ارتداد سے بچیوں کو کیسے بچائیں

مجیب الرحمٰن سلطانی ثقافی
سکونت ڈنڈئ گڑھوا جھارکھنڈ
متعلم جامعۃ المرکز الثقافۃ السنیۃ الاسلامیۃکیرلا الھند
یہ بات کسی دانشمند سے مخفی نہیں کہ ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں وہ ایک بہت ہی مہلک دور ہے یہاں ہر دن کوئی نہ کوئی فتنہ ضرور جنم لیتا ہے چہار جانب اسی کی افراتفری ہے کہیں لوگ اسلام کی اچھائیوں کو جان کر دین صادق سے منسلک ہورہے ہیں تو کہیں مغربی تہذیب و تمدن کے فروغ سے اسلام کے شہزادے اور شہزادیاں اسلام سے بیزاری کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں جتنی دنیا ترقی کی طرف گامزن ہوئ اتنی ہی فتنوں کو بھی جنم دی ان فتنوں میں سے ایک ارتداد بھی ہے جو مسلم معاشرے میں طاعون کی طرح پھیل گیا ہے اور اپنی چپیٹ میں دھیرے دھیرے لے رہا ہے اور اس کی زد میں آنے والے اکثریت لڑکیوں کی ہے۔
ارتداد کیا ہے ؟
ارتداد کا لغوی معنی ہے ،’’التراجع‘‘ يعنی لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا،پھرنا، تو ارتداد عن الدین کے معنی ہوےالتخلي ، الرجوع عنه۔۔۔ بے دین ہونا ،دین سے پھرنا، دین سے پلٹنا۔
مرتد کی اصطلاحی تعریف :
مرتد وہ شخص ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد کسی ایسے امر کا انکار کرے جو ضروریات دین سے ہو یعنی زبان سے ایسا صریح کلمہ کفر بکے جس میں تاویل صحیح کی گنجائش نہ ہو، یونہی بعض افعال بھی ایسے ہوتے ہیں جن سے کافر ہو جاتا ہے۔مثلا بت کو سجدہ کرنا، مصحف شریف کو نجاست کی جگہ پھینک دینا۔(در مختار، ج 6، ص 344، کتاب الجھاد، باب المرتد )
یعنی اسلام کا کلمہ پڑھ کر جو مسلمان ہو جائے اور اسکے بعد کلمہ کفر کہے یا فعل کفر کرے اور اس پر قائم رہے۔ایسے شخص کو مرتد کہتے ہیں۔
یونہی کوئ شخص بطور مزاق کفریہ کلمہ زبان سے بکے یا کفریہ فعل کا ارتکاب کربیٹھے وہ مرتد کہلائےگا اگرچہ وہ کہتا رہے کہ میری ایسی سوچ نہیں تھی ۔(درمختار، کتاب الجھاد، باب المرتد، ج 6، ص 343)۔
سرپسند ہندتوا تنظیموں کی شازشیں :
مسلمانوں کے خلاف ہندتوا شرپسند تنظیموں کی جانب سے ہر دن کوئ نہ کوئ سازشیں وجود میں آتی رہی ہیں اب تک کی سب سے بڑی سازش ہندتوا تنظیموں کے ذریعے یہ کی گئی ہے کہ انہوں نے کھلم کھلا چار سال قبل دہلی سے 2018 میں اعلان کر دیا تھا کہ جو ہندو لڑکا مسلمان لڑکیوں سے شادی کر کے گھر واپسی کرائے گا، انہیں خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے دولاکھ روپے ، چھ مہینے رہائش کے لئے فلیٹ اور اس کے علاوہ ہر قسم کے تحفظ فراہم کئے جائینگے ، کوئ انہیں جانی یا مالی نقصان نہیں پہونچا سکتا اس کی پوری ذمہ داری ہماری تنظیم کی ہے انعام و اکرام و حاصل کرنے کی لالچ میں آج ان کے بھیڑیے پاگل کتے کی طرح مسلم بچیوں کے پیچھے پڑگئے ہیں، وہ بہلا پھسلا کر ، لالچ دیکر ، پیار محبت کے جال میں پھنسا کر طرح طرح کے زاویے اپنا کر مسلمان بچیوں سے شادی کر رہے ہیں اور اپنے آقاؤں سے داد و تحسین اور انعام و اکرام حاصل کر رہے ہیں، یوں تو مسلمان عورتوں کا غیر مسلم سے ، ہندو عورتوں کا مسلمان مردوں سے شادی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ، پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن یہ کام صرف صاحب ثروت و ہیرو و ہیروئن کرتے تھے اور اس میں اکثر ہاتھ عشق و محبت کا تھا، مگر آج جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکی فلاں غیر مسلم دوست کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی ہے یا فلاں لڑکی اپنے ہند و کلاس فرینڈ کے ساتھ کورٹ میرج کر لی، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو دہلی میں چار سال قبل وجود میں آیا تھا، بعدہ بھیڑیے شکار پہ لگ گیے اور شکار کرنا اب بھی جاری و ساری ہے۔
یہ بات کسی سے مخفی نہیں !
