Baseerat Online News Portal

”زاویہ نظر“ پر ایک نظر

 

 

مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی

سابق پرنسپل: مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ

 

 

مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی زود نویس صاحب قلم ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں گوناں گوں صفات سے نوازا ہے، وہ تقریر وتحریر دونوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں، جہاں تک تقریر کی بات ہے تو خوب بولتے ہیں، اور زور دار تقریرکرتے ہیں، ان کی تقریر دینی ،علمی اور فکری ہوتی ہے، جو ان کو عام مقررین سے ممتاز کرتی ہے، جہاں تک تحریر کی بات ہے، تو ان کا قلم رواں دواں ہے، اپنی بات کو سجا کر پیش کرنے کا فن جانتے ہیں، وہ علمی مضامین اور تحقیقی مقالات بھی لکھتے ہیں، حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی تحریر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں صحافتی ذوق سے بھی نوازا ہے، وہ امارت شرعیہ کے ہفت روزہ ”نقیب“ کے ایڈیٹر ہیں، نقیب میں مختلف موضوعات پر ان کے افکار ونظریات شائع ہوتے ہیں، ان کے مضامین ، مقالات اور کتابوں کی تعداد دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ بر جستہ لکھتے ہیں، اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریر میں جاذبیت اور کشش ہوتی ہے، لوگ شوق سے پڑھتے ہیں، ان کی تحریر میں فن اور فکر دونوں کا امتزاج بھی ہوتاہے ، جس کی وجہ سے پڑھنے والے اکتاتے نہیں ہیں، نیز پڑھنے کے بعد خالی ہاتھ نہیں رہتے ، بلکہ ان کو فکر کا خزانہ حاصل ہوتا ہے ، اس طرح وہ اپنے معاصر ین میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔

مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی با وقار عالم ذین ، بہترین صاحب قلم، کامیاب خطیب، ماہر صحافی اچھے ادیب اور کامیاب محقق ہیں، ان کی تصانیف ہر موضوع پر دستیاب ہیں، ان کی تصانیف میں مذکورہ صفات کا جلوہ نظر آتا ہے ، یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا اپنوں نے حق بھی ادا کیا ہے، یہ اللہ کی طرف سے توفیق ہے، جو انہیں منجانب اللہ عطا کی گئی ہے۔

مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر ہیں نقیب کی ادارت نے انہیں ایک دوسرا میدان فراہم کیا ہے، وہ صحافی ہیں، کہنہ مشق صحافی، وہ میدان صحافت میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں، ان کی تازہ تصنیف”زاویہ نظر“ کا مسودہ میرے سامنے ہے، اس میں ان کی تحریر کردہ اداریے ہیں اور وہ مضامین ہیں، جو نقیب میں شائع ہوئے ہیں، یہ ملی ، تعلیمی سماجی اور لسانی حالات پر تجزیاتی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔

موجودہ دور تکنیکی دور ہے، لوگ کسی چیز میں زیادہ وقت لگانا پسند نہیں کرتے ہیں، اس دور کا اثر قارئین پر بھی نظر آتا ہے، ان کو طویل مضمون پڑھنے کی فرصت نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کسی مضمون کو پڑھیں تو جلد ختم ہوجائے اور جلد نتیجہ پر پہنچ جائیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی کتابوں کی جانب رجحان میں کمی آتی جا رہی ہے، اب لوگ مختصر کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں، اس لئے مختصر کتابوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، ادبی اصناف میں ایک صنف ناول ہے، پہلے لوگ طویل ناول پڑھنے کو پسند کرتے تھے، پھر وقت کے تقاضہ کے مطابق افسانہ کا وجود ہوا، پھر اس کے بعد منی افسانہ کا رواج بڑھا، یہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے، موجودہ وقت میں پڑھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد مطالعے سے فارغ ہوجائے اور کچھ ضروری معلومات اپنے مطالعہ سے حاصل کر لے، اسی تقاضہ نے مضامین کے مجموعہ کی اشاعت کی طرف متوجہ کیا ہے، چونکہ مضامین کے مجموعہ میں ہر مضمون ایک اکائی ہوتا ہے، جس کو قاری پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے، پھر وہ دوسرے مضمون کو پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے، اس طرح مضامین کے مجموعہ کی طباعت کا رجحان بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ”زاویہ نظر“ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جو نقیب میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں پانچ ابواب ہیں۔ باب اول مذہبیات۔ باب دوم تعلیمات۔ باب سوم سماجیات، باب چہارم لسانیات اور باب پنجم متفرقات پر مشتمل ہے۔

