افغانستان:مولوی عبدالکبیر عبوری وزیر اعظم مقرر

بصیرت نیوزڈیسک
افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق تحریک طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نے ایک خصوصی فرمان جاری کرتے ہوئے ملا محمد حسن اخوند کو وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر کو نیا عبوری وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا محمد حسن اخوند کو ان کی خرابی صحت کی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا ہے اور ان کے صحت یاب ہونے تک مولوی عبدالکبیر طالبان حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کریں گے۔
افغانستان کی خبر رساں ایجنسی پژواک کے مطابق وزیر اعظم کے سیاسی امور کے دفتر کے ڈائریکٹر جنرل پریس محمد حسن حق یار نے بھی مولوی عبدالکبیر کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیے جانے کی تصدیق کی ہے۔
خیال رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی ملا محمد حسن اخوند طالبان حکومت کے عبوری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
گوکہ طالبان حکام نے ملا حسن کی بیماری کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں لیکن طلوع نیوز کے مطابق وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔

مولوی عبدالکبیر کا تعلق مشرقی پکتیکا صوبے سے ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق زردان قبیلے سے ہے۔
انہوں نے طالبان کی سابقہ حکومت میں سن 1996سے 2001 کے درمیان ننگرہار کے گورنر کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔
خامہ پریس ایجنسی کے مطابق سن 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ پشاور کونسل کے سربراہ کے طورپر کام کرتے رہے۔
مولوی عبدالکبیر طالبان کے اس گروپ کے سینیئر اراکین میں سے ایک ہیں جس نے قطر میں طالبان کی امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ہی امریکہ اور طالبان کے دوحہ معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مولوی عبدالکبیر کو ابتدا میں ملا حسن کا اقتصادی معاون اور پھر طالبان کے وزیر اعظم کا سیاسی نائب مقرر کیا گیا۔
عبوری وزیر اعظم تبدیل کرنے کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب طالبان کی صف اول کی قیادت اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے درمیان بعض امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔
مارچ میں حقانی نے ہیبت اللہ اخوندزادہ پر در پردہ تنقید کی تھی۔ انہوں نے اگست 2021 میں افغانستان میں تحریک طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں امن وامان کی بحالی کے لیے صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے اور عجلت میں فیصلوں سے گریز کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

Comments are closed.