درگاہ خواجہ قطب شاہ چشتی اشوکا روڈ بھی انہدامی کارروائی کی زد میں

وقف بورڈ چیئرمین نے خطرہ کے پیش نظر دہلی پولیس کمشنر کو لکھا مکتوب،کہایہ درگاہ روڈ کی تعمیر سے بھی قبل کی ہے، انکروچمنٹ مخالف مہم کے نام پر مسلم عبادتگاہوں کو نشانہ بنانا غلط،:امانت اللہ خان
نئی دہلی،15اپریل (پریس ریلیز)وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے دہلی کے پولیس کمشنر کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جسمیں اشوکا روڈ پٹیل چوک الیکشن کمیشن دفتر کے قریب واقع درگاہ حضرت خواجہ قطب شاہ چشتی پرغیر قانونی قبضہ مخالف انہدامی کارروائی کا اندیشہ جتاتے ہوئے درگاہ کی حقیقت اور انکروچمنٹ مخالف مہم کے نام پر چلائی جارہی درگاہوں کے خلاف مہم پر سوال کھڑے کئے ہیں۔امانت اللہ خان نے لکھا کہ ہمیں کچھ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اشوکا روڈ پٹیل چوک الیکشن کمیشن دفتر کے قریب واقع درگاہ حضرت خواجہ قطب شاہ چشتی کو انکروچمنٹ مخالف مہم کے نام پر انہدامی کارروائی کا نشانہ بنانے کا منصوبہ زیر غور ہے جو کہ سراسر غلط اور حقیقت سے دور ہے۔اور درگاہوں کے خلاف گزشتہ کچھ دنوں سے جاری یہ مہم صرف اور صرف مسلمانوں کو پریشان کرنے اور انھیں نشانہ بنانے کے لئے چلائی جارہی ہے۔انہوں نے آگے لکھا کہ مذکورہ درگاہ ایک چشتی سلسلہ کے بزرگ کی ہے جو ہندوستان کے مسلم طبقہ میں پائے جانے والے صوفیوں کے چار مشہور سلسلوں (قادریہ،سہروردیہ،نقشبندیہ،چشتیہ)میں سے ایک ہے جس سے بڑی تعداد میں مسلمانوں کی عقیدت وابستہ ہے اور وہ اس مزار پر اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کرنے اور دعائیں لینے کے لئے آتے ہیں۔اس وجہ سے یہ ہزاروں مسلمانوں کی عقیدت کا مسئلہ ہے جبکہ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہ مزار سینکڑوں سال سے واقع ہے جب وہاں روڈ یا فٹ پاتھ کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور آس پاس جو بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ درگاہ کو بنا نقصان پہونچائے کئے گئے ہیں اور درگاہ اس وقت بھی مکمل محفوظ رہی جب وہاں روڈ اور فٹ پاتھ کی تعمیر کی گئی اس لئے اب اسے غیر قانونی قبضہ مخالف مہم کا حصہ بناناسراسر غلط ہے۔امانت اللہ خان نے آگے لکھا کہ حال ہی میں دیکھا گیا ہے کہ غیر قانونی قبضہ مخالف مہم کے نام پر مسلم عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا جارہاہے اور ان پر بلڈوزر چلایا جارہاہے جو دہلی کے مسلمانوں کو پریشان کرنے کی منصوبہ بندی اور مسلم مخالف ذہنیت کا نتیجہ ہے۔اور ابھی حال ہی میں نظام الدین میں درگاہ بھورے شاہ اور سنہری باغ واقع درگا پر بلڈوزر چلادیا گیا جبکہ 11اپریل کو بابر روڈ بنگالی مارکیٹ واقع مسجد کی باؤنڈری وال کوبنا کسی قانونی جواز یا طریقہ کار کے بلڈوزر چلاکر منہدم کردیا گیاجبکہ یہ بھی غور طلب ہے کہ ان سب کارروائیوں کے لئے رمضان کے مقدس مہینہ کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ امانت اللہ خان نے آگے زور دیکر لکھا کہ ریاست پورے طبقہ کے وجود پر سوالیہ نشان نہیں لگاسکتی اور نہ ہی اپنی بے پناہ قوت کا غلط استعمال کر سکتی ہے جبکہ مذہبی عبادگاہوں اور اوقاف کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے جسے آئین کے ساتویں شیڈیول کی متعلقہ فہرست میں اندراج نمبر 28میں واضح کیا گیا ہے۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ مذکورہ درگاہ کو منہدم کرنے کی بالکل بھی اجازت نہ دی جائے۔غور طلب ہے کہ ابھی حال ہی میں بنا کسی قانونی جواز کے بنگالی مارکیٹ واقع مسجد و مدرسہ تحفیظ القرآن کی باؤنڈری وال و دیگر تعمیرات کو بھاری بھرکم پولیس عملہ کے ساتھ ایل اینڈ ڈی او نے بلڈوزر کی مدد سے منہدم کردیا تھا جس کے خلاف امانت اللہ خان چیئرمین دہلی وقف بورڈ کی ہدایت پر وقف بورڈ کی لیگل ٹیم نے ہائی کورٹ میں درخواست لگائی جس پرعدالت عالیہ کے ذریعہ مرکزی حکومت اور متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو سخت پھٹکار لگائی گئی اور آئندہ ایسی کسی بھی کارروائی سے باز رہنے کی ہدایت عدالت عالیہ نے دی تاہم ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے کچھ مسلم عبادگاہوں اور درگاہوں کو نشان زد کرکے یکے بعد دیگرے ان پر بلڈوزرچلایا جارہاہے۔
Comments are closed.