Baseerat Online News Portal

رمضان،غم خواری کا مہینہ

مولانا قاری محمد سلما ن عثمانی
رمضان وہ مقدس مہینہ ہے جس کو سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور فوقیت حاصل ہے۔ اس میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے‘ ہر نیکی کا ثواب ستر گنا ہوجاتا ہے۔ دعا کی قبولیت بڑھ جاتی ہے اس ماہ میں اللہ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ بہت سے جہنمیوں کو آزاد کرتے ہیں جن پر دوزخ واجب ہو چکی ہوتی ہے‘ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے‘ جس میں ہدایت کی اور نیک و بد کی تمیز کی گئی‘ یہ رحمت مغفرت جہنم سے نجات اور اللہ کی قرب حاصل کرنے کا خاص مہینہ ہے۔رمضان کو سلامتی اور بہترین کمائی کے ساتھ گزرنے کے لیے سب سے پہلے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے ’’نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اس سے اللہ کے خوف سے بچا رہا تو اللہ اسے ایسا ایمان نصیب فرماتے ہیں جس کی حلاوت و لذت وہ قلب میں محسوس کرے گا۔‘‘ دوسری چیز زبان کی حفاظت ہے۔ جھوٹ‘ چغل خوری‘ لغویات‘ غیبت‘ عیب جوئی‘ بدگوئی‘ بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب اس میں داخل ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے ’’روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے‘‘ اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ زبان سے فحش یا جہالت کی بات نہ کرے۔ کسی کا مذاق نہ اڑائے اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرے۔ اگر کوئی دوسرا کرنے لگے تو کہے کہ میرا روزہ ہے۔ اگر وہ بے وقوف اور ناسمجھ ہے تو خود کو سمجھائے کہ تیرا روزہ ہے‘ تجھے ایسی بات کا جواب دینا مناسب نہیں‘ غیبت اور جھوٹ سے تو بہت ہی پرہیز کرے۔تیسری چیز کان کی حفاظت ہے۔ ہر مکروہ چیز سے جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے ان کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بقیہ اعضا کو بھی ہر طرح کے غلط کاموں سے بچانا ضروری ہے۔رمضان میں صرف دن میں روزہ اور رات کو تراویح نہیں پڑھتی جاتی بلکہ درحقیقت یہ مہینہ مسلمانوں کی سالانہ تطہیر‘ تزکیہ نفس کا مہینہ ہے‘ کوئی بھی مشین ہو یا گاڑی ہو کچھ عرصے کے استعمال سے اس میں میل کچیل آنے لگتا ہے‘ ہماری زندگی کی مشینری گیارہ مہینے کی مصروفیات می میل کچیل کا شکار ہو جاتی ہے اور زنگ آلود ہونے لگتی ہے اللہ نے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا تاکہ ہم اپنے گناہوں کے میل کچیل کو صاف کرلیں۔ صرف ڈھائی فیصد سالانہ غربا‘ مساکین‘ مسافروں اور ضرورت مندوں کو فراخ دلی اور خوش دلی سے ادائیگی۔ یہ ساری عبادات روحانی ترقی اور تعلق خداوندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ بے دلی سے کی ہوئی عبادات کا اجر و ثواب کم ہوتا ہے۔ ہم سال کے گیارہ مہینے اسی کیفیت میں گزارتے ہیں۔رمضان کو قرآن سے ایک خاص نسبت ہے اللہ ے نزولِ قرآن کے لیے اس مہینے کو منتخب فرمایا۔ آپؐ حضرت جبریل سے رمضان میں قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے اس لیے تلاوت قرآن اس ماہ میں کثرت سے کرنا سنت سے ثابت ہے۔ رمضان سے پہلے گناہ کے دو محرک ہوتے ہیں نفس اور شیطان۔ رمضان میں شیطان کا محرک اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا اب صرف نفس کا محرک رہ گیا ہے اور ایک دشمن سے مقابلہ آسان ہوتا ہے۔ جس کا رمضان خیریت سے بغیر گناہ کے گزر گیا اس کا پورا سال ان شاء اللہ خیریت سے گزر جائے گا۔روزہ اللہ کے لیے ہے اور اس کا اجر وہی دے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بُو بھی مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔ روزہ بروز قیامت سر محشر انسان کی بخشش کے لیے اللہ کے ہاں سفارش کرے گا۔ روزے دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک خوشی تو افطار کے وقت دوری خوشی اس وت ملے گی جب انسان اپنے رب سے ملے گا۔اس ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ اللہ کی خصوصی رحمتوں کا ہوتا ہے‘ دوسرا عشرہ خاص طور پر بخشش اور مغفرت کا ہوتا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی اور خلاصی کا ہوتا ہے۔رمضان المبارک میں دعا استغفار ذکر الٰہی درود شریف کی کثرت کریں۔ چلتے پھرتے اپنی زبان کو ان کلمات کا عادی بنا لیں۔ صدقہ‘ خیرات اور زکوٰۃ دل کھول کر ادا کریں۔ کم وقت میں زیادہ نیکیاں کمائیں۔ امربالمعروف نہی عن المنکر پر عمل کریں۔ رمضان کے ہر لمحے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔ روزہ تقویٰ کے نفاذ کا ذریعہ ہے‘ دنیا اور آخرت میں سکون اور عافیت کا آسان ترین ذریعہ ہے۔ تلاوت قرآن کثرت سے کرنا چاہیے کیونکہ نزول قرآن اسی مبارکہ اور بابرکت مہینے میں ہوا۔ قرآن اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔ جس شخص نے صرف ایک دن کا اعتکاف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا اللہ اس کے اور دوزخ کی آگ کے درمیان تین خندق کا فاصلہ حائل کر دیتے ہیں۔ اس فاصلے کی مقدار مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے جتنی ہے۔اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر کا نزول ہوتا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی امت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میںسے ایک عظیم عنایت اور رحمت ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جب شب ِ قدر آتی ہے تو جبریلؑ فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر وہ بندہ جو کھڑا یا بیٹھا ہوا اللہ کا ذکر کر رہا ہو بلکہ کسی بھی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو اس کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے ہیں۔ اگر کسی خوش نصیب کو زندگی بھر میں صرف دس راتیں ہی گزارنے کی توفیق مل جائے تو گیا اس نے آٹھ سو تینتیس سال چار ماہ سے زیاہ کامل عبادت میں گزرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔رمضان گزرنے کے بعد لیلۃ القدر یعنی پہلی شوال کو عبادت کو متعین قرار دیا گیا ہے کیوں کہ مزدور نے جو مہینہ بھر مزدوری کی ہے اللہ اس کی مزدوری بخشش اور مغفرت کی صورت میں دیتا ہے اس لیے اس رات کو فضول کاموں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے معبود کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے عبادت کی توفیق عطا فرمائی اور انعامات سے نوازا۔اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی صحیح طور پر قدر دانی کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

Comments are closed.