ہمارا ہندوستان اور اس کے فضائل

شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کی ایک نابغۂ روزگار تحریر
مندرجہ ذیل امو ر کی بنا پر ممکن ہے کہ غیر مسلم ہندوستانی بہ آسانی ایک وطن سے منتقل ہوکر دوسرے وطن میں چلے جائیں ۔مگر مسلمانان ہندوستان کو یہاں سے منتقل ہونااز بس مشکل ہے۔ نہ وہ اپنی مساجد سے بیگانگی اختیا ر کرسکتے ہیں نہ اپنے مقابر سے نہ اپنی زمینوں سے اور نہ اپنے گھر بار اور نہ ان میں اس قدر استطاعت ہے ۔
ہندوستان کے باشندوں میں صرف مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ اس ملک کو اپنا قدیمی آبائی وطن کہیں اور وہ اس میں حق بجانب ہیں
ہندوستان کی بسنے والی قوموں میں صرف مسلمان ایسی اقوام قدیمہ میں سے ہیں جن کا مذہب اور عقیدہ یہ ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں ۔ اور انسانی نشو و نما فقط حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا ہے ۔یہی قرآن کی تعلیم ہے باقی اقوام ہندیہ اس کی قائل نہیں ہیں ۔اسلامی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان ہی میں اتارے گئے اور یہاں ہی انہوں نے سکونت کی اور یہاں ہی سے ان کی نسل دنیا میں پھیلی ۔ اور اسی وجہ سے انسانوں کو آدمی کہا جاتا ہے ،چنانچہ سبحۃ المرجان فی تاریخ ہندوستان میں متعدد روایات اس کے متعلق مذکور ہیں ۔ بائبل میں اس کے حصہ عہد قدیم میں یہی ذکر کیا گیا ہے ۔ تفسیر ابن کثیر جلد اول ص۸۰ میں ہے ۔’’ونزل آدم بالھند شجرۃ الطیب فانما اصل مایجاء بہ من الطیب من الھند من قبضۃ الورق التی ھبط بھا آدم و انما قبضھا آسفا علی الجنۃ حین اخرج منھا و قال عمر ان بن عینیۃ من عطاء بن السائب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال اھبط آدم بدحنا ارض الھند ۔الخ سبحۃ المرجان میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا یہاں پھیلنا اور کھیتی وغیرہ کرنا مذکور ہے ۔بنا بریں اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق آبائی وطن عہد قدیم سے ہندوستان مسلمانوں ہی کا ہوگا۔ جو لوگ انسانی اور اپنی نسل کو ایسا نہیں مانتے وہ اس دعوے کے مستحق نہیں ہیں اور مسلمانوں کے لیے اس کو اپنا وطن قدیم سمجھنا ضروری ہے ۔
بحیثیت مذہب بھی ہندوستان مسلمانوں کا ہی وطن ہے
حسب تعلیمات اسلامیہ اور تصریحات قرآنیہ جتنے پیغمبر اور ان کے جانشین دنیا میں ہوئے ہیں ۔ سب کا مذہب اسلام ہی تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد بھی اسلام کے پیرو تھے ۔’’وما کان النان الا امۃ واحدۃ ‘‘سورۃ یونس ع ۲’’کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ الآیۃ ‘‘سورہ بقرۃ ع ۲۶ اور اس کے بعد جب تفرقے ہوئے تو جہاں جہاں بھی انسانی نسلیں تھیں وہاں پیغمبر اور ان کے سچے جانشین بھیجے گئے ۔’’و لکل قوم ھاد‘‘سورہ رعد ع۲ ’’و ان من امۃ الا خلا فیھا ‘‘سورہ فاطر ع ۳۔ اور سچے پیغمبر اور ان کے سچے جانشین سب کے سب دین اسلام ہی رکھتے تھے ’’شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاالآیۃ ‘‘شوری ع ۲’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘وغیرہ آیات اور احادیث بکثرت اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں بھی قبل زمانہ خاتم النبیین حضرت محمد علیہ السلام انبیاء آئے ہوں چنانچہ اولیاء اللہ نے ہندوستان میں مختلف مقامات پر انبیاء علیہم السلام کی قبریں بطور کشف و الہام اور روحی ملاقات سے معلوم کی ہیں ۔