اگر آپ شوشل میڈیا سے منسلک ہیں تو ہر دن وطن عزیز کے مختلف علاقوں سے دل کو بےچین و بےقرار کرنے والی خبریں پڑھتے ہی ہونگے، کہ غیر مسلموں سے کس تیزی سے قوم کی بیٹیاں ازدواجی زندگی سے منسلک ہورہی ہیں اور اپنے عزیزو اقرباء کو چھوڑ رہی ہیں، راقم الحروف مجیب الرحمٰن سلطانی زیادہ دنوں سے شوشل میڈیا پہ نہیں ہے فقط ایک سال ہورہے ہونگے ان کم وقتوں میں ہی راقم اللحروف نے تقریباً ہزار دوہزار خبریں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، سن کر دل چھلنی ہو کر رہ جاتا ہے، یہ غیر مسلموں سے نکاح والی ایک ایسی آندھی چلی ہے جس سے امیر و غریب جاہل و پڑھا لکھا شہری و دیہاتی سب کا امتیاز ختم کردیا ہے اور سب کو ایک صف میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔
اس نے مسلم معاشرے کے ہر طبقہ کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، خبر جب پڑھی یا سنی جاتی ہیں دل چھلنی ہو کر رہ جاتا ہے، آنکھیں برس پڑتی ہیں، اس کی سنگینی کو دیکھ کر کوئی ایسا مسلمان نہیں جو اپنے پاس دل رکھتا ہو اور اس بارے میں فکرمند نہ ہو، اور فکر مند بھی کیوں نہ ہو، ایک مومن کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے کفر وارتداد تک کسی کا پہنچ جانا دوسرے مسلمان کیلئے کسی حادثہ / قیامت سے کم نہیں، اس لیے نہیں کہ غیر مسلموں سے تنازع کی نوبت پیش آسکتی ہے یا وہ صرف اپنا دین و ایمان اورضمیر وحیا بیچ رہی ہیں یا خاندان پہ بدنامی کا داغ لگارہی ہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ مسلمانوں کی عزت کا سوال اور دین اسلام کی شان و شوکت کو ایسی گھٹیا چیز وجود میں لا کر پامال کرنے سے تکلیف ہے، اور اس طرح کے صرف یکہ دکہ واقعات پیش نہیں آرہے ہیں، بلکہ صرف گزرے تین سالوں میں ٹائمس آف انڈیا کی سروے رپورٹ کے مطابق چالیس ہزار سے زائد مسلم لڑکیوں نے غیر مسلموں سے شادی رچائی ہے مزید برآں اس میں روز بروز تیزی کے ساتھ اضافہ بھی ہورہا ہے۔
کچھ دن قبل ایک رپورٹ مولانا توقیر رضا نے پیش کیا تھا کہ کچھ سالوں میں تقریبا دس لاکھ بچیاں مرتد ہوئ
ایمان بھی گیا جان بھی گئی!
