ڈاکٹر شکیل کی کہانیاں لسانیاتی بوقلمونی اور موضوعاتی تنوّع کا مظہر ہیں:ذکیہ مشہدی

ظلم، نفرت اور تشدّد کے خلاف ڈاکٹر شکیل کی کہانیاں اعلانِ جنگ ہیں: ارون کمل
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے ذریعہ منعقدہ ‘ایک رات کا موقف’کا اجرا؛ اردو اور ہندی کے ممتاز اہلِ قلم کا اظہارِ خیال
پٹنہ (پریس ریلیز) ڈاکٹر شکیل کی کہانیوں نے مجھے حیرت زدہ کیا ۔ڈاکٹری کے پیشے سے اتنی دیر بعد وہ اردو افسانہ نگاری کی طرف کیوں آئے۔ ان کی کہانیوں میں لسانی اور سماجی تنوّع اس درجے تک ہے کہ آپ مبہوت ہو جائیں۔ وہ گِردو پیش سے نہ صرف یہ کہ موضوعات منتخب کرتے ہیں بل کہ ان کی آگہی اور پس منظر کا درد و سوز بھی اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔ اسی لیے مختلف زبانوں کا ایک کھُلا سنسار اُن کے یہاں نظر آتا ہے۔ اس سے ہماری زبان کے دائرۂ کار میں وسعت آتی ہے۔ ان کی کہانیوں میں نفسیاتی پیچیدگی کے ساتھ ہم عصر مسائل کی شمولیت سے پڑھنے والے کی دل چسپی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ میرا مشورہ ہوگا کہ وہ زبان کا ایک معیار قائم رکھیں اور عام خبروں کے بجاے ان خبروں کے پیچھے احساس اور رشتوں پر زیادہ توجّہ دیں۔
بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ ڈاکٹر شکیل کے افسانوی مجموعے ‘ایک رات کا موقِف’ کے اجرا کے موقعے پر مقامی اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ میں معتبر افسانہ نگار اور غالب ایوارڈ یافتہ مصنّفہ محترمہ ذکیہ مشہدی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مذکورہ باتیں کہیں۔پروگرام کی صدارت معروف ہندی شاعر ارون کمل نے کی۔ انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر شکیل کے افسانوی مجموعے کے اجرا کے موقعے سے برسوں بعد اردو اور ہندی کے بہت سارے ادیب جمع ہو سکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسے اجتماعات بار بار منعقد ہونے چاہیے جن میں ان دونوں زبانوں کے ادیب اور شاعر ایک دوسرے کے قریب بیٹھیں اور تبادلۂ خیالات کریں۔انھوں نے ڈاکٹر شکیل کے افسانوں کی خصوصیات بتاتے ہوئے اس بات کی تعریف کی کہ ان کے افسانے ظلم تشدّد اور نفرت سے کھلا اعلانِ جنگ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل حاشیائی آبادیوں کے درد کو سمجھتے ہیں اور ان کی زندگی کو نہایت ہم دردی کے ساتھ اپنی کہانیوں کا حصّہ بناتے ہیں۔ انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ یہ کہانیاں اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے دائروں کو وسیع کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر شکیل ایک طرف تخیّل کے پروں سے کہانیوں کو مستحکم کرتے ہیں تو دوسری طرف ان میں تجربہ کرنے کی بھی بے پناہ صلاحیت ہے۔ اس وجہ سے یہ کہانیاں صرف واقعہ سازی نہیں بل کہ فن کی محافظ گاہ بن گئی ہیں۔
تقریبِ اجرا سے خطاب کرتے ہوئے افسانہ نگار ڈاکٹر شکیل نے اپنے تخلیقی عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح میڈیکل کی تعلیم اور پیشے کے مشکل سفر میں انھوں نے اپنی مادری زبان کی حفاظت کی۔ انھوں نے اپنے ماموں جان معروف افسانہ نگار اور شاعر شعیب شمس کو یاد کیا اور کہا کہ وہ بہ ہر صورت اس وراثت سے آگے بڑھ کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ انھوں نے مشتاق احمد یوسفی اور سعادت حسن منٹو کو یاد کرتے ہوئے اپنے فن کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ افسانے کے اختتام میں چونکانے کی جو ایک کیفیت ہوتی ہے ، میں اس پر خود کو مرتکز کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔انھوں نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ اپنی مادری زبان کا یہ سفر تمام تر پیشے ورانہ مشکلات کے باوجود جاری رہے۔