حضرت مجدد الف ثانی اور مرزا مظہر جان جانان رحمۃ اللہ علیہما اور دیگر بزرگوں کی تصانیف میں اس کی تصریحات موجود ہیں ۔ مگر جس طرح عیسائیوں اور یہودیوں نے تحریف وغیرہ کرکے شرک اور کفر وغیرہ اختیار کرلیا اسی طرح ہندوئوں نے بھی اختیار کیا چنانچہ مرزا مظہر جان جانان رحمۃ الہ علیہ اس کی تفصیل اپنے بعض مکتوبات میں پوری طرح فرماتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ قدیم زمانہ سے یہ ملک بھی مذہب اسلام کا گہوارہ رہا ہے ۔ لہٰذا صحیح اور یقینا صحیح ہے کہ بحیثیت مذہب ابتداء سے ہی یہ ملک اسلام کا وطن ہے ۔
بحیثیت سکونت جسمانی بھی ہندوستان مسلمانوں ہی کا وطن ہے
مسلمانوں کے سواء جو قومیں ہندوستان میں سکونت پذیر چلی آتی ہیں ۔وہ عموماًاپنے مُردوں کو جلا ڈالتی ہیں اور ان کی راکھ کو دریا میں بہا دیتی ہیں ۔ یا پارسی اپنے مُردوں کو پرندوں کوکھلا دیتے ہیں ۔ بخلاف مسلمانوں کے کہ وہ اپنے مُردوں کو زمین میں دفن کرتے ہیں ۔اس لئے مسلمانوں کی سکونت جسمانی اس زمین میں زندگی میں بھی مثل دیگر اقوام رہی اور مرنے کے بعد بھی ان کی سکونت یہاں ہی رہی ۔ ان کی قبریں محفوظ رکھی جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قیامت میں ان ہی قبروں سے ان کے مُردے اٹھیں گے ۔اور جو اجزاء جسم کے قبر میں مٹی ہوگئے تھے ۔انہیں اجزاء سے ان کا جسم پھر بنایا جائیگا ۔لہٰذا مسلمانوں کی سکونت جسمانی اس سر زمین میں قیامت تک کے لئے ہے ۔ بخلاف دوسری جلا نیوالی یا پرندوں کو کھلا نیوالی قوموں کے کہ ان کی سکونت جسمانی صرف دنیاوی زندگی تک کے لئے ہے اور بس اسی وجہ سے ان کے اسلاف کا کوئی نام و نشان کسی جگہ پایا نہیں جاتا ۔ اور مسلمانوں کے قبرستان ،روضے،قبے،زیارتگاہیں وغیرہ وغیرہ ہر جگہ موجود ہیں اور مسلمان ان کی حفاظت اور عظمت ضروری سمجھتے ہیں ۔
بحیثیت تعلقات روحانی ہندوستان مسلمانوں ہی کا وطن ہے
غیر مسلموں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد روحیں تناسخ (آواگون) کے ذریعہ سے جزاء اور سزا بھگتتی ہیں اس لئے وہ کسی دوسرے جون (قالب )ڈال دی جاتی ہیں ۔ خواہ وہ انسانی ہو (اگر عمل اچھے تھے)خواہ وہ حیوانی یا نباتی یا حشرات الارض وغیرہ ک اہو ۔(اگر عمل خراب تھے) پھر انسانی اگر بنایا گیا تو کوئی خصوصیت نہیں کہ وہ ہندوستان ہی میں پھر پیدا ہو ۔ افریقہ ،امریکہ،یورپ،آسٹریلیا وغیرہ جہاں بھی پرماتما چاہے اس کو اس کے عمل کے مناسب بھیج دے ۔ غرض کہ مرنے کے ساتھ ہی اُس کی روح کا تعلق جسم اور اس کے اجزاء سے بھی بالکلیہ منقطع ہوجاتا ہے ۔ نیز اس کے گائوں ’شہر‘دیس ‘جاتی‘وغیرہ سب سے منقطع ہوجاتا ہے ۔ بخلاف مسلمانوں کے کہ وہ تناسخ کے قائل نہیں ہیں ۔ اُن کے نزدیک روح کا تعلق جسم انسانی کے ساتھ صرف ایک دفعہ ہوتا ہے ۔ موت کے بعد وہ برزخ میں محفوظ کردی جاتی ہے اور اپنے اعمال کی سزا اور جزاء کا کچھ حصہ وہاں بھی حاصل کرتی رہتی ہے۔اُس کا نہایت ضعیف تعلق اپنے بدن اور اس کے اجزاء اور اپنی قبر‘وطن‘برادری‘اولاد وغیرہ سے رہتا ہے ۔