پڑھ کر کشمکش کے دریا میں غوطہ زن ہوگیے ہونگے کہ راقم الحروف کے کہنے کا مقصد کیا ہے تو سنیں جتنی بھی لڑکیاں ارتداد کرگزی وہ ایک سال یا دو سال چھ ماہ یا ایک ماہ میں ہی اپنے ایمان کے ساتھ جان بھی گنوا بیٹھی ہیں میرے قول کے عین مطابق ایک معاملہ یوپی کے ضلع کوشی نگر کی ہے یہاں کے ایک پولیس کانسٹیبل روشن رائے کو شوشل میڈیا پہ سونی نامی مسلم لڑکی سے محبت ہوگئی تھی، محبت ہونے کے بعد دونوں ریلیشن شپ میں رہنے لگے ایسا ایک سال تک چلتا رہا، پھر حسب دستور روشن رایے کنارہ کشی اختیار کرنے لگا، تو یہ معاملہ SP کوشی نگر تک پہونچی پھر SP جی نے دونوں کو سمجھا بوجھا کر نومبر 2022 میں شادی کرادیا تھا، شادی کے فقط ڈیڑھ مہینے بعد 25 جنوری کو سونی کی سڑی ہوئ لاش کمرے میں ملی اور کانسٹیبل روشن رائے فرار تھا، ایسی کتنے ہی واقعات مل جائنگے، 25 ستمبر کو ایک ایسی ہی غم اندوہ خبر لکھنو کے مڑیاوں گاوں سے موصول ہوئی عشرت پروین نامی لڑکی جو سونی تیواری بن گئ تھی۔
لکھنو کی رہنے والی عشرت جہاں کو ، پشپیندر تیواری عرف شبھم سے عشق ہوگیا اور یہ پشپیندر تیواری 2019 میں مڑیاوں میں جم ٹرینر منتخب ہوا تھا اور اسی جم میں اپنی صحت کی حفاظت کے لیے عشرت پروین بھی جاتی تھی ٹریننگ کے دوران ہی دونوں میں ناجائز تعلق ہوا اور پھر عشرت پروین اپنے حقیقی انجام سے بے پرواہ ہو کر عشرت پروین سے سونی تیواری بن گئ دین چھوڑا گھر چھوڑا عزیز و اقارب کے دلوں کو چھلنی کیا اور سب سے بڑی بغاوت یہ کی کہ اپنا سچا مذہب ترک کیا ، شرک کو اختیار کیا اور غیر مسلم بن کر پشپیندر کے ساتھ رہنے لگی۔
انجام جو ہوتا آیا ہے وہی ہوا کہ شادی چند مہینے بعد ہی محبت کا بھوت اتر گیا ، اور سونی تیواری پر پشپیندر کو یہ شک ہوا کہ وہ کسی اور سے بات کرنے لگی غیر حقیقت شک کی بنیاد پر پشپیندر نے سونی تیواری کو تیواری کو قتل کر ڈالا
ایسے ہی لوگوں کے لیے کسی شاعر نے کہا تھا کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم !
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے !
ایک شخص جس کی خبر گزرے ایام میں پڑھا تھا وہ اپنی معشوقہ کو شادی کے کچھ ہی مہینہ بعد قتل کرکے بیگ میں بند کرکے لاش کو دریا کے حوالے کرنے جارہا تھا تو پولیس نے اپنے شکنجے دبوچا ، تقریبا شادی بعد فورا قتل کے واقعات والی پچاس سے زائد خبریں میرے پاس ہیں لیکن طوالت کی وجہ سے متروک کرتے ہوئے موضوع کو اخیر تک پہونچارہا ہوں، اور کچھ لڑکیوں کی داستان کچھ یوں ہے کہ استعمال ہوئ اور اس کے بعد دھتکار دی گئیں یا تو بیچ دیا گیا یا کسی کوٹھے کی باگ دوڑ سنبھالنے لگی ہیں ابھی دو دن پہلے سمستی پور کی خبر ہے وہاں کی ایک مسلم لڑکی نے شادی کے موقعہ پہ وکاس نامی غیر مسلم سے ملاقات ہوئ اور پھر محو کلام ہوگئی اسی اثنا میں محبت بھی ہوگئی جس کے بعد انہوں نے بھاگ کر شادی ہندو ریتی رواج سے کرلی اور ہاجی پور میں دونوں کرایہ کے مکان میں رہنے لگے۔