پروگرام کا آغاز بزمِ صدف کے سربراہ پروفیسر صفدر امام قادری کی گفتگو سے ہوا۔ انھوں نے اُن حالات کا تذکرہ کیا کہ کیسے ایک پیشہ ور ڈاکٹر اچانک ادیب کی شکل میں سامنے آ گیا اور بزمِ صدف نے اس کتاب کی اشاعت اور اس کی عالمی سطح پر لانچنگ کا کیوں کر پروگرام مرتَّب کیا۔ اس تقریبِ اجرا میں چار مقالے پیش کیے گئے جن میں ڈاکٹرشکیل کے فکر و فن کا تنقیدی اعتبار سے محاسبہ کیا گیا تھا۔ اردو ڈائرکٹوریٹ کے رسالہ ‘بھاشا سنگم’ کی نائب مدیرہ ڈاکٹر افشاںبانو نے ڈاکٹر شکیل کے افسانوں کی زبان کے امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ وہ کس طرح مختلف زبانوں کے الفاظ اور جملوں کا فطری طور پر اپنے افسانوں میں استعمال کرتے ہیں۔اے ین کالج ، پٹنہ کے شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر منی بھوشن کمار نے ڈاکٹر شکیل کی چند کہانیوں کے تنقیدی تجزیے کے بعد اپنا یہ نتیجہ پیش کیا کہ ڈاکٹر شکیل سماجی بے داری اور حوصلہ مندی کی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ شعبۂ اردو جی ایل اے کالج، میدنی نگر،جھارکھنڈ سے تشریف لائے ڈاکٹر تسلیم عارف نے ‘ڈاکٹر شکیل کی افسانوی کاینات’ کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے ڈاکٹر شکیل کی گہری سماجی وابستگی کے لیے داد دی اور ان کی زبان کی تجربہ پسندی کو لائقِ اعتنا قرار دیا۔ معروف افسانہ نگار ڈاکٹر احمد صغیر نے ڈاکٹر شکیل کی چند کہانیوں کے حوالے سے اُس سماجیاتی منظر نامے کا تذکرہ کیا جس کے آس پاس اردو میں کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔ انھوں نے اس افسانہ نگار کے اختصاص اور امتیاز پر واضح طور پر روشنی ڈالی۔
پروگرام میں مہمانِ اعزازی کے طورپر جناب شفیع مشہدی ، محترمہ اوشا کرن خان اور پروفیسر جاوید اختر خاں شامل تھے۔ شفیع مشہدی نے ادیبوں کی برادری میں ڈاکٹر شکیل کی آمد کا استقبال کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اردو میں ایک ذہین افسانہ نگار کی شمولیت ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر شکیل کی زبان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے یہاں زمین کی خوش بو پھیل رہی ہے۔ بھوج پوری زبان اور بولی کے سہارے وہ اپنے لاشعور میں بسے وطن کی بہاروں کو ہم تک منتقل کررہے ہیں۔ معروف ہندی اور میتھلی افسانہ نگار اور ناول نگار پدم شری اوشا کرن خان نے بتایا کہا کہ فکشن میں ان دنوں لسانی تنوع اور تال میل کا دور آیا ہوا ہے۔ ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ اور جانے ان جانے بول سما جاتے ہیں۔ یہ عیب نہیں بل کہ ہنر ہے ۔ ڈاکٹر شکیل کی کہانیوں میں یہ رنگا رنگی مجھے بے حدمتاثّر کرتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل کے یہاں ہم عصر ادبی فضا کا تروتازہ رنگ مجھے متاثر کرتا ہے اور اِنھی وجوہات سے ان کی کہانیاں مجھے بہت پسند ہیں۔
ممتاز ڈراما نگار ڈاکٹر جاوید اختر خاں نے ڈاکٹر شکیل کے ایک افسانے ‘عبارتِ مزید’ اور ایک ترجمے بہ عنوان ‘معاف کرنا’ کی اپنی آواز میںپیش کش سے سماں باندھا۔محترمہ نِویدتا جھا نے ڈاکٹر شکیل کی افسانہ نگاری کے اسباب ومحرکات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے کن مشکلوں سے وقت نکال کر یہ افسانے لکھ رہے ہیں۔ بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ اس پروگرام میں عظیم آباد کے اردو اور ہندی کے شعرا و ادبا ، ثقافتی تنظیموں کے کارکن اور دانش وران کی بڑی تعداد جمع تھی۔ بزمِ صدف کی جانب سے پروفیسر صفدر امام قادری نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور آیندہ کے پروگراموں میں ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے اہالیانِ قلم کو بار بار جمع ہونے کے لیے گزارش کی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ زبانوں اور بالخصوص مُلک پر جو مشکل گھڑی آتی جا رہی ہے ، اس میں اگر متّحد ہو کر ہم اپنی یک جائی کا ثبوت نہیں دیں گے اور بار بار آپسی تبادلۂ خیالات سے اپنے مسئلوں کے حل کی تلاش نہیں کریں گے تو دشواریوں سے مقابلہ مشکل تر ہوتا جائے گا۔ اس لیے آج اردو اور ہندی کے ادیبوں اور دانش وروں کو اور زیادہ سے زیادہ قریب ہونے، یک جا اور متّحد ہونے کی ضرورت پید اہو گئی ہے۔
Comments are closed.