یہ تعلق اگر چہ ایک درجہ میں نہیں ہوتا مگر تا ہم کسی نہ کسی درجہ میں تفاوت کے ساتھ باقی رہتا ہے او راسی تعلق سے قیامت میں یہ روح اس قبر پر پہنچے گی اور اُس کے اجزاء سابقہ کا جسم بنے گا اور وہ اس میں حلول کرکے پھر زندگی جسمانی حاصل کرے گی ۔ جس طرح ہم اگر دنیا میں اپنے گھر اور اہل و عیال کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جاتے ہیں تو ہمارا تعلق اپنوں اور اپنے گھروں اور بستیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ رہتا ہے ۔ ایسا ہی یا اس سے زاید تعلق مرنے کے بعد روحوں کو بھی سب سے رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے اور اصحاب قبور کو سلام کرنے اور ان کو دعا اور ایصال ثواب وغیرہ کرنے کا حکم ہوا۔نیز حکم ہوا کہ لوگ اپنے اسلاف اور عام مومنین کی قبروں کی زیارت کرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی پر عبرت کے آنسو بہائیں اور گذرے ہوئے لوگوں کے یے دعائیں کریں ۔ یہ چیز اُن مرگھٹوں میں کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ جہاں کی باقی ماندہ راکھ کو بھی دریا بہا کر لے گئے اور سمندروں کے نذر کر چکے ۔ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب رحمۃا للہ علیہ تفسیر عزیزی پارہ عم صفحہ ۵۰ پر فرماتے ہیں ’’نیز در سوختن بآتش تفریق اجزائے بدن میت است کہ بسبب آن علاقہ ٔ روح از بدن انقطاع کلی می پذیر دو آثار این عالم بآن روح کمتر میرسد و کیفیات آن روح باین عالم کمتر سرایت می کند و در دفن کردن چون اجزائے بدن بتمامہ یکجا می باشند علاقۂ روح با بدن از راہ نظر عنایت بحال میماند و توجہ روح بزائرین مستانسین و مستفیدین بسہولت می شود کہ بسبب تعین مکان بدن گو یا مکان روح ہم متعین ست و آثار این عالم از صدقات و فاتحہ ہاو تلاوت قرآن مجید چون دران بقعہ کہ مدفن بدن اوست واقع شود بسہولت نافع می شود پس سوختن گویا روح رابے مکان کردن سب و دفن کردن گویا مسکنے برائے روح ساختن ۔ بنا بر این است کہ از اولیاء مدفونین و دیگر صلحائے مومنین انتفاع و استفادہ جاری ست و آنہارا افادہ و اعانت نیز متصور بخلاف مردہ ہائے سوختہ کہ این چیز ہا اصلاً نسبت بآنہا در اہل مذۃب آنہا نیز واقع نیست بالجملہ طریق قبر و دفن نعمتے است عظیم در حق آدمی ‘‘۔
خلاصہ یہ کہ قبر روحوں اور اہل دنیا کے لیے ریڈیو اور آلۂ مکبر الصوت (لائوڈ اسپیکر)کے صندوق اور تار ہوائی لاسلکی اور ٹیلیگراف اور ٹیلیفون کے آفس کی طرح ہے ۔ جس میں ایک درجہ تعلق ہر دو طرف سے رہتا ہے اور اس تعلق ہی کی وجہ سے افادہ اور استفادہ ہوتا رہتا ہے ۔ اگر چہ وہ تعلق دنیاوی تعلق سے بہت کمزور بھی ہے اور ممکن ہے کہ بعض وجوہ سے قوی بھی ہو ۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کر مرنے کے بعد بھی اس ملک اور کی زمینوں کے ساتھ روحانی تعلق اس قدر قوی اور باقی رہتا ہے کہ دوسری قوموں اور مذاہب میں نہیں ہایا جاتا ۔ اور وہ قومیں اپنی مذہبی حیثیت سے اس کی قائل بھی نہیں ہیں ۔ لہٰذا یقیناً مسلمانوں کو ہی حق ہے کہ وہ ہندوستان کو اپنا وطن اور سب سے زیادہ اپنا وطن سمجھیں ۔
بحیثیت انتفاع اور احتیاج بجانب اجزاء و طن بھی ہندوستان مسلمانوں ہی کا وطن ہے
