Baseerat Online News Portal

ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی سازشوں کو ناکام بنائیں،آل انڈیا ملی کونسل کے سہ روزہ اجلاس کی تجاویز

چنئی 18/جنوری (پریس ریلیز)
آل انڈیا ملی کونسل کا بائیسویں سالانہ سہ روزہ اجلاس عمومی ومجلس عاملہ منعقدہ 13,14,15/جنوری 2023ء بروز،جمعہ، ہفتہ واتوار،چنئی کے بی ایم کنونشن ہال میں منعقد ہوا،جس میں بیس ریاستوں کے170/اراکین وموعومین نے شرکت کی، اجلاس عمومی ومجلس عاملہ کی صدارت حضرت مولانا عبد اللہ مغیثی نے کی، جب کہ دیگرنشستوں کی صدارت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی اور حضرت مولانا عبد العلیم آل انڈیا ملی کونسل کے نائبین صدر نے کی،اس سہ روزہ اجلاس میں مندرجہ ذیل موضوعات:یکساں سول کوڈ،فرقہ وارانہ منافرت،گیان واپی ومتھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد،شہریوں کے بنیادی حقوق،اقلیتوں کے مکانات،مدارس اسلامیہ،اسکالر شپ،برادران وطن کے ساتھ قومی یکجہتی اورحجاب وغیرہ مسائل زیر بحث آئے اورمندرجہ ذیل قرار دیں منظور ہوئیں۔
قرارداد نمبر (1)
ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی سازشوں کو ناکام بنائیں
ملک کے موجودہ حالات میں جب کہ فرقہ پرست قوتیں مسلمانوں اور اکثریتی ہندو عوام کو آپس میں ٹکرانے اور ان کے درمیان انتشار پھیلانے کی کوششیں کر رہی ہیں، وہیں فرقہ پرست جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ تنگ نظر لیڈران اور بہت سے سخت گیر عناصر ملک کے ماحول کو بگاڑنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑ رہے ہیں اور کھلے عام نفرت وعناد کا بازار گرم رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب آئین وقانون کی بالادستی قائم رکھنے والے ذمہ داران نیز سیاسی لیڈران اور بعض وزرائے اعلیٰ بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور فرقہ پرست عناصر کو لگام دینے کی ہمت نہیں جُٹا پارہے ہیں۔آل انڈیا ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ شدید احساس ہے کہ یہ طریقہ کار غیر دستوری اور ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔ملی کونسل اس ملک کے تمام انصاف پسندوں اور جمہوری وآئینی اقدار پر یقین رکھنے والوں کو آواز دیتی ہے کہ وہ اس ملک کی تہذیبی وراثت کے تحفظ اور بھائی چارے کے جذبے کو قوت وتوانائی بخشیں تاکہ یہ ملک عالمی سطح پر اپنی شبیہ کو بہتر بناسکے اور اپنی خوب صورت شناخت کے ساتھ ترقی کر سکے۔
قرارداد نمبر (2)
یکساں سول کوڈ کے غیردستوری طور پر نفاذ کی مرکز اور بعض ریاستوں میں کوششوں پر تشویش
ہندوستان کی سرزمین مختلف مذاہب کا گہوارہ اور مختلف تہذیبوں کا ملک ہے۔ یہاں سبھی مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں، جن میں سناتن دھرم، بدھ مت، اسلام، عیسائیت، سکھ دھرم، پارسی مذہب لنگایت، قبائلی وآدیباسی سبھی شامل ہیں۔ یہ سبھی صدیوں سے محبت اور ایک دوسرے کی ہمدردی کے ساتھ سکون واطمینان سے رہتے آئے ہیں۔ آئین کے معماروں نے بھی مختلف تہذیب وتمدن اور رسم ورواج کے پیش نظر سب کے لیے یکساں پرسنل لاء نہیں بنایا، بلکہ دستور ہند میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کا پورا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی آئین ہند سے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کا پورا اختیار ملا ہوا ہے۔آل انڈیا ملی کونسل کی مرکزی مجلس عمومی کا شدید احساس ہے کہ ملک میں تہذیبی تنوع کو برقرار رکھنا ضروری ہے، نیز انسانی حقوق کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے اقلیتوں کے تہذیبی اور تعلیمی حقوق کو اس کے حدود کے اندر شامل کیا جانا چاہئے، تاکہ ہر اقلیت اپنی شناخت پر اصرار کرسکے، کیوں کہ ہمارے آئین کی دفعات 29/ اور 30/ کے تحت ان اصولوں کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ بھارت جیسے فیڈرل سسٹم والے کثیر المذاہب اور کثیر ثقافتی ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ نہیں ہوسکتا۔