باب اول میں مذہبیات پر ۹۵ مضامین ہیں، ان مضامین میں مذہبی رہنمائی کی گئی ہے، آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں، یہ پُر فتن دور ہے، مذہب میں رسم ورواج اس طرح داخل ہو گئے ہیں کہ مذہب پر رسم ورواج کا غلبہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اس لئے موجودہ وقت میں مذہب کے سلسلہ میں رہنمائی ضروری ہے، اس باب میں مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی نے عالم ومفتی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مضبوط اور مدلل انداز میں اپنی بات رکھی ہے، مضامین کے عنوانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مضامین مختلف مواقع پر وقت اور حالات کے اعتبار سے تحریر کئے گئے ہیں، اس طرح یہ مضامین موجودہ وقت اور حالات میں فکری رجحانات کی بھی ترجمانی کرتے ہیں، اس باب کے پہلے مضمون کا عنوان ہے ”رحمة للعالمین“ ۔ مضمون سے ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند تعلیمات کا بھی ذکر ہے، جس سے آپ کی رحمت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے، اس موقع پر انداز تحریر مثالی ہے، تحریر کرتے ہیں:

”درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انہیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا ،کیونکہ یہ ہمارے لئے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں ،فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو ،پھلدار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوںسے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے ،اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو” فساد فی الارض “کے قبیل سے ہے۔

ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لئے پانی کی اہمیت ظاہر ہے،حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو ،پینے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھو ،پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو ،پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو ،مشکیزے ،گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو،یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا مظہر ہیں۔“ (صفحہ ۵۱)

اسی طرح ایک مضمون کا عنوان ”علاقائی عصبیت“ہے اس مضمون میں علاقائی عصبیت کے نقصانات کا جائزہ مذہب کی روشنی میں لیا گیا ہے، مذہب کی روشنی میں جائزہ لینے سے مضمون میں زور پیدا ہو گیا ہے، نیز سماجی اور سیاسی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے، تحریر کرتے ہیں:

”جس طرح شرم وحیا ختم ہوجائے تو آدمی کچھ بھی کر گذرتا ہے ، اسی طرح جب سیاست میں اخلاقیات نے دم توڑا تو وہ سارا کچھ ہونے لگا جو انہونی کہا جاتا تھا ، انہیں میں سے ایک علاقائی اور ریاستی عصبیت ہے ، جس نے گجرات میں اس زور وشور سے سر اٹھایا ہے کہ شمالی ہندوستان کے مزدور جو وہاں بر سوں سے کام کر رہے تھے، انہیں اپنی ملازمت چھوڑ کر بھاگنا پڑ رہا ہے ، ان کے اندر مار ، کاٹ، قتل وغارت گری اور خون ریزی کی ایسی دہشت پیدا کر دی گئی ہے کہ اب تک پچاس ہزار سے زائد لوگ گجرات چھوڑنے پر مجبور ہو گیے ہیں، کار خانوں میں مزدوروں کی کمی ہو گئی ہے اور ظاہر ہے اس کا سیدھا اثر پیدا وار پر پڑ رہا ہے ، کانگریس اور بی جے پی والے اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، بات ایک شیر خوار بچی کی آبرو ریزی سے شروع ہوئی تھی ، ظاہر ہے مجرم کوئی ایک تھا ، اسے قانون کے حوالہ کرکے سزا دلانی چاہیے تھی ، تاکہ درندگی اور حیوانیت کے اس سلسلے کو روکا جا سکے ، لیکن اس واقعہ کا سہارا لے کر گجرات خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا ، کانگریس کے الپیش ٹھاکر اور دوسرے کئی سیاسی لوگوں کے بیانات بھڑ کانے اور خوف ودہشت پیدا کرنے والے آئے، اس کی ویڈیو کلپ بھی ٹی وی چینلوں نے جاری کیا، لیکن گجرات حکومت الپیش کو گرفتار نہیں کر سکی اور بظاہر اس کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں، دکھتا تو کیا شمالی ہندوستان کے مزدوروں سے گجرات کو خالی کرانے میں دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ہے اور یہ سارا کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق منظم انداز میں کیا جا رہا ہے ۔“ (صفحہ ۰۱۱)