اسلامی تعلیم اور عقائد کی حیثیت سے ایک وقت آنے والا ہے جبکہ تمام انسان پھر زندہ کئے جائیں گے اور ان کے اجسام کے جو اجزاء متفرق ہو کر مٹی وغیرہ میں مل گئے تھے جمع کئے جائیں گے اور جسم بن کر اُسی روح کو اس میں داخؒ کیا جائیگا اور اس جسم کے ساتھ وہ محشر میں اور جنت میں جائیں گے ۔ اس لئے وہ وطن جس میں وہ پرورش پاتے تھے ۔ جیسے کہ دنیاوی زندگی نفع اٹھانے اور ہر قسم کی حاجتوں کا مرکز تھا ۔ مرنے کے بعد بھی ایک درجہ تک نفع اٹھانے اور احتیاج کا مرکز رہیگا اور اس کی اس مٹی سے جو کہ بعد از دفن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قبرستان میں دوسری مٹی سے مل گئی تھی نفع اٹھائے گا ۔ بخلاف دوسرے باشندگان ہند کے کے کہ وہ ایسا اعتقاد نہیں رکھتے اُن کے اعتقاد میں ان کی روحیں دوسری مٹی سے بنے ہوئے جسموں میں داخل ہوکر اُن جسموں سے تعلق قائم کرتی ہیں اور اُن کی پرورش میں سر گرم ہوکر پہلے اجزاء جسمانیہ سے بالکل بیگانہ ہوجاتی ہیں کبھی ہندوستان میں ہیں کبھی چین میں کبھی جاپان میں کبھی انگلینڈ میں کبھی فرانس میں کبھی انسان ہیں کبھی حیوان ہیں
وفا داری مجو از بلبلان چشم کہ ہر دم بر گلے دیگر سرایت
جس طرح ہندوستان کے دوسرے باشندے بہ حیثیت سکونت وانتفاع ملک وزمین ہندوستانی ہیں اسی طرح مسلمان بھی ہیں
جس طرح آرین ستہین یونانی، مصری ،منگول وغیرہ قومیں ہندوستان میں آکر بسیں اور انہوں نے یہاں کھیتیاں کیں، باغ لگائے ،مکان بنائے، بودوباش اختیار کی۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی یہاں پہونچکر یہ اعمال وطنیہ اختیار کرے۔ کسی کو ہزار برس کسی کو نو سو ،کسی کو آٹھ سوبرس یا کم وبیش ہوگئے۔ پشتہا پشت یہاں گزر گئیں اس لیئے دنیاوی زندگی اور اس کے لوازم کی حیثیت سے مسلمان کسی قوم سے پیچھے نہیں ہیں ۔بالخصوص وہ اقوام جو کہ پہلے سے بھی ہندوستان کی باشندہ ہیں ۔مذ ہب اسلام کی حقانیت دیکھ کر پہلے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کی حلقہ بگوش ہوئی ہیں ۔اور وہی عنصر آج مسلمانان ہند میں غالب ہے۔ لہذا کسی دوسری قوم کو حق نہیں ہے کہ وہ آج یہ دعویٰ کرے کہ ہندوستان مسلمانوں کا وطن نہیں ہے صرف ہمارا وطن ہے۔ ہندوستان کی بہبود میں جس طرح دوسری قوموں کی بہبودی ہے۔ اسی طرح مسلمانان ہند کی بھی بہبودی ہے۔ لہذا یقینا اس حیثیت سے بھی ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ وطن عزیز اور پیارا ہے۔ نہ مسلمان اس کو چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ جاسکتے ہیں نہ جائیں گے اور نہ کوئی دوسرا وطن ان کو اپنے آغوش میں لے سکتا ہے۔ نوکروڑ مسلمانوں کو یہاں ہی رہنا اور یہاں ہی اپنی نسل اور طریقہ کو پھیلانا اور امن وامان کی زندگی چلانا ہے۔ رہا یہ امر کہ پھر مسلمان دوسرے ملکوں کے مسلمانوں سے کیوں تعلقات رکھتے ہیں اور ان کی مصیبتوں پر بلبلا اٹھتے ہیں تویہ اس روحانی تعلق کی بنا پر ہے جو کہ اتحاد ازم اور توافق مذہب کی بنا پر دوسری جگہ کے مسلمانوں سے پیدا ہوا ہے اور جس کی تعلیم بھی روحانی ترقی کرتی ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسری قوموں کو سائوتھ افریقہ ،فیجی،مارشیس ،ایسٹ افریقہ وغیرہ کے ان ہندوستانیوں سے ہوتا ہے جو کہ ان ملکوں میں بودوباش کئے ہوئے ہیں۔ اگر وہاں پر کسی قسم کے مظالم ان ہندوستانیوں پر ہوتے ہیں تو ہندوستان کی بسنے والی قوموں میں بے کلی پیدا ہوجاتی ہیں ۔یہ امر مسلمانان ہند کو ہندوستانی وطنیت اور اس سے پیار ومحبت سے بیگانہ نہیں بناتا ۔
Comments are closed.