آل انڈیا ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس یکساں سول کوڈ کو ہندوستان کی تہذیبی روایات کے منافی تصور کرتا ہے۔ مجلس عمومی کا یہ احساس ہے کہ ہندوستان کی اصل شناخت اس کے تہذیبی تنوع اور مذہبی رواداری ہی ہے، لیکن یکساں سول کوڈ اس عالمی شناخت کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔اس کے نفاذ کی کوشش ملک میں شدید بے چینی اور اضطراب کا باعث بن رہی ہے۔لہٰذا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں کو موقوف کرے اور پورے ملک میں امن و آشتی کے ماحول کو متاثر ہونے نہ دے۔آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس دیگر تمام مذاہب کے پیشواؤں سے اور بالخصوص اکثریتی عوام سے یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہو جائیں، کیوں کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے انھیں بھی شدید نقصان پہنچنے والا ہے او ران کی تہذیب اور ان کے رسم ورواج سب ختم ہو جائیں گے۔
قرارداد نمبر (3)
گیان واپی مسجد ومتھرا شاہی عیدگاہ اور دیگر مساجد سے متعلق عدالتی کارروائیاں تشویشناک
گیان واپی مسجد ومتھرا شاہی عیدگاہ اور دیگر مساجد پر ہندوؤں کے غلط اور بے بنیاد دعوؤں کے پیش نظر کئی معاملات عدالتوں میں زیر غور ہیں اور حسب فیصلہ ان پر سماعت ہوتی رہتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام معاملات عدالتوں میں Places of Worship Act, 1991 کے خلاف چلائے جا رہے ہیں۔
آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس حکومت ہند کی اس معاملہ پر خموشی اور نچلی عدالتوں کے ذریعہ معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ Places of Worship Act, 1991 کے تحت متھرا اور کاشی اور دیگر بعض مساجد سے متعلق معاملات کو حسب فیصلہ سابق بحال کیا جائے اور پارلیمنٹ کے مذکورہ منظور شدہ قانون کی کسی بھی معاملہ میں ان دیکھی نہ کی جائے۔ واضح رہے کہ اس قانون کے نفاذ کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے بابری مسجد / رام مندر کے معاملے کو چھوڑ کر اس قانون کا اطلاق دیگر تمام تاریخی مذہبی عبادت گاہوں کے لیے ہوگا اور 15/ اگست 1947 کو کوئی بھی عبادت گاہ جس شکل میں موجود تھی اس کی مذہبی شناخت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ملک کے ہر ایک مقام پر اس قانون کو اس کی حقیقت کے ساتھ نافذ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
قرارداد نمبر (4)
غیر جمہوری طور پر قانون سازی کے ذریعہ شہریوں کے بنیادی حقوق تلف کرنے کی کوشش
پورے ملک میں اس وقت جو حالات ہیں، وہ دراصل ثقافتی طور پر تنگ نظر گروہ اور فرقہ پرست طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ہیں اور جس کے پس پشت جمہوریت اور سیکولرازم نیز آئین کی بالادستی پر یقین نہ رکھنے والی وہ قوتیں ہیں جو اس ملک میں ایک مخصوص آئیڈیالوجی کے تحت اپنی ثقافتی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتی ہیں تو دوسری جانب ملک میں خوف کی نفسیات پیدا کی جارہی ہے جو کسی طرح بھی قابل انگیز نہیں۔اسی ضمن میں برسر اقتدار جماعت کی طرف سے مرکز اور بعض ریاستوں میں غیر جمہوری طور پر ایسے قوانین وضع اور نافذ کئے جا رہے ہیں جو دستور میں فراہم کردہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو تلف کرتے ہیں جن میں ضبیحہ پر پابندی اور تبدیلی مذہب مخالف قوانین ہیں جن کو خاص طور پر اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
