Baseerat Online News Portal

چٹ منگنی پٹ بیاہ

فہیم اختر۔لندن
24مارچ کی صبح جب آنکھ کھلی تو اس خبر کو سوشل میڈیا پر دیکھ کرحیرانی ہوئی کہ اچانک ایسا کیا ہواکہ ہندوستان کے ایک اہم اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو ہتک عزت کے ایک مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائے جانے کے ایک دن بعد پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔جس کے بعد جمہوریت کے حامیوںکو تشویش ہونے لگی کہ آخر راہل گاندھی نے ایسا کیا جرم کر دیا کہ انہیں پارلیمنٹ سے ہی نا اہل قرار کر دیا گیا۔

پوری خبر پڑھنے کے بعد میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اس سے قبل بھی متعدد ممبران پارلیمنٹ جنہوںنے مسجد کو شہید کرنے سے لے کر معصوم عورتوں کی عصمت دری، گھوٹالہ اور نہ جانے کیسے کیسے جرم کئے ہیں ،جن میں ملوث بیشترسیاستدانوں کو نہ تو کوئی سزا ملی اور نہ ہی انہیںپارلیمنٹ سے نکالا گیا۔ پھر راہل گاندھی نے آخر کون سا جرم کردیا کہ ان کے خلاف "چٹ منگنی پٹ بیاہ "والی بات کی طرح کاروائی کی گئی۔

ہندوستانی پارلیمنٹ کی طرف سے جمعہ کو ایوان زیریں کا حوالہ دیتے ہوئے جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا کہ "راہل گاندھی ،اپنی سزا کی تاریخ سے لوک سبھا کے رکن کے لیے نااہل ہیں”۔دراصل اس معاملے میں 52سالہ راہل گاندھی کو 2019کے عام انتخابات سے قبل ان کی تقریر سے متعلق ایک معاملے میں قصور پایا گیا تھا ۔ جس میں انہوں نے چوروں کو مودی بطورخاندانی نام یا عرفیت رکھنے کا حوالہ دیا تھا۔ 23مارچ کا عدالتی فیصلہ 2019کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے ایک تبصرے سے نکلا ہے جس میں راہل گاندھی نے پوچھا تھا کہ
” کیوں تمام چوروں کے سر نام، خاندانی نام یا عرفیت مودی ہے”۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ راہل گاندھی کا اشارہ دراصل ایک مفرور ڈائمنڈ ٹائکون نیرو مودی اور للت مودی کی طرف تھا جو کہ انڈین پریمئیر لیگ کے سابق سربراہ تھے جن پر ملک کے کرکٹ بورڈ نے تاحیات پابندی عائد کر رکھی ہے۔اب ظاہر سی بات ہے کہ راہل گاندھی کی یہ بات تو ہندوستانی وزیراعظم مودی کے دل پر سیدھے سیدھے لگی اور پھر کیا تھا ان کے بھکتوں نے سیدھے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور شایدجج حضرات کو رام کی دہائی دلاتے ہوئے کہا ہوگا کہ بس آپ فیصلہ دے ڈالیں تاکہ نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری۔

ہندوستانی حکومت کے ارکان نے کہا کہ یہ تبصرہ ان تمام لوگوں کے خلاف ایک داغ ہے جو مودی ،سر نام،خاندانی نام یا عرفیت کا اشتراک کرتے ہیں۔ جو ہندوستان کے پیچیدہ ذات پات کے درجہ بندی کے نچلے حصوں سے وابستہ ہے۔تاہم راہل گاندھی کا استدلال ہے کہ انہوں نے یہ تبصرہ بدعنوانی کو اجاگر کرنے کے لیے مودی نام کے لوگوں کے لئے کیا تھا اور یہ کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں تھا۔

جب سے راہل گاندھی برطانیہ کا دورہ کر کے ہندوستان لوٹے ہیں تب سے پارلیمنٹ کے باہر اور اندر ان کے برطانیہ دورہ کو لے کر ہنگامہ ہی ہنگامہ چل رہا ہے۔ٹیلی ویژن سے لے کر سوشل میڈیا پر راہل گاندھی کے برطانیہ دورے اور ان کی تقاریر سے کہیںان کی حمایت میں بات ہورہی ہے تو کہیں راہل گاندھی کو ملک کا غدار کہا جارہاہے۔دراصل راہل گاندھی نے بات ہی ایسی کی جس سے حکمراں جماعت کی نیند اُڑ گئی۔کچھ ہفتے قبل راہل گاندھی نے برطانیہ دورے کے دوران پیلس آف ویسٹ منسٹر کے گرینڈ کمیٹی روم میں انڈو۔برٹش آل پارٹی پارلیمانی گروپ اور کیمبرج یونیورسٹی طلبا اور اسکالرزکے سامنے ہندوستانی جمہوریت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بی جے پی پارٹی ہندوستان کودنیا میں کیسے ترقی کرنی چاہئے ،اس کے دو مختلف رخ پیش کئے ہیں۔جب ہم بھارت جوڑو واک کر رہے تھے تو ہم نے لوگوں سے بنیادی طور پر چار چیزیں ،بے روزگاری ، قیمتوں میں اضافہ ، عدم مساوات اور خواتین کے خلاف تشدد جیسی بات سنی تھیں۔راہل گاندھی نے مزید کہا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ موجودہ حکومت ملک کے جمہوری ڈھانچے کو ختم کر رہی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی کی دو میعادوں کے بعد ہندوستانی جمہوریت کی رفتار مزید غیر یقینی ہے، کیونکہ اہم جمہوری اداروں نے خود کو کمزور ثابت کیا ہے۔ مخالفین اور تنقیدی صحافیوں کو ہراساں کیا گیا ہے، ان پر مقدمہ چلا گیا ہے ، ٹیکس کی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی گئی ہیں اور تنقیدی آوازوں کو محدود کرتے ہوئے انہیں نگرانی میں رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین زیادہ مبہم ہو گئے ہیں ۔ جس سے کسی افراد کے لیے لامحدود گمنام عطیات دینا آسان ہوگیا ہے جس سے انتخابات کی سالمیت کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن سب سے فکر انگیز بات یہ ہے کہ مذہبی تقسم اور ناراضگی شدت اختیار کر گئی ہے، جو کہ مذہبی آزادی بے آئینی حق کو چیلینج کر رہی ہے اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