چھ مہینہ بعد جہیز کے لیے لڑکی کو مجبور کرنے لگا تو لڑکی نے والدین سے پیسے مانگ کر دی دوبارہ پیسے پھر مانگنے لگا تو والدین نے انکار کیا کہ اپنی مرضی سے شادی کی ہو تو جاو ہم کیوں تیرا سپورٹ کریں نہ ہی اسلام کو مانتی ہو اور نہ ہی ہم سے اب اپنا رشتہ ہے تمہیں جو کرنا ہے کرو ہمیں مطلب نہیں جب پیسہ نہیں ملا تو اس ظالم نے دھوکہ سے بنگلور لے جاکر چار لڑکوں کے پاس بیچ دیا اور چھ ماہ تک ان لڑکوں نے اس کے ساتھ عصمت دری کرتے رہے اس کے بعد اس نے دہلی لے جاکر بیچ دیا یہاں سے پھر کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوئ ٹرین میں چڑھی تو ١٠٠ روپیہ بھی نہیں تھا جب TT آتا تو بیت الخلاء میں چھپ جاتی تھی اسی طرح سفر کرتے کرتے سمستی پور پہونچی اور شکایت درج کرانے تھانہ پہونچی ۔
ایسی خبریں تو روزانہ اخبارات کے ہیڈلائن میں نشر کیے جاتے ہیں کچھ دن پہلے اردو ٹائمز نے نشرکیا تھا کہ بجنور کی رہنی والی مسلم لڑکی امرینہ نے ( جس کی عمر ۲۱ سال ہے ) بریلی کے رہنے والے پپو” سے شادی کر لی ہے، اور مذہب اسلام کو چھوڑ دیا ہے ،یہ بات نہایت بہت ہی قابل غور ہے کہ جس مندر میں امرینہ رادھیکا ” بنی ہے اس مہنت نے 64 مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو لڑکوں سے کرا چکا ہے ، مطلب 64 لڑکیاں اس مندر میں مسلم سے ہندو بن چکی ہیں یہ ہمارے لیے کافی فکر و شرم کی بات ہے ۔
اور گفتگو کی ابتدا ان کا رونگ نمبر سے ہوا تھا لیکن یہ رانگ نمبر نہیں ان کا یہی منصوبہ ہے کہ اگر لڑکی نکلی تو پھنساو اور استعمال کرو پھر دھکا مار کر بھگاؤ۔
ایسے ہی یوپی کی سمرن پروین نے صاحب گنج کے وجئے سے بھاگ کر شادی کرلی بتایا گیا کہ کچھ سال قبل دونوں کی ملاقات موبائل کے ذریعے فیسبک پر ہوئی تھی اہل خانہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ اس رشتے سے راضی نہیں تھے اس لیے سمرن گھر سے فرار ہو گئ اور وجے کے ساتھ کورٹ میرج وغیرہ کر لی۔
سب سے الگ خبر ملی 22 september 2022 کو Aaj tk نے پبلش کیا کہ ایک سال قبل سکینہ نامی لڑکی غائب ہوئی تھی ، جب ملی تو پریا ہو چکی تھی ؟
ایک یہ بھی جان لیجیے یا معائنہ کرچکے ہونگے کہ جب کوئ مسلم مرتد ہوتی ہے تو میڈیا والے پھولوں سے بھرا مزین الفاظ اور دعائیں دیتے ہیں لیکن اگر غیر مسلم لڑکی کسی مسلم سے شادی کرلیتی ہے تو میڈیا چیخ چیخ کر LOVE_JIHAD کا نعرہ لگاتا ہے اور پورے دیش میں نفرت پھیلاتا ہے۔
جتنی روداد لکھا اتنی بہنوں کو سمجھنے کے لیے کافی ہے مضمون تقریبا مکمل ہوچکا تھا تھوڑی دیر کے لیے ٹویٹر پہ گیا تو میرے عزیز مولانا نوشاد نعیمی صدف آفرین و دیگر رفقا نے ایک اور دلخراش خبر ایک بجے دن میں ٹویٹ کیا جس میں انہوں سبھوں نے لکھا UP کے شاملی علاقے کے بابری محلہ کے اجیت کے بیٹے آنشو نامی غیر مسلم سے پہلے مسلم لڑکی کو پھنسایا اور ہندوانہ رسم و رواج کے ساتھ شادی کیا جب استعمال و دل دونوں بھر گیا تو جان سے مار کر کے لاش کو ایک کنوے میں پھینک دیا لڑکی کا نام نعیمہ ہے، نعیمہ کو اجیت نے قتل کرکے سر کو پتھر سے کچھل دیا اور لاش کو کنویں میں ڈالتے وقت بہت سارا نمک ڈال دیا تاکہ جسم جلدی گل جاے، یہ معاملہ 2 april 2023 ہے
افسوس صد افسوس
ارتداد کی طرف قدم بڑھانے والی لڑکیوں سے اپیل!