آل انڈیا ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس حکومت ہند اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس وقت مسلمانان ہند جس بے چینی سے گزر رہے ہیں اور حکومت ہند اور بعض ریاستیں جس طرح ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں وہ دستور ہند کے صریحاً خلاف اورمسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
قرارداد نمبر (5)
تجاوزات کے نام پر شہریوں بالخصوص اقلیتوں کو بے دخل کرنے کی سازش
حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف مقامات پر تجاوزات کے نام پر غریب شہریوں اور بالخصوص مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں و پس ماندہ طقبات سے تعلق رکھنے والوں کو بے دخل کرنے کی کارروائیاں تسلسل کے ساتھ انجام دی جا رہی ہیں۔حکومت ایک طرف تو ہر شری کو گھر دینے کی بات کرتی رہی ہے اور دوسری جانب شہریوں کے گھروں کو توڑ کر انہیں بے گھر کرنے کی کوشش کررہی ہے، آسام اور ہلدوانی اور دہلی کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔
آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس اس صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے شہریوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور ملک میں امن و امان کی فضاء کو متاثر ہونے سے بچایا جائے۔
قرارداد نمبر (6)
مدارس اسلامیہ سے متعلق حکومت کی پالیسیاں
مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے اور انسانیت کے محافظ ہیں، ملک کی آزادی میں ان کا کردار قائدانہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں ان کی خدمات بے مثال رہی ہیں۔ افسوس ہے کہ گزشتہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں مدارس اسلامیہ کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ آسام میں مدارس کا انہدام اور اتر پردیش میں دیگر مذہبی تعلیم گاہوں کے بجائے صرف مدارس اسلامیہ میں سروے کی مہم چلائی گئی۔اس کے علاوہ ان مدارس کے نصاب پر بھی سوالات کھڑے کئے جاتے رہے ہیں۔
آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس اس صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے ساتھ اس نامناسب رویے کو فوراً ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی اجلاس مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنا نظام اور ضروری قانونی دستاویزات کو درست رکھیں اور خاص طور پر مالیاتی نظام کو ہر طرح منظم رکھیں تاکہ کسی کو دخل اندازی کا موقع حاصل نہ ہوسکے۔
قرارداد نمبر (7)
پہلی تا آٹھویں جماعت پری میٹرک اسکالرشپ اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کا خاتمہ
طلبہ وطالبات کی نشوونما اور تعلیم کے لیے گھر کی معاشی آسودگی ضروری ہوتی ہے، جو والدین معاشی پریشانیوں میں گھِرے رہتے ہیں، وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو ایک ضمنی حیثیت دیتے ہیں اور غریب طلبہ اس سکون واطمینان سے نہیں پڑھ سکتے جو تعلیم کے لیے ضروری ہے۔ اکثر والدین پڑھے لکھے نہیں ہوتے، اگر پڑھ بھی لیتے ہیں تو گھر کے ماحول کی بنا پر اور پھر معمولی اسکول کے ماحول میں بچوں کی صلاحیتیں نکھر نہیں پاتیں، یہ المناک حقیقت ہے جس کی وجہ سے مسلم سماج کے بچے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی صورت حال کے ازالہ کے لئے حکومت ہند نے اقلیتی طلبہ/ طالبات کے لیے پہلی تا آٹھویں جماعت کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کا پروویژن رکھا تھا، اس سے معاشی اعتبار سے تہی دست خاندانوں کے بچے کم ازکم مڈل سطح تک بآسانی تعلیمی فیس اور دیگر ضروریات پوری کر لیتے تھے۔اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی میدان میں تحقیق کے لئے اقلیتی طلباء کو حکومت کی طرف سے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ فراہم کی جاتی تھی جنہیں اب مرکزی حکومت نے ختم کر دیا ہے۔
