شعبہ اردو میں انجمن اردوئے معلی کے تحت طلبا نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا

علی گڑھ(پریس ریلیز) طلباء ہی ملک و قوم کا مستقبل ہیں، ان کی صلاحیت میں ہمہ جہت نکھار روشن مستقبل کی ضمانت ہے،لیکن اس نکھار کے لئے ضروری ہے کہ طلباء پوری لگن کے ساتھ محنت کریں اور موجود وسائل و مواقع کا فائدہ اٹھائیں۔یہ باتیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر محمد علی جوہر نے نوتعمیر رشید احمد صدیقی آڈیٹوریم میں اردوئے معلی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے کہا کہ انجمن اردوئے معلی طلبا کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے قیام سے اب تک اس انجمن نے طلبا کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ اور یہاں کے تربیت یافتہ بڑے بڑے اساتذہ اور ادیب اسی کے پروردہ ہیں۔واضح رہے کہ اردوئے معلی شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایم اے کے طلبا و طالبات کی ایک قدیم انجمن ہے جس کے تحت مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے ،جس میں طلبا وطالبات اپنی تخلیقات ،تحقیقات اور مضامین و مقالے پیش کرتے ہیں۔
مہمان خصوصی سابق صدر شعبہ اردو ، نامور افسانہ نگارپروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ نئی نسل بہت بیدار ہے،اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ہے،بس ضرورت اس بات کی ہے وہ اپنے لئے درست سمت کا تعین کرلے۔انہوں نے کہا کہ آج کل کے طلباء ہم سے زیادہ تجربہ کار ہیں کیونکہ ان کو ہمارے تجربے سے بھی استفادے کا موقع ملا ہے ،اور وہ خود بھی ایسے دور میں جی رہے ہیں جو بیداری اور بیدار مغزی کاہے۔
اس سے قبل پروگرام کا آغازعبدالرشید فاروقی( ایم اے اردو سال اول )کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ نورشفا حمد اور آسیہ( ایم اے اردو سال آخر )نے نعت رسول ﷺ پیش کی۔جبکہ انجمن اردوئے معلی کے سکریٹری ساجد حسن رحمانی نے انجمن کا تعارف کراتے ہوئے اس کی 123 سالہ تاریخ سے متعلق مضمون پیش کیا۔
اس موقع پرشعبہ کے طلباء و طالبات نے اپنی تخلیقات، تنقیدی مضامین اور مختلف شعراء کے منتخب کلام پیش کئے۔ محمد وسیم( ایم اے سال آخر )نے علی سردار جعفری کی مشہور نظم ’’ایشیا جاگ اٹھا‘‘کا تجزیہ پیش کیا۔ طالبہ زاہدہ (ایم اے سال آخر)نے غالب کی غزل ’’نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے ‘‘۔ اپنی مترنم آواز میں پیش کی۔ محمد ارمان خان ، محمد سلمان (ایم اے سال آخر)، انضمام الحق (صائن علیگ) بی اے سال آخر اور یاسر علی بی اے انگلش سال آخر نے بھی اپنی تخلیقات پیش کیں۔
شعبہ اردو کے سینئر استاد پروفیسر قمرالہدی فریدی نے کہا کہ طلبا ء کو کتابوں سے اپنا رشتہ بہت مضبوط رکھنا چاہئے،کتابیں علم کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، جبکہ اس طرح کی انجمنیں اور ان کے تحت ہونے والے پروگرام بچوں کی تربیت کا وسیلہ ہیں،جب تک آپ یہاں ہیں ،یہاں کے اساتذہ اور وسائل کا فائدہ اٹھائیں،اس کے بعد یہ موقع زندگی میں دوبارہ نہیں آئے گا۔
پروفیسر سید سراج الدین اجملی نے کہا کہ جو بھی آپ پڑھیں تو دوران قرات اس کی صحت کا خیال رکھیں، معنیٰ کے لیے لغت کا استعمال کریں۔لکھیں تومبالغہ نہ ہو، شاعری میں گرچہ مبالغہ درست ہے لیکن لفظ کی صحت کے ساتھ ساتھ بحر اور قافیہ کا بھی بھرپور خیال رکھیں، جو بھی پیش کرنا ہے اسے لکھ کر لائیں۔ یہ سیکھنے کے رہنما اصول ہیں،جن پر عمل کرکے کامیابی کی طرف قدم بڑھایا جا سکتاہے۔ڈاکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ بی اے فائنل سے ایم اے تک اس اسٹیج کا ہم نے خوب استعمال کیا تھا۔ پروفیسر قاضی عبدالستار کا ایک قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ستر ستر برس کے بوڑھوںکے پیر لڑکھڑانے لگتے ہیں، لہذا یہاں پر بول لینا بہت بڑی بات ہے۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض سکریٹری اردوئے معلیٰ ساجد حسن رحمانی اور جوائنٹ سیکریٹری عبدالجلیل نے مشترکہ طور پر انجام دئے جبکہ عبد الجلیل نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
پروگرام میں پروفیسر ضیاء الرحمن، ڈاکٹر خالد سیف اللہ، ڈاکٹر سلطان احمد، ڈاکٹر راشد انور راشد، ڈاکٹر عمر رضا، ڈاکٹر معید رشیدی، ڈاکٹر محمد شارق، ڈاکٹر مامون رشید، ڈاکٹر آفتاب عالم ،ڈاکٹر محمد خلیق الزماں، ڈاکٹر سرفراز انور، ڈاکٹر شہاب الدین اور ڈاکٹر محمد کیف فرشوری کے علاوہ طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
Comments are closed.