اللہ تبارک و تعالٰی قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا ہے ۔۔ لا تتخذوا المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين ۔۔۔آل عمران، آیت 28۔
۔مومنین کے لئے جائز نہیں کہ مومنین کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کریں۔۔، کیونکہ ان کی دوستی بہت خطرناک ثابت ہو رہی ہے جیسا کہ مشاہدہ سے ثابت ہے۔
قابل غور جملہ اور ذاتی سوال ؟
لڑکیاں جب خنزیر کو دیکھتی ہیں تو منہ ٹیڑا کرلیتی ہیں لیکن وہی خنزیر کو کھانے والے سے کیسے شادی کرلیتی ہیں؟
مضمون اس قدر طوالت کی طرف قدم بڑھا لیا کہ اب ایسے واقعات لکھنے کی گنجائش ہی نہیں اب اس کے اسباب و علاج اور والدین کیا کریں یہ بیان کرکے قلم بند کررہا ہوں۔
والدین !
ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ قوم کا ہرفرد اپنی اولاد کو اچھی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتا ہے اور ان کی خوشگوار زندگی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف یہ ناخوشگوار پہلو بھی ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے بلکل نا آنشا رکھتے ہیں ہماری سوچ تو ہوتی ہے کہ اولاد پڑھیں اور آگے بڑھیں لیکن دنیوی اور دینی معاملات میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے یہ تمیز کرنا ہم انھیں نہیں سکھا پاتے ہیں۔ ہم اپنے بچے اور بچیوں کے لیے تعلیمی وسائل تو مہیا کرادیتے ہیں اور انہیں بہتر سے بہتر اسکول و کالج میں داخلہ بھی کرادیتے ہیں لیکن وہ اسکول و کالج کے مخصوص وقتوں میں کیا کرتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں ان کے دوست و احباب کیسے ہیں کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ان باتوں کی طرف بلکل رغبت نہیں کرتے اور راقم الحروف کا یہی خیال ہے کہ یہی ہماری سب سے بڑی چوک ہے بعض والدین تو اپنی بچے بچیوں پہ اتنا اعتماد رکھتے ہیں کہ میری بیٹی ایسا کرہی نہیں سکتی تو ان کو کہونگا کہ یاد رکھیں کہ وہ انسان ہے فرشتہ نہیں۔
ارتداد کے اسباب !
1۔ کم علمی اور جہالت،
2- دین کا صحیح علم نہ ہونا۔
3- دین سے دوری، علماء سے کنارہ کشی اختیار کرنا
4۔ مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا ختم ہوجانا ہے آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ہم مسلمان کیوں ہیں ؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی اور حقیقی فرق ہے.