آل انڈیا ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس مرکزی حکومت کے اس فیصلے پر اپنے شدید دکھ کا اظہار کراس کو اقلیتی طلباء کو تعلیم سے محروم کرنے کی سازشوں کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔ لہٰذا آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر پہلی تا آٹھویں جماعت کے طلباء کے لئے پری میٹرک اسکالر شپ اور تحقیقی میدان میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو دوبارہ جاری کرے تاکہ طلباء و طالبات کی ابتدائی تعلیم کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں درپیش مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔
قرارداد نمبر (8)
برادران وطن کے ساتھ اتحاد و قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک مرد اور عورت سے پیدا فرمایا ہے، پھر اسے مختلف گروہوں اور خاندانوں میں شناخت اور تعارف کے ساتھ زمین کے مختلف علاقوں میں آباد کر دیا اور وجہ امتیاز اور تفاخر کی تمام تر جاہلی بنیادوں کو ختم فرما کر یہ اعلان کردیا کہ میری بارگا ہ میں عزت و احترام اور اعزاز صرف اللہ سے ڈرنے والوں کو حاصل ہوگا، کاروبار زندگی میں سب برابر اور یکساں، رنگ و نسل، تہذیب و ثقافت، زبان و تمدن، فکر و خیال اور ملک و ریاست کے اعتبار سے کسی کو کسی پر امتیاز نہیں، بحیثیت ابن آدم سارے انسان ایک ہیں، سب کا تخلیقی عنصر ایک ہے، ”کلکم من آدم و آدم من تراب“۔
تمام انسانوں کے ساتھ انصاف اور یکساں برتاؤ کی یقین دہانی ہمارے ملک کے دستور میں بھی کرائی گئی ہے۔ دستور کی تمہید میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ بھارت کے عوام بھارت کو ایسا غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے کہ اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، دین و عقیدہ، عبادت اور اظہار خیال کی آزادی، مساوات اور اخوت و بھائی چارہ کا حصول ممکن ہو سکے۔
دستورہند کے اس دیباچہ کی بنیاد پر پورے ملک میں اخوت و بھائی چارہ اور برادران وطن کے ساتھ ملک کی ترقی، اتحاد و سا لمیت، ایک دوسرے کا احترام، زبان و کلچر، عبادت گاہوں کی حفاظت اور خدمت خلق کی بنیاد پر تمام ہندوستانی شہریوں کے درمیان قومی اتحاد کی بنیاد کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔اس وقت یہ ضروری ہے کہ اشتعال انگیزی سے بچاؤ کرتے ہوئے اپنی اپنی آبادیوں سے مذہبی و ثقافتی جلوسوں کو حسب قانون گزرنے میں مدد کرنی چاہئے۔ جہاں کہیں بھی اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص یا طبقہ کے خلاف ہونے والی ناانصافی اور ظلم نظر آئے، اس کو دور کرنے کی متحدہ کوشش کرنی چاہئے۔
قرارداد نمبر (9)
حجاب کے نام پر مسلم بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی سازش
حجاب اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے، اس سے دستبرداری مسلم خواتین کے لیے ناممکن ہے۔ گزشتہ دنوں ملک میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہن کر تعلیمی اداروں میں جانے اور تعلیم حاصل کرنے پر بندشیں لگائے جانے کے مختلف واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس سے ہزاروں مسلم لڑکیوں کے تعلیمی سلسلے کے منقطع ہونے اور غیر تعلیم یافتہ رہ جانے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ اجلاس اس صورت حال کو ملک اور ملت کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں پر فوری روک لگائی جائے اور ہزاروں بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو حسب معمول جاری رہنے کو ممکن بنایائے۔یہ معاملہ مذہبی آزادی کا بھی ہے، آزادیئ رائے کا بھی ہے اور حقوق انسانی کا بھی ہے۔

Comments are closed.