مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

سپریم کورٹ اور ہندوستانی آئین کے ارتقاء پر جسٹس کرشن مراری کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خطاب
علی گڑھ، 13مئی: آزادی کا امرت مہوتسو اور جی 20 پروگراموں کے ایک حصے کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی فیکلٹی آف لاء میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے جج جسٹس کرشن مراری نے ’سپریم کورٹ اور ہندوستانی آئین کا ارتقا‘ موضوع پر ایک خصوصی لیکچر دیا۔
بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں جسٹس مراری نے سرسید احمد خاں اور جسٹس سید محمود کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور انہیں ’تعلیم کا پیغامبر‘ اور اے ایم یو میں قانون کی تعلیم کا علمبردار قرار دیا۔ انہوں نے رفیع احمد قدوائی، بیرسٹر چودھری حیدر حسین، قاضی سید کریم الدین اور حسرت موہانی سمیت دستور ساز اسمبلی کے مختلف ارکان کی خدمات کا بھی ذکر کیا اور قوم کی تعمیر میں سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری سمیت اے ایم یو کے متعدد سابق طلباء کے تعاون کا اعتراف کیا۔
جسٹس مراری نے سپریم کورٹ آف انڈیا اور اس کی ماقبل کی عدالتوں بشمول فیڈرل کورٹ اور پریوی کونسل کے تاریخی ارتقاء پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ہندوستانی آئین کے مقاصد اور سپریم کورٹ کے تشریحی اختیارات پر خاص طور پر آرٹیکل 21 کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے اے کے گوپالن بنام ریاست مدراس، مینکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا، گولکناتھ بنام ریاست پنجاب ، اور کیشوانند بھارتی جیسے تاریخی مقدمات و فیصلوں کا ذکر کیا، جس نے بیسک اسٹرکچر کے اصول کو متعارف کرایا۔ انہوں نے بار کے ممبران، خاص طور سے ہندوستان کے پہلے اٹارنی جنرل ایم سی سیتلواڈ کی خدمات کو بھی سراہا۔
کیشوانند بھارتی کیس میں جسٹس حمید اللہ بیگ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین ہند کی تمہید اور حصہ سوم و چہارم کے التزامات سے یہ واضح ہے کہ یہ اصول اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے آئین میں ملک کے عوام کی بہتری کے قانون کو فوقیت حاصل ہے ، جس کی ابتدا اس تمہید سے ہوتی ہے جو آئین کے چار اہداف میں سے ’انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی‘ کو اولیت دیتا ہے۔
انہوں نے طلباء پر زور دیا کہ وہ مادر وطن کے حقیقی سپوتوں سے تحریک لیں اور اس بات کا اعادہ کیا کہ بار کو اپنے مشعل بردار کے طور پر نوجوان اور باصلاحیت ذہنوں کی ضرورت ہے۔ قانون کے میدان میں وقت کی پابندی اور ایمانداری کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی کے میدان میں ابتدائی ایام ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی اسے اچھی طرح برتنے کا سلیقہ اور طریقہ سیکھ لے تو آنے والا مستقبل روشن ہوگا اور اس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ انہوں نے طلباء کو پڑھنے کی عادت ڈالنے کا مشورہ دیا۔
قبل ازیں مہمان خصوصی کا خیرمقدم کرتے ہوئے پروفیسر محمد ظفر محفوظ نعمانی، ڈین، فیکلٹی آف لاء نے فیکلٹی کے تاریخی ارتقاء پر روشنی ڈالی اور یہاں سے نکلنے والے سرکردہ افراد کا ذکر کیا جن میں جسٹس سید محمود، جسٹس سر شاہ سلیمان، جسٹس مرتضیٰ فضل علی، جسٹس بحر الاسلام اور جسٹس آر پی سیٹھی شامل ہیں۔ انہوں نے دو حالیہ فیصلوں کا بھی ذکر کیا جن میں جسٹس کرشن مراری بنچ کا حصہ تھے۔ اس میں ایک فیصلہ ہمارے ملک کے وفاقی ڈھانچہ اور دوہری سیاست سے متعلق ہے جس کے مرکز میں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کا معاملہ تھا، اور دوسرافیصلہ مہاراشٹر حکومت کے فلور ٹیسٹ سے متعلق ہے۔
پروفیسر نعمانی نے کہا کہ مہاراشٹر کا فیصلہ، کیشوانند بھارتی بنام ریاست کیرالہ، ہر گووند پنت بنام رگھوکل تلک اور ایس آر بومائی بنام یونین آف انڈیا کے بعد تاریخی فیصلوں میں سے ایک ہے جس نے مستقبل کے لئے ہندوستانی سیاست کے لئے ایک راہ طے کردی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس آدتیہ ناتھ متل نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستانی آئین کی سب سے پرکشش دفعہ آرٹیکل 21 ہے جس کی تشریح اے کے گوپالن بنام مینیکا گاندھی کیس میں کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزادی کے حق کو قانون کے طے کردہ طریقہ کار کے ذریعے محدود کرنا ہوگا۔