مزید تحریر کرتے ہیں۔

” لیکن اس عصبیت سے سب سے بڑا نقصان اس ملک کی سا لمیت کو پہونچ رہا ہے ،اس کی وجہ سے ملک کے اتحاد کو خطرہ لا حق ہو رہا ہے ، اور ہر ذی شعور آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کی تمام ریاستوں میں اس انداز کا ماحول پیدا ہوا تو ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو کس قدر نقصان پہونچے گا؟ ہر ریاست خود مختاری کی طرف تیزی سے قدم بڑھا نے لگے گا ، ملک کا جو نقصان ہوگا وہ تو طے ہے ، یہاں کا معاشی نظام ،کل کارخانوں میں پیدا وار کی کمی وجہ سے تباہ ہو کر رہ جائے گا، جواب بھی روپے کی گرتی قیمت کی وجہ سے خطرے کے نشان کو پار کرتا جا رہا ہے ۔

اسی لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ علاقائی بنیادوں پر کسی کو فضیلت اور بر تری حاصل نہیں ہے ، سب کے سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ (صفحہ ۱۱۱)

باب دوم کا عنوان ”تعلیمات“ ہے اس باب میں ۹۱ مضامین ہیں، ہر مضمون کا انداز نرالا ہے، ابتدا حالات کے تناظر میں ہے اور اختتام پر کسی نتیجہ کو اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مضمون کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے، اس باب کے مضامین میں سے ایک مضمون کا عنوان ”فکری یلغار“ ہے، اس کے تحت مصنف تحریر کرتے ہیں:

”قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقہ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔ (صفحہ ۵۹۱)

آگے تحریر کرتے ہیں:

”عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری تقریبا مکمل ہے اور بہت جلد مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کر نے والی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جائے گا جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کرنے والے ہوں گے ، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیا جائے گا ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔ (صفحہ ۶۹۱)

آخر میں رقمطراز ہیں:

” اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔

پوری دنیا کے مسلمان یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب جہاں ہمارا قبلہ وکعبہ ہے، اورجس کی طرف رخ کر کے ہم عبادت کر تے ہیں ، وہ بڑی تیزی سے اپنا قبلہ مغرب کو بناتا جا رہا ہے اور امریکہ کے چشم وابرو پر ایسے ایسے عجیب وغریب فیصلے کر رہا ہے کہ عقل حیران ہے، شاعر کا ایک شعر نوک قلم پر آگیا ۔

ای تماشہ گاہ روئے عالم تو

تو کجا بہر تماشہ می روی؟ (صفحہ ۷۹۱)

باب سوم میں سماجیات پر مضامین ہیں۔ اس باب میں ۱۸ مضامین ہیں ، ان مضامین میں ایک کا عنوان ”بھوک“ ہے، اس مضمون سے مضمون نگار کی وسعت نظری اور مطالعہ کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے، اور وہ ماہر اقتصادیات کو پیچھے چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں، بھوک سے پیدا ہونے والے مختلف وجوہات کا ذکر کرنے کے بعد وہ عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ کے سروے کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں۔

”عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ نے ایک سو انیس ممالک کے سروے کے بعد دنیا کے بھوکے لوگوں کا اشاریہ (عالمی ہنگر انڈکس) پیش کیا ہے ، اس انڈکس کے مطابق ہندوستان سویں مقام پر آگیا ہے، گذشتہ سال کی فہرست میں یہ سنتانوے (۷۹)اور ۵۱۰۲ءکے اشاریہ میں ایک سو ستر(۰۷۱) ملکوں کی فہرست میں اسی (۰۸)نمبر پر تھا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ہندوستان میں بھوکے لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ پینتالیس (۵۴)درجے یہ ملک نیچے چلا گیا ہے، تین (۳)سال قبل یوپی اے حکومت میں اس کا نمبر پچپن (۵۵)تھا ، اچھے دن آئے، وکاس ہوا ، امیر ، امیر ہو گیے اور غریبوں کی غربت تیزی سے بڑھی ، غربت اور بھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، اس لیے ملک کی عوام مزید بھوک مری کی شکار ہو گئی ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ۳۲ فی صد بھوکے لوگ صرف ہندوستان میں رہتے ہیں، انیس کروڑ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور 19.7فی صد لوگ غذائیت کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، اڑتیس فی صد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ایسی خوراک نہیں مل پا رہی ہے، جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کے لیے ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ 35.7فی صد بچوں کا جووزن اس عمر میں ہونا چاہیے وہ اس سے دور ہیں، 51فیصد نوجوان خواتین کو خون کی کمی کا سامنا ہے، سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں 35.6فی صد عورتیں اور 34.2فی صد مرد وں کا بی ام آئی (باڈی ماس انڈکس) 18.5سے کم ہے، یہ انسانی جسم میں غذائیت کی جانچ کا ایک فارمولہ ہے، جس کے مطابق 16سے16.9تک کے لوگ بری طرح عدم غذائیت کے شکار سمجھے جاتے ہیں، 16سے کم والے بھوک مری کی کگار پر ہوتے ہیں، اس وقت ہندوستان گلوبل ہنگر انڈکس میں 31.4پوائنٹ پر ہے، جو سنگین فاقہ کشی کی علامت اور پہچان ہے، ہندوستان میں مدھیہ پردیش اس معاملہ میں سب سے آگے ہے اور اس کا شمار ایتھوپبا اور وسطی افریقی ممالک سے کیا جاتا ہے، جہاں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ہندوستان اقوام متحدہ کی تجویز کے مطابق بھوک مری سے نمٹنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ 2022تک بھوک مری پر قابو پا لیا جائے گا، اس کام کے لیے حکومت نے نیتی آیوگ کے ساتھ تین اور وزارت کو اس میں شریک کرکے مشترکہ پروگرام چلانے کا منصوبہ بنایا ہے، نیتی آیوگ نے 640اضلاع میں سے عدم غذائیت کے شکار 110اضلاع کی فہرست جاری کی ہے اور ان اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے باڈی ماس انڈکس کو37.5کے بجائے 20.5تک پہونچا نا ہے، یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ (صفحہ ۰۳۲-۳۳۲)

وہ مفتی ہیں، ان کی نظر دین پر بھی ہے، اس لئے اس موقع پر بھی لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

”کھانا برباد نہ ہو، اس کے لیے اسلام میں سخت ہدایات موجود ہیں، دسترخوان پر گرنے والے ایک ایک دانے کو چن کر کھانے کی تلقین کی گئی ہے، کھانا کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے مختلف طریقہ کار پر زور دیا گیا ہے، خالصا لوجہ اللہ غریبوں ، یتیموں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور جہنمیوں کی زبان سے یہ بیان کروایا گیا کہ ہمارے جہنم میں داخل ہونے کے مختلف اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے اور ان سے کسی بدلے یا کلمات شکر کی امید نہ لگائی جائے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے بھوک مری پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، کاش ہمارے حکمراں بھی اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔(صفحہ ۲۳۲)

