سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کی قومی سیکرٹریٹ اجلاس میں منظور شدہ قراردادیں

نئی دہلی (پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا(SDPI) کی قومی سیکرٹریٹ میٹنگ 14، 15 فروری 2023 کو دہلی میں منعقد ہوئی۔ ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر ایم کے فیضی نے افتتاحی تقریر کی جس کے بعد ملک کی موجودہ سماجی و اقتصادی سیاسی صورتحال اور پارٹی سرگرمیوں پر گفتگو ہوئی اجلاس میں درج ذیل تین قراردادیں منظور کی گئیں۔
1)۔کانپورماں بیٹی کی موت کا سانحہ۔ بلڈوز سیاست کا نتیجہ۔ایک گھر بنانے میں کئی سال اور کھبی کھبی زندگی بھر جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان وہ بنیادی شہری سہولیات ہیں جن کی فراہمی کی توقع فلاحی ریاست سے کی جاتی ہے۔ تاہم، حکمران بی جے پی کی طرف سے اختیار کی گئی ایک نئی پالیسی فلاحی ریاست کے بنیادی تصور کے خلاف ہے جس کے تحت حکومت ریاستی مشینری اور بلڈوزر کا استعمال کسی نہ کسی بہانے لوگوں کے مکانات کو گرانے کے لیے کر رہی ہے۔ جب کوئی گھر یا جھونپڑی منہدم ہو جاتی ہے تو اس سے پورا خاندان بے گھر ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں کانپور دیہات میں ماں بیٹی کی موت اسی شہری مخالف بلڈوزر سیاست کا نتیجہ ہے۔ یہ شرمناک ہے کہ غریب ماں بیٹی کی موت پر سیاست کی جارہی ہے۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) اس دوہری موت سے صدمے میں ہے اور متوفی کے اہل خانہ سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ ایس ڈی پی آئی اس انہدام کی مہم کو لوگوں کے شہریت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور پولیس اور دیگر ریاستی ایجنسیوں کے غلط استعمال کو اقلیتوں اور سماج کے محروم طبقات کے خلاف نشانہ سمجھتی ہے۔یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کے نتیجے میں کانپور، اتر پردیش میں دو قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ایس ڈی پی آئی دوہری موت کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے اور اس شہری مخالف بلڈوزر سیاست کو روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ایس ڈی پی آئی ماں بیٹی کی موت کے اصل ذمہ داروں کی گرفتاری اور متوفی کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔نیزایس ڈی پی آئی ان لوگوں کو مناسب معاوضہ دینے کا مطالبہ کرتی ہے جن کے مکانات اور جھونپڑیوں کو عدالت کے حکم کے بغیر بلڈوز کیا گیا ہے۔
2)۔ اڈانی غبن کیس: ہندوستانی جمہوریت کے لیے شرمناک۔ہندوستان نے اکیسویں صدی میں معاشی عروج اور پھلتے پھولتے کاروبار اور تجارت کا آغاز کیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے بھارت کو مستقبل کی بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ لیکن ڈیڑھ دہائی کے اندر ہی یہ شور بند ہو گیا اور ہندوستانی معیشت کو غیر ضروری نوٹ بندی اور اس طرح کی دیگر ناقص مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستانی روپے کی قدر میں کمی آئی ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ بڑھتے ہوئے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہیں ہوا جس کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اس منظر نامے نے کئی سماجی مسائل کو جنم دیا ہے۔ چوری، جیب تراشی، روڈ ڈکیتی وغیرہ کی وارداتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔نئی ملازمتیں پیدا کرنے، کالا دھن واپس لانے اور لوگوں کے بینک کھاتوں میں رقم کریڈٹ کرنے کے وزیر اعظم کے عوامی دعووں کے باوجود 65 لاکھ سے زیادہ خالی آسامیوں پر کوئی تقرریاں نہیں کی گئیں، جس نے عوامی خدمات کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب اس کے ساتھ گوتم اڈانی کے کروڑوں روپے کے غبن کا معاملہ بھی شامل ہے۔ جیسا کہ مختلف میڈیا رپورٹس کے ذریعے بتایا گیا ہے، کئی وزارتیں اور سرکاری ادارے مبینہ طور پر ارب پتی ہائی پروفائل فراڈ میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔اس صورتحال نے ایک سنگین معاشی بحران پیدا کر دیا ہے اور پورے ملک میں اس کا اثر ہورہا ہے۔ جس سے اسٹیک ہولڈرز کو غیر معمولی رقم کا نقصان اور ایک زبردست عوامی احتجاج جاری ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کی خاموشی اور عمل میں کمی کو منفی طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس پورے واقعہ نے بیرون ملک میں ہمارے ملک کی امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ لہذا ایس ڈی پی آئی مطالبہ کرتی ہے کہ اس ہائی پروفائل بدعنوانی کی جانچ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی آزادانہ انکوائری قائم کی جائے۔گوتم اڈانی کا پاسپورٹ فوری طور پر ضبط کرلیا جائے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بیرون ملک سفر نہ کرسکیں جیسا کہ ماضی میں کئی ہائی پروفائل فراڈ کیسوں میں ہوا ہے۔اڈانی کے تمام کاروباری کھاتوں کی نگرانی کریں اور ED اور IT محکموں کو حکم دیں کہ وہ ان کے مالی معاملات کے ریکارڈ کی جانچ کریں۔
3)۔بی بی سی کے دفاتر پر چھاپہ اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش ہے۔
حکومت پر لوگوں کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے ماضی میں بہت سے ادارے بنائے گئے۔ تاہم، یہ دیکھا گیا ہے کہ حکمران حکومت کی جانب سے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے تحقیقاتی ایجنسیوں اور آزاد اداروں کو سیاست کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اور پی ایم ایل اے کو مخالفین اور میڈیا ہاؤسز کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے ستون کے طور پر کام کرنے کے بجائے، میڈیا کو حکومت کا ماؤتھ پیس بنا دیا جاتا ہے جو ملک کی جمہوری اقدار کے مطابق نہیں ہے۔ چند میڈیا ہاؤسز اور انفرادی صحافی جو اپنا کام کرتے ہیں اور پیشہ ورانہ معیار کو برقرار رکھتے ہیں انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ ایسی ہی ایک تازہ مثال بین الاقوامی کثیرلسانی نشریاتی ادارے بی بی سی (BBC)کے نئی دہلی اور ممبئی کے دفاتر پرآئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کا چھاپہ ہے۔ اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ معمولی جانچ کے نام پر اس غیر جمہوری چھاپے سے ہندوستان کے عالمی موقف کو پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ میڈیا بشمول بی بی سی جیسے غیر ملکی میڈیا ہاؤسز کو بلا خوف و خطر آزادانہ کام کرنے کی اجازت دیں۔
میڈیا کو حکومت اور ریاستی اداروں کا ماؤتھ پیس بنانے کے بجائے خود مختار اداروں کے طور پر کام کرنے دیں۔
میڈیا ہاؤسز سمیت مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والے شہریوں کو ڈرانے کے لیے ED، IT، NIA اور PMLA کا غلط استعمال بند کریں۔ایس ڈی پی آئی کی قومی سکریٹریٹ اجلاس میں پارٹی قومی نائب صدور اڈوکیٹ شرف الدین احمد، محمد شفیع، قومی جنر ل سکریٹریان الیاس تمبے، عبدالمجید فیضی، قومی سکریٹریان فیصل عزالدین، تائید الاسلام، عبدالستار اور قومی سیکرٹریٹ کے دیگر اراکین موجود تھے۔
Comments are closed.