شعبہ قانون کے چیئرمین پروفیسر محمد اشرف نے شکریہ کے کلمات ادا کئے۔
تانیا پانڈے اور مہ لقا ابرار نے پروگرام کی نظامت کی۔
پروگرام کے بعد جسٹس مراری نے یونیورسٹی کی تاریخی عمارتوں کا دورہ کیا اوریونیورسٹی جامع مسجد کے احاطے میں بانی درسگاہ سر سید احمد خاں کی مزار پر حاضری دے کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو کے سابق طالب علم پروفیسر راجیو وارشنے ، رائل سوسائٹی کے فیلو منتخب
علی گڑھ، 13مئی: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ نباتیات کے سابق طالب علم پروفیسر راجیو وارشنے کو رائل سوسائٹی (ایف آر ایس) کا فیلو منتخب کیا گیا ہے۔ شعبہ نباتیات کے چیئرمین پروفیسر ایم بدرالزماں صدیقی نے بتایا کہ یہ اعزاز خاص طور سے ایسے وقت میں ہمارے شعبہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے جب ہم اس کے قیام کا صد سالہ جشن منارہے ہیں۔ 1923 میں اس شعبہ کا قیام ہوا تھا۔
لندن کی رائل سوسائٹی نے سال 2023 کے لیے اپنی فیلوشپ کے لیے منتخب کیے گئے دنیا بھر سے 80 ممتاز محققین ، اختراع کاروں اور کمیونیکیٹرز کی فہرست کا اعلان کیا ہے (https://royalsociety.org/news/2023/05/new-fellows-2023/)۔
ان میں پروفیسر راجیو وارشنے بھی ہیں، جو فی الوقت مرڈوک یونیورسٹی (آسٹریلیا) میں سنٹر فار کراپ اینڈ فوڈ انوویشن ، ویسٹرن آسٹریلین اسٹیٹ ایگریکلچرل بایو ٹکنالوجی سینٹر کے ڈائرکٹر اور زراعت و فوڈ سیکیورٹی میں بین الاقوامی چیئر ہیں۔ وہ واحد ہندوستانی سائنسداں ہیں جنہیں سال 2023 میں ایف آر ایس کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
پروفیسر وارشنے مذکورہ فیلوشپ حاصل کرنے والے چوتھے ہندوستانی زرعی سائنسداں ہیں۔ ایف آر ایس کے طور پر منتخب ہونے والے دیگر تین ہندوستانی زرعی سائنسدانوں میں پروفیسر بی پی پال (1972) ، پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن (1973) اور پروفیسر گردیو خوش (1995) شامل ہیں۔
پروفیسر وارشنے نے کہا ’’میں رائل سوسائٹی کے فیلو کے طور پر منتخب ہونے پر خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ یہ کسی بھی سائنسداں کے لیے ایک خواب کی طرح ہے۔ نارمن بورلا، ایم ایس سوامی ناتھن، جم پیکاک، اور گردیو خوش جیسے محققین کی صف میں شامل ہونا باعث مسرت و افتخار ہے، جو نہ صرف میرے لیے بلکہ دنیا بھر کے زرعی سائنسدانوں کے لیے رول ماڈل رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا ’’میں آسٹریلیا، بھارت، جرمنی، اور ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے بہت سے ممالک کے اپنے ساتھیوں اور معاونین کا شکر گزار ہوں جن کے ساتھ مجھے گزشتہ 25 برسوں میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا‘‘۔
پروفیسر وارشنے کی مرڈوک یونیورسٹی نشیں ٹیم موجودہ وقت میں گندم، پھلی اور باغبانی کی فصلوں پر کام کررہی ہے تاکہ انھیں مزید بہتر اور صحت بخش بنایا جاسکے۔
٭٭٭٭٭٭
شعبہ اردو میں شعری نشست کا اہتمام
علی گڑھ، 13 مئی: شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے رشید احمد صدیقی آڈیٹوریم میں ایک خصوصی شعری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہا کہ شعبہ میں اس طرح کی محفلوں کا اہتمام وقتا فوقتا اس لیے کیا جاتاہے تاکہ طلباء کا شعری ذوق پروان چڑھے اور ان کو آداب محفل کا بھی علم ہو، جہاں علم و ادب کی دنیا کے آفتاب و ماہتاب اپنی تخلیق پیش کرتے ہیں،تو سننے والے بھی اسی طرح اعلیٰ شعری ذوق رکھتے ہیں۔
پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کہاکہ شعر کے معنی قاری کی سمجھ پر منحصر ہوتے ہیں، آل احمد سرور کے الفاظ میں الفاظ کائنات ہیں جن سے شعر وجود میں آتاہے جن کی تفہیم قاری اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ادب میں شعر کی تخلیق کے بعد وہ شاعر کا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ قاری کا ہوجاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ کلاس میں متن کے جو معنی بتایے جاتے ہیں وہ طلبا کی تربیت کے لیے ہوتے ہیں۔
صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ یہ محفل صرف اشعار خوانی یا اشعار کی سماعت کے لیے نہیں ہے بلکہ یہاں ہونے والے سوالات و جوابات سے شاعری کے ساتھ ہی تنقید کو بھی فروغ ملتا ہے۔ طلبا کو ان مواقع سے خاص طور پر استفادہ کرنا چاہیے۔
اس موقع پر پروفیسر مہتاب حیدر نقوی، عالم خورشید، پروفیسرسید سراج الدین اجملی، ڈاکٹر معید رشیدی اور ڈاکٹر سرفراز خالد نے اپنے اشعار پیش کیے۔
پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے علی گڑھ کی شعری روایت سے متعلق اپنی ایک نظم کے چند اشعار سنائے۔ اس موقع پر طلبا نے سوالات بھی کیے اور معلوم کیا کہ ان کے تخلیقی سروکار کیا ہیں۔انھوں نے لہجے، اسلوب، آہنگ اور مخصوص استعارات و تشبیہات سے متعلق سوالات کیے۔
پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے طلبا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شاعری وہ نہیں جو مشاعرے میں سنتے ہیں بلکہ شاعری وہ ہے جو کتاب میں پڑھتے ہیں، ہر شخص کے سوچنے کا انداز الگ ہوتاہے، آپ نوجوان ہیں آپ ہم سے الگ سوچتے ہیں جیسے ہم عالم خورشید سے الگ سوچتے ہیں، اسی لیے دونوں کی شاعری الگ الگ ہے۔ شعر میں جب تک تہہ داری نہ ہو اس وقت تک کوئی شعر شعر نہیں ہوتا، اور ہمارے بزرگوں نے تو ہجویں بھی بڑی تہہ داری کے ساتھ لکھی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم کلاسیکی شاعری کی طرح شاعری کرنے لگے تو وہ ہماری شاعری نہیں ہوگی، جدید دور کے شعراء جو اشعار کہہ رہے ہیں اس میں تہہ داری تلاش کرنا قاری کا کام ہے اور ایسا نہیں ہے کہ آج کے اچھے شاعروں کے یہاں تہہ داری نہیں ہے، لیکن جس طرح اچھے کلاسیکی شاعروں کو پڑھتے ہیں اسی طرح جدید دور کے اچھے شاعروں کو پڑھنا چاہیے۔
عالم خورشید نے کہا کہ جب کوئی واقعہ رونما ہوتاہے تو وہ لاشعور کا حصہ بن جاتاہے اور ایک دن ایسا آتاہے جب وہ تخلیقی وفور کے ساتھ شعر کی شکل میں نمودار ہوتاہے۔ انھوں نے تخلیقی عمل سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے استعارات و تشبیہات کے سلسلہ میں کہا کہ اس کی تفہیم کے لیے پوری غزل کی قرأت اس کی لفظیات اور تشبیہات و استعارات کے تناظر میں کرنا چاہیے، اسی سے وہ ماحول سامنے آتاہے جو شعر کے تخلیق کے پس منظر میں ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت اور حالات لفظ، تشبیہات اور استعارات کو نئے معانی دیتے ہیں اس لیے اس کو کسی بھی صورت میں پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے متعدد نظمیں اور غزلیں پیش کیں۔
پھول پھول ہی جو سینے پہ کھلایے ہویے ہیں
ان دنوں ہم نگہ یار میں آئے ہوئے ہیں
اسی امید پہ ہم بھی کہ بر آئے گی امید
علم رفعت انکار اٹھائے ہوئے ہیں
لفظ اس کے ہیں مگر ان میں روانی میری
قصہ گو کوئی سہی ہے تو کہانی میری
زخم بھرنے کے لیے داغ ہیں مٹنے کے لیے
نقش بر آب ہے ہر ایک نشانی میری
دھوپ میں ان ابگینوں کو لیے پھرتا ہوں میں
کوئہ سایہ ان خوابوں کی نگہبانی کرے
سید سراج الدین اجملی کے یہ اشعار بطور خاص پسند کیے گیے۔
آب پر رکھتاہے پہلے اپنا اورنگ شعور
پھر جاری بیان آتشیں کرتاہے
آنکھ اس پر مصر ہے جانے کیوں
کچھ پس آفتاب دیکھا جائے
غلغلہ آمد سحر کا ہے
میکدے کا حساب دیکھا جائے
عالم خورشید کی ایک غزل کی یہ اشعار حالات کے پس منظر میں بطور خاص پسند کیے گئے۔
خدا ہی جانے بنائیں گے کیا نئے معمار
زمیں بنائی نہیں، آسماں بنانے لگے
نہ گل کھلے نہ کہیں تتلیاں ہی اڑتی ہیں
یہ کیسے باغ میرے باغباں بنانے لگے
اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے
معیدرشیدی
ہوا کو جسم خوشبو کو لبادہ کرلیا ہے
سفر صدیوں کا میں نے پا پیادہ کرلیا ہے
حقیقت میں مجھے تم کم بہت لگنے لگے ہو
تصور میں تمہیں اتنا زیادہ کرلیا ہے
ڈاکٹر سرفراز خالد
نظامت کے فرائض ڈاکٹر معید رشیدی نے انجام دئیے۔ اس موقع پر اساتذہ کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالر، ایم اے، اور بی اے کے طلبا و طالبات موجود رہے۔
٭٭٭٭٭٭

Comments are closed.