باب چہارم میں لسانیات سے متعلق مضامین ہیں، اس باب میں دو مضامین ہیں اور دونوں اہم ہیں، ایک مضمون کا عنوان ”اردو کا مسئلہ“ ہے ، اردو ہماری مادری زبان ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے،محبان اردو نے ہمیشہ اس کی حفاظت کے لئے کوشش اور رہنمائی کی ہے، مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی اردو زبان وادب کے ماہر اور ادیب ہیں، اور حساس شخصیت کے حامل بھی ہیں، اس لئے ان کی رہنمائی کا انداز نرالا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:

” واقعہ یہ ہے کہ ہم اردو کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، لیکن ہمیں خوب اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زبان ماتم اور نوحہ سے باقی نہیں رہتی ، ہمارا حال یہ ہو گیا ہے کہ اب مسجد میں دعاو¿ں کی تختی بھی ہندی میں لگ رہی ہے ، ہمارے گھروں میں اخبارات ہندی اور انگریزی کے آ رہے ہیں، اردو اخبار کو قاری کی کمی کا شکوہ ہے ، ہمارے بچے اسکول میں اردو بطور سبجیکٹ نہیں رکھتے ، وہ اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں، گھروں میں اب پڑھنے پڑھانے کے بجائے بچہ کو کم عمری میں کنونٹ میں داخل کر دیا جاتا ہے ، ہماری ترجیحات انگلش میڈیم اسکول ہیں، ہم اپنے بچے کے فرفر انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں اور اسے اردو بولنا ، لکھنا، پڑھنا نہیں آتا اس پر ہمیں کوئی ندامت نہیں ہوتی، جب تک یہ مزاج باقی رہے گا ، ہم اردو کو اس کا مقام نہیں دلوا سکتے ، کیوں کہ ہم یہ لڑائی سرکاری سطح پر نہیں داخلی سطح پر ہار چکے ہیں، داخلی شکست کو فتح میں بدلنا خارجی شکست کے مقابلہ میں زیادہ دشوار ہوتا ہے ۔“(صفحہ۹۶۵)

باب پنجم کا عنوان ”متفرقات“ ہے ، اس باب میں ۰۲ مضامین ہیں، اس باب کے مضامین میں بھی جامعیت اور جاذبیت ہے، تمام مضامین فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہیں، اس باب میں ایک مضمون ”امیروں کی دنیا“ ہے، اس مضمون کی ابتداءایک سروے ایجنسی کی رپورٹ سے کی گئی ہے، رپورٹ معلوماتی ہے، رپورٹ کے مطالعہ سے مصنف کے تحقیقی ذوق کا بھی پتہ چلتا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:

”بلومبرگ نامی ایک سروے ایجنسی نے رابن ہوڈ انڈکس کے نام سے دنیا کے مختلف ملکوں کے مالداروں کی دولت کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ جن ملکوں میں وہ رہ رہے ہیں، اس ملک کو اگر ان کو چلانا پڑے تو اپنی دولت سے وہ کتنے دن اس ملک کی کفالت کر سکتے ہیں،اس رپورٹ میں ہندوستان کے مکیش انبانی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بیس دنوں تک ہندوستان کا خرچ بلا شرکت غیرے چلا سکتے ہیں جبکہ بھارت سرکار کا ایک دن کا خرچہ ۸۶۷،۲۱ کڑوڑ روپے کا ہے، امریکہ کے جیف بے حوس پانچ دن ، فرانس کے بنارڈ آرنالٹ ۵۱ دن، میکسیکو کے کارلس سلم ۲۸ دن ، چین کے جیک ما ۴ دن، برازیل کے جارج پاؤ لو تیرہ دن ، اٹلی کے گی اووپنی فرارونو دن، یورپی ملک سائپرس کے جان فرڈ رکسن چار سواکتالیس دن ، جار جیا کے بِد جینا چار سو تیس دن ، ہانگ کانگ کے لی کاسن ۱۹۱دن، ملیشیا کے رابرٹ کو اوک ۵۹ دن ، سنگاپورکے وی چو یا۲۵ دن اور جرمنی کے ڈائٹر سوارج پانچ دن کا خرچ اٹھا سکتے ہیں انچاس ملکوں کے مالداروں کی اس سروے رپورٹ میں چار خواتین کا بھی نام ہے جو اپنے ملک کا خرچ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔(صفحہ ۹۷۵)