5۔ غیر مسلموں کے رسم و رواج طور، طریقے کا تیزی سے مسلم معاشرے میں داخل ہونا۔
6۔ گھروں میں ٹی۔وی،ویڈیو اور موبائل کے رواج کا تیزی سے بڑھنا، جس میں مختلف قسم کے برہنہ و فحش ویڈیو نما مناظر کا دیکھنا،غیروں کے رسم و رواج کو دیکھ کر اثر لینا خاص کر انکے معبودان باطلہ کی پرستش کے مناظر کا مشاہدہ کرنا جس کے بہت ہی برے اثرات بچوں کے ذہن پر دھیرے دھیرے نقش ہوجانا وغیر وغیرہ ۔
7- لڑکیوں کی وقت پر شادی نہ کرنا
معاشرے میں والدین کی نئ سوچ اب یہ بنتی جارہی ہے کہ جب تک لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوجائیں ان کی شادی نہیں کرائی جائے گی، تو دوسری طرف خود لڑکوں کے والدین بھی اپنے بیٹے کے لیے دودھاری گائے” کے متمنی ہیں ۔ پہلے تو زیادہ جہیز کے خواہاں تھے لیکن اب سوچ کچھ تبدیل ہوگئی ہے ، اب خواہاں ہیں کہ اگر بہورانی ہر مہینے سیلری لاکر ہاتھ پر رکھنے والی ہوئیں توزندگی بہت آرام و سکون کے ساتھ گزرےگی، اسی وجہ سے شادیوں میں تاخیر ہوتی جارہی ہے، برائیوں کا سیلاب آرہا ہے ، کیونکہ ” شہوات نفسانی ” ایک انسانی فطرت اور خواہش ہے، اسے بہت زیادہ دنوں تک دبا کر نہیں رکھا جاسکتا ہے، اسلام دین فطرت ہے، اسی وجہ سے اس نے شادی کے لیے بلوغت کی شرط لگائی ہے، کہ انسان جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرادی جائے۔ ہندوستانی قانون کے مطابق لڑکی کی شادی کی مناسب عمر اٹھارہ جب کہ لڑکے کی اکیس سال ہے، میرا ذاتی ماننا ہے کہ اگر لڑکی مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کررہی ہے تو تقریبا سترہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے فقط نکاح کرادینی چاہیے بھلے ہی اس کا رخصتی تھوڑا رک کر کرایا جائے، کیونکہ جب لڑکی کے دل میں کسی کے لیے خاص جگہ ہوجاےگا تو پھروہ اس کے لیے برائیوں سے بچنے میں بہت حد تک مفید عمل ثابت ہوگا ، اب رہا رخصتی کا مسئلہ تو اکیس بائیس سال تک ہر حال میں کردینی چاہیے، اور پھر اگر وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو شوہر کی اپنی مرضی ہے میں تو بطور مشورہ کہونگا کہ اسے مزید پڑھنے سے نہ روکے، اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جب وہ شادی شدہ ہونے کے بعد بھی کالج یا یونیورسٹی میں جائے گی، اور کلاس کے لڑکوں کو یہ بات معلوم اگر ہوگی تو بہت ممکن ہے کہ اس پر کوئی بھی لڑکا ڈورے ڈالنے سے احتراز کرے گا کیونکہ لوگ عموما خالی پلاٹ پاکر گھر تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پلاٹ پر جب پہلے سے گھر تعمیر ہوگا تو اس کو گرانے میں ذرا سی بھی کوشش کافی نقصاندہ ثابت ہوگی لیکن اگر کسی وجہ سے اکیس یا بائیس سال تک شادی نہیں ہوپاتی ہے، تو زیادہ سے زیادہ چوبیس سال انتہا ہونی چاہیے، کیونکہ پھر اس کے بعد کوئی انتہا باقی نہیں بچتی ہے، اس کے بعد گزرنے والا ہر لمحہ ایک عورت کی موت ہوتا ہے، کیونکہ تقریبا نفسیاتی اعتبار سے اٹھارہ سال کے بعد ہی لڑکیاں چاہنے لگتی ہیں کہ کوئی ان کا ہاتھ تھامے، ان سے پیار بھری باتیں کرے، دکھ کی گھڑی میں انھیں تسلی دے خوشی کے لمحوں میں انہيں پیار دے، اگر لڑکی کے گھر والے وقت پر اس کے لیے جیون ساتھی ڈھونڈنے میں ناکام رہ جاتے ہیں تو پھر لڑکی کالج ویونیورسٹی میں خود بی ڈھونڈ لیتی ہے، بغیر کسی مذہبی تفریق کے۔ اب تو بعض شہروں میں یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ لڑکیاں اٹھائیس اٹھائیس سال تک شادی نہیں کرتی ہیں، اس سے کوئی یہ خواب و خیال میں نہ لائے کہ اٹھائیس سال کا یہ لمبا عرصہ لڑکیاں یونہی گزار دیتی ہیں، بالکل نہیں، شاید کچھ شذوذ ضرور ہوں، مگر ان میں سے اكثر لڑکیوں کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ ان کے لیے صرف نکاح کے دوبول رہ جاتے ہیں، بقیہ شادی شده زندگی وہ کئی بار گزار چکی ہوتی ہیں۔

فتنۂ ارتداد کے حل کے کچھ طریقے!
