Baseerat Online News Portal

روزہ رکھنے کے روحانی، جسمانی اور اخلاقی فائدے

از: مولانا آفتاب اظہرؔ صدیقی
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں اخروی فوائد کے ساتھ بے شمار دنیوی فوائد بھی موجود ہیں، روزہ کے روحانی فوائد میں یہ ہے کہ روزہ دار کی روحانی کیفیت بدل جاتی ہے اور اس کو نیکیوں میں من لگنے لگتا ہے اور گناہوں کی طرف طبیعت جلد مائل نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح کی سکت نہ رکھنے والوں کو روزہ کے ذریعے اپنے نفس پر کنٹرول کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ روزہ رکھنے سے نفسانی خواہشات میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور آدمی کے لیے شہوت پرستی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ روزہ دار کو منفی خیالات بھی کم آتے ہیں، اس لیے کہ بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے اس کے نفس کو ابھارنے والی قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں اور اس طرح اس کا ذہن بھی گناہوں کے بارے میں سوچنا کم کردیتا ہے اور پھر نیکیوں کی کثرت اس کی روح کو پاکیزہ بنا دیتی ہے۔ روزہ دلوں میں پڑے ہوئے زنگ کو صاف کرتا ہے اور جس کا دل صاف ہو اس کے لیے نیکی کی طرف قدم بڑھانا آسان ہوجاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر کالا نشان پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا کالا نشان پڑ جاتا ہے، یہاں تک کہ گناہ کرتے کرتے اس کا پورا دل کالا سیاہ ہوجاتا ہے، پھر اس پر حق بات اثر کرنا بند کردیتی ہے؛ لیکن روزہ دار جب بھوکا پیاسا رہ کر گناہوں سے بچتا ہے اور اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوتی ہے اور اس طرح اس کے لیے نیکیوں کی طرف آنا سہل ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ روزہ دار کی روحانی کیفیت غیر روزہ دار کی روحانی کیفیت سے جدا ہوتی ہے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی روح کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔
روزہ کے جسمانی فوائد میں یہ ہے کہ روزہ دار بے شمار بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے؛ کم کھانے اور کم سونے کے نتیجے میں اس کے جسم کے بہت سے جراثیم اور کٹانو مرکر ختم ہوجاتے ہیں،روزہ دار اسکن اور چمڑے کی بہت سی بیماریوں سے بچ جاتا ہے، روزہ دار کا نظام ہاضمہ درست ہوجاتا ہے اور پیٹ کی بہت سی بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں، اطباء کے نزدیک پیٹ کا نظام درست نہ رہنا بیماریوں کی جڑ ہے؛ لہذا اگر کسی کا پیٹ اور نظام ہاضمہ درست ہو تو وہ نوے فیصد بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ کسی برتن کا بھرنا پیٹ کے بھرنے سے برا نہیں ہے، یعنی بالکل پیٹ بھر کر کھانا پسندیدہ عمل نہیں ہے، ظاہر ہے کہ جب پیٹ بھر کر کھانے سے بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں، تو پیٹ کو خالی رکھنے اور بھوکا رہنے سے بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ روزہ پھیپھڑوں کو آرام دیتا ہے اور اس سے پھیپھڑوں میں جما ہوا خون بھی صاف ہوجاتا ہے۔روزہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کم کرتا ہے، روزہ بدن کی اضافی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق روزہ آنکھوں کی روشنی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔میرا ماننا ہے کہ جو شخص رمضان کے پورے مہینے کے روزے رکھے اور ہر مہینے میں تین نفل روزے رکھنے کا معمول بنالے تو وہ بے شمار بڑی چھوٹی بیماریوں سے محفوظ رہے گا ان شاء اللہ!
روزہ رکھنے سے انسان کے اخلاق میں بھی بدلاؤ آتا ہے، روزہ کے اخلاقی فوائد میں یہ ہے کہ روزہ دار میں صبر و استقامت کی صفت پیدا ہوتی ہے، روزہ دار کے سامنے کھانے پینے کی اشیاء موجود ہوتی ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے نفس پر قابو رکھ کر اللہ کے لیے کھانے پینے کی چیزوں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا اور یہ مشق پورے مہینے جاری رہتی ہے جس سے روزہ دار میں صبر و استقامت کی اخلاقی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح روزہ سے اللہ پاک کی نعمتوں کی قدر کا احساس بھی ہوتا ہے، یہ کھانے پینے کی جتنی چیزیں ہیں، جتنے پھل اور میوے ہیں، ان کو پیدا کرنے والا اللہ ہے؛ لیکن جب ہمیں یہ نعمتیں آسانی سے مل جاتی ہیں تو ہمیں ان کی قدر نہیں ہوتی اور کتنے ہی لوگ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتے؛ لیکن ایک روزہ دار جب دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اسے کھانے پینے کی چیزوں اور اللہ کی نعمتوں کی قدر کا پتا چلتا ہے اور اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمارے لیے کتنی ساری نعمتیں پیدا کی ہیں جنہیں ہم بغیر کچھ سوچے سمجھے بلا تکلف کھاتے ہیں اور ان کے ذائقے لیتے ہیں۔ روزہ سے انسانیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے، جب آدمی دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اسے غربا و مساکین کی بھوک اور تکلیف کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے، گویا یہ سبق ہے کہ بھوکوں کا خیال رکھا جائے، پیاسوں کو پانی دیا جائے، جیسے ہم پورے سال اللہ کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں اسی طرح ہمیں بھوکے اور تنگ دست لوگوں کی بھوک پیاس کا بھی خیال رکھنا چاہیے، بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو پانی پلانا خوش حال لوگوں پران کا حق ہے۔جب آدمی روزہ رکھ کر دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر غریبوں کے تئیں ہمدردی جاگتی ہے اور وہ غربا و مساکین کو عام دنوں میں بھوک اور فاقہ کشی سے بچانے کے لیے ان کی مدد اور نصرت کے لیے خود کو تیار کرتا ہے۔
اسی طرح روزہ رکھنے سے آدمی کی اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے، اس لیے کہ جب ایک آدمی دن بھر روزہ رکھ کر اپنے آپ کو گالی گلوج، غیبت، چغلی اور دوسروں کی برائی کرنے سے روکے رکھتا ہے، سب سے نرمی کے ساتھ گفتگو کرتا اور تہذیب سے پیش آتا ہے تو ایک مہینے کی یہ مشق اسے ایک بااخلاق انسان بنادیتی ہے اور وہ غیر رمضان میں بھی جھوٹ، غیبت، بہتان بازی، لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد سے دور رہنے کی اخلاقی تربیت حاصل کرلیتا ہے۔

Comments are closed.