اس مضمون سے مصنف نے جونتیجہ اخذ کیا ہے، اس سے ان کے ایک دوسرے ذوق کی نشاندہی ہوتی ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:

”اس سروے رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کا ارتکاز کس تیزی سے ایک فی صد لوگوں کے ہاتھوں میں ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں مالدار اور مالدار ہوتا جا رہا ہے اور غریب اور غریب ، اسلام نے دولت کے ارتکاز کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا ، اس کا معاشی اور اقتصادی نظام دولت کی ایسی تقسیم پر مبنی ہے، جس میں مالداروں کے ذمہ غریبوں مسکینوں کی ضروریات کی کفالت بھی مختلف عنوانات سے شامل ہے جس کی وجہ سے دولت ایک ہاتھ میں مرکوز نہ ہو کر گردش کرتی رہتی ہے، اسی لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام آمد سے زیادہ خرچ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔“ (صفحہ ۹۷۵)

”زاویہ نظر“ کے ہرباب میں اسی طرح کے مضامین ہیں جو فکر اور تاثیر سے پُر ہیں، اس طرح یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اور دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں، ہر مضمون کی اپنی ایک خصوصیت ہے، اور ہر مضمون اپنی الگ فکر اور تاثیر رکھتا ہے، جس کے مطالعہ سے قاری کا ذہن اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

عام طور پر علماءکا اسلوب بیان اور انداز تحریر گنجلک اور ثقیل ومشکل الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے ، مگر مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی کی تحریر بہت حد تک سادہ اور آسان ہے، زبان میں سلالت اور شیرینی کا پہلو نمایاں ہے، اس طرح یہ کتاب عوام وخواص سب کے لیے یکساں مفید ہے۔

مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی کا وطن ویشالی ضلع کا حسن پور، گنگھٹی ، بکساما ہے، انہوں نے دار العلوم دیو بند سے فضیلت کی سند حاصل کی ، پھر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب میں ایم اے پاس کیا، پی ایچ ڈی پر کام جاری ہے، انہوں نے تدریسی خدمات کا آغاز مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی سے کیا، فی الحال امارت شرعیہ، بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں نائب ناظم کے عہدہ پر فائز ہیں، علمی ، ادبی ، صحافتی اور سماجی خدمات طرۂ امتیاز ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، تصنیف وتالیف سے خصوصی دلچسپی ہے، بہت سی مصروفیات کے باوجود ان کی تصانیف کا دائرہ وسیع ہے، اور بہت سے فنون پر محیط ہے، ان کی تصانیف سے ان کی وسعت مطالعہ بھی پتہ چلتا ہے۔

مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی کی بہت سی کتابیں شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہےں، ان میں ”زاویہ¿ نظر “ ایک اہم کتاب کا اضافہ ہے، کتاب بہت معلوماتی ہے، اور اپنے موضوع پر محیط اور دلچسپ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مطالعہ کرنے والوں کو اس کتاب سے فائدہ پہنچے گا۔

میری دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ کتاب کو مقبولیت سے نوازے اور افادیت عام کرے اور تصنیف کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

Comments are closed.