1۔ اسلامی قوانین کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایاجائے، ان میں حیاداری عفت و عصمت کی حفاظت کا جذبہ اور عقیدۂ توحید و رسالت کی عظمت پیدا کریں۔
2۔ بچوں کی صحیح دینی تعلیم اور عمدہ تربیت کا انتظام کریں۔
3- روزانہ گھروں میں تمام افراد کی موجودگی میں آدھے گھنٹے ہی سہی، درود شریف کی محفل سجائیں ہو سکے تو دس منٹ کسی اچھی قلب کی جھنجھوڑنے والی کتاب کی تعلیم دی جائے، راقم الحروف کا غالب ظن ہے کہ کچھ ہی دنوں میں دینی ماحول بن جاےگا،
ان شاء اللہ تعالٰی
4- علمائے اہل سنت و مشائخ عظام سے خود بھی اچھے تعلق بنائیں اور بچیوں کو دین کی رہبرا کی صحبت میں وقتا فوقتا بھیجتے رہیں اور ان سے گہری تعلقات بنانے کی تنبیہ کریں۔
5۔والدین ٹی ،وی یا موبائل پر نا ہی خود کوئی فلم،ڈرامہ یا سیریل دیکھیں اور نا ہی بچوں کو دیکھنے دیں،کیونکہ فلموں، ڈراموں سے ہمارے گھروں میں فحاشی اور عریانیت داخل ہوتی ہے، فلموں اور ڈراموں میں معبودان باطلہ کی پرستش دکھائی جاتی ہے جس سے ہمارے بچے لاشعوری طور پر متاثر ہوتے ہیں، فلموں میں مصیبت زدہ فرد معبودان باطلہ سے مدد مانگتا ہے اور اس کا کام ہو جاتا ہے جس سے بچے لا شعوری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔لہذا گھر بیٹھے انکو ان شرکیہ کاموں کے دیکھنے سے روکیں۔
6۔کفار و مشرکین کی افعال رذیلہ و قبیحہ سے ان کو روشناش کراِئیں ، ان کے معبودان باطلہ سے خود بھی نفرت کریں اور بچوں کو بھی نفرت دلائیں، کفار کے تیوہار اور رسومات سے سخت اجتناب کریں اور اور بچوں کو بھی دور رکھیں، جیساکہ بعض جگہوں پہ دیکھا گیا ہے کہ کفارو مشرکین کے تیوہار خصوصا راملیلا و دشہرا چھٹ میں بچے دیکھنے چلے جاتے ہیں، انہیں سخت تاکید کریں کہ نہ جائیں، نہ مانیں تو زودوکوب کریں، ان کے ساتھ زیادہ دوستانہ ہاتھ بڑھانے سے منع کریں۔
7۔ حدبلوغت کو پہنچنے کے بعد ہی جلد شادی کا اہتمام کریں تعلیم کے نام پہ زیادہ تاخیر نہ کریں ۔
8۔ بگڑتے ہوئے رشتوں کو بنانے کی کوشش کریں تاکہ جلد از جلد گھر آباد ہو سکے۔
9- جہاں مخلوط تعلیم کا بندوبست ہو وہاں سے اپنی بچیوں کو بچایا جائے، اور غیر مخلوط تعلیمی نظام کے قیام پر بھرپور توجہ دی جائے اور محفوظ ماحول میں معیاری تعلیم کا انتظام کریں۔
10- ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے کسی ٹیچر یا کلاس فرینڈ کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت کے نام سے بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے، کالج لانے لے جانے کا خود انتظام کریں۔
11- موبائیل ریچارج یا زیراکس کے لیے غیر مسلموں کی دوکان پر جانے کی اجازت نہ دی جائے، بلکہ خود کسی اپنے کے دوکان پہ جائیں کیونکہ غیر مسلم وہاں سے نمبر اور فوٹو RSS کے بندے پاس بھیجتے ہیں جس سے وہ لوگ آسانی سے پھنسا لیتے ہیں اس لیے پہلے سے احتیاط کریں۔
12۔ شادی سے پہلے بچیوں کو ہرگز موبائل نہ دیجئے اور اگر دے رکھا ہے تو اس کو چیک کرتے رہیں ساتھ ہی بچیوں کے فرنڈس کے بارے میں مکمل معلومات رکھیں، اگر کوئی بھی قابل اعتراض بات نظر آے تو فورا تنبیہ کریں۔
