہا ہے لیکن ایک بار پھر شرد یادو کی محنت اورحکمت عملی سے لالو یادو کو نہ صرف دعوت نامہ ملابلکہ پٹنہ کے گاندھی میدان کے قریب جے پی کے مجسمہ کے پاس ایک شاندار حلف برداری کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ لالو یادو نے آنے والے کئی سالوں تک اس سیاسی احسان کو عوامی طور پر قبول کیا اور اپنی کابینہ یا لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں شرد کے حامیوں کو ٹکٹ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
2022 میں شردیادونے اپنی پارٹی کوراجدمیں ضم کردیا
شرد یادو نے 1989 میں وی پی سنگھ کی قیادت والی حکومت میں وزیر تھے۔ انہوں نے 90 کی دہائی کے آخر میں اٹل بہاری واجپائی کی زیرقیادت حکومت میں بطور وزیر بھی خدمات انجام دیں۔ 1990 میں بہار کے وزیر اعلیٰ بننے والے لالو پرساد یادو کو ایک وقت میں ان کی حمایت حاصل تھی۔ وہ بہار کے وزیر اعلیٰ اور جے ڈی (یو) لیڈر نتیش کمار کے 2013 میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے علیحدگی کا فیصلہ کرنے سے پہلے بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کے کنوینر تھے۔ بعد میں انہوں نے اپنی پارٹی بنائی لیکن خرابی صحت کی وجہ سے وہ سیاست میں اتنے سرگرم نہیں رہے۔ انہوں نے 2022 میں اپنی پارٹی کو راشٹریہ جنتا دل میں ضم کر دیا۔ بیماری کی وجہ سے شرد یادو پچھلے کچھ سالوں میں سیاست میں پوری طرح سے سرگرم نہیں تھے۔
Comments are closed.