لیکن یہ سوچنا غلط ہوگا کہ ہندوستان میں صرف مسلمانوں کو ہی خطرہ ہے۔ موجودہ حکومت نے منظم طریقے سے ہر طرح کی آزادی اظہار رائے اور اختلاف رائے کے خلاف بلا وجہ کاروائی کی ہے۔جو کہ” فریڈم آف اسپیچ” پر ایک بڑا حملہ ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو یہ صرف مسلمانوں پر ہی حملہ نہیں ہے بلکہ یہ تمام ہندوستانیوں پر حملہ ہے ۔کیونکہ یہ ہمیں خیالات، دماغ اور ارمانوں سے بھرپور زندگی سے محروم کردیتا ہے۔

جمہوریت ایک ایسا طریقۂ کار ہے جس میں ہر انسان کو اپنے طور پر ملک کی حکمرانی کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔جمہوریت کے ذریعہ عام انسان حکومت کرنے کا حق دار ہوتا ہے۔ اس طرز حکمرانی میں عوامی نمائندے تمام فیصلے کرتے ہیں۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانوی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘۔ جبکہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا جمہوریت کے بارے میں قول ہے کہ’عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئیـ‘۔میں جمہوریت کو ایک مضبوط اور عام آدمی کے بنیادی حق اور آزادنہ طور پر جینے کا ایک عمدہ ذریعہ مانتا ہوں۔ تاہم آج کل جمہوریت کے اس طرزِ حکمرانی کو جھوٹ، غبن، اور ذاتی مفاد کے مدّ نظر تار تار کیا جارہا ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے جمہوریت مجرموں کو پناہ دے رہی ہے ۔جو کہ ایک تشویش اور افسوس ناک بات ہے۔

وہیں”فریڈم آف اسپِچ "ایک ایسی” پاور فل” بات ہے جس سے دنیا بھر کے لوگوں میں اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی ہے۔ چاہے بندہ مغرب کا ہو یا مشرق کا ہو۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فرڈم آف اسپِچ کی وجہ سے لوگوںکا اعتماد کافی بڑھا ہے تو وہیں آئے دن اس پر ایک اوربحث بھی چھڑی ہوئی ہے۔کیونکہ فریڈم آف اسپِچ کا کوئی دائرہ حدود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے آئے دن کسی نہ کسی فرد کے خلاف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں یا کبھی کبھی ان پرجان لیوا حملہ بھی ہوتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تحت آزادی اظہار یہ حق ہے کہ آپ جو چاہیں جس کے بارے میں چاہیں ، جب چاہے ، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط کہہ سکتے ہیں۔ آزادی اظہار ہر طرح کی معلومات اور خیالات کو تلاش کرنے ، حاصل کرنے اور فراہم کرنے کا حق ہے۔ آزادی اظہار اور آزادی اظہار کا حق ہر قسم کے خیالات پر لاگو ہوتا ہے۔ تاہم بعض حالات میں آزادی اظہار اور اظہار رائے پرپابندی لگائی جاسکتی ہے۔

راہل گاندھی کی سزا اور پارلیمنٹ سے نااہل قرار دینا ،کہیں نہ کہیں ایسا لگ رہا کہ یہ پورا معاملہ” چٹ منگنی پٹ بیاہ” کا ہے۔ یعنی کے اسکرپٹ لکھا ہوا تھا او ر عدالت سے لے کرپارلیمنٹ نے اپنے اپنے طور پر اپنا کام انجام دے دئیے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ایک وجہ راہل گاندھی کا حالیہ دورہ برطانیہ تھا،جہاں انہوں نے ہندوستانی جمہوریت پر تشویش جتایاتھا ۔ اب کوئی کچھ کہے، شک تو مجھے بھی پدھارمنتری مودی پر ہی ہورہا ہے جن کے اشارے پر یہ سب ہورہا ہے۔

[email protected]
www.fahimakhter.com

Comments are closed.