13۔ گھر کے بڑے ذمہ دار افراد والد یا بھائی وغیرہ بچیوں کو اسکول لانے لے جانے کا کام کریں اور ٹیچرس سے بھی کہیں کہ انکا خیال رکھیں اور لڑکوں سے دوستی ہرگز نہ کرنے دیں۔
14۔ خالص دینی تربیت کریں، اگر آج آپ ہی اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دیں گے تو کل یہی بچے آپ کی عزت کو خاک میں ملا کر آپ کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گے۔
15۔ قوم کے مالدار اشخاص بچیوں کی تعلیم کے لئے عظیم اسکول اور کالجس کھولیں جہاں پر دینی و عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین اسلامی تربیت کا بھی انتظام کیا جائے۔
16۔شادیوں کو سستا کریں
17- معاشرے سے جہیز کی لعنت کو ختم کریں۔
18۔ اللہ تبارک و تعالٰی اور اس کے رسول مقبول ۔صلی اللہ تعالی علیہ و سلم۔کی محبت پیدا کیجئے، اسلام کی نشر و اشاعت میں جن مجاہدین نے مصائب و آلام برداشت کیے بچوں،بچیوں کو ان کی تاریخ بتائیں، جن مستورات نے بڑھ چڑھ کر اسلام کی خدمت کی اور ہر طرح سے قربانیاں دیں انکی بھی تاریخ سے آگاہ کیجئے،ایمان پر ثابت قدم رہنے والے مجاہدین کی سیرت بھی بتائیں اور ایمان سے پھرنے پر عذاب و وعید بتائیں۔
یہ چند طریقے ہیں جو میں نے لکھا اس کے علاوہ حالات و زمانے کے لیے لحاظ سے جو تدابیر مناسب ہو علمائے کرام اسے عمل میں لائیں، اسکے علاوہ علمائے کرام و ائمہ مساجد نے جس طرح ہمیشہ قوم کی فلاح و بہبودی کے قربانیاں دیتے آئے ہیں اس مرتبہ بھی پوری طاقت سے اس ہندتوا تنظیموں کی شازش کو اپنے جدو جحد سے کچل دیں اور اپنی عوام سے سگے بھائیوں جیسا رابطہ بنائیں ہم کسی کو ایک کو نہیں کہتے کہ صرف آپ آگے آئیں کیونکہ یہ بہت خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے کسی ایک کی بس کی بات نہیں بلکہ ہرفرد سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ خدارا جلد اس ضمن میں سوچیں اپنی بچیوں کو بچائیں۔۔۔۔ خدارا جلد اس پر قابو پائیں اور ان کو ارتداد سے محفوظ رکھیں؛ ورنہ اس تاریک دن کے لیے تیار رہیں جب آپ کی بیٹیاں بڑی تعداد میں کافر بچوں کو جنم دیں گی اور وہ بچے کفر کا دامن تھامے آپ سے اشتعال انگیزی کرتے ہونگے تو کہیں آپ کی لنچنگ کر رہے ہوں گے، کہیں آپ کی بچی ہوئی لڑکیوں کی عصمت دری، تو کہیں ٹرین سے اغوا کر کے اسے نشانہ بنا رہے ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے ملی تنظیمیں، والدین اور خود ہر مسلمان اس پر غور کرے اور اس کے سدد باب کے لیے تال میل کے ساتھ انتہائی منظم طور پر اس آندھی کو روکنے کی ہم سب کوشش کریں۔
اللہ رب العزت ہماری ماؤں، بہنوں کی عصمت و عفت کی حفاظت فرمائے اور انہیں ارتداد سے بچائے رکھے اور رب ذوالجلال ہم سب کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے اور اپنی رضا کے خاطر اپنے دین مبین کی خوب خوب خدمتیں لے۔
آمين یا رب العالمین بجاه النبي الكريم صلى الله تعالى عليه وآله وصحبه وبارك وسلم .

Comments are closed.