جمعیۃ علماء ہند کے کارناموں کی ایک جھلک

تحریر: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال۔ ایم ایم پی
جمیعۃ العلماء ہند! ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے قدیم اور باوقار جماعت ہے جس کا باقاعدہ قیام ١٩١٩ء میں عمل میں آیا۔ آزادی سے پہلے اس تنظیم نے ملک کو آزادکرانے میں جو جد و جہد کی ہے اس کا یہ کارنامہ ناقابلِ فراموش اور آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
جمعیۃ علماء ہند اپنے قیام کے اول دن سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی بکھرے ہوئے گیسوؤں کو سلجھانے میں مصروف ہے۔
بانی جمیعۃ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، مفتی کفایت اللہ، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر اکابرین نے ہمیشہ جمیعۃ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی۔ اورحکومت نے ان کی طاقت کو تسلیم بھی کیا۔
ملک کی آزادی،ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی اور مذہبی جنگ لڑنے میں جمیعۃ علماء ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اس کے قائدین اور رہنماؤں نے جیل کی کال کوٹھریوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھانسی کے پھندے کو چوما۔
آزادی کے بعد ملک کی تقسیم کے نتیجے میں برآمد ہونے والے حادثات و واقعات و فسادات اور مسلمانوں پر جو مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹے، اس کی مدافعت، ملت اسلامیہ کے افراد کو نئے سرے سے بسانے، دلاسا دلانے اوران کے قدموں کو جمانےمیں جمیعۃ نے جو غیر معمولی کردار ادا کیاہے وہ ناقابل فراموش ہے۔
اسی طرح ملک کی آزادی کے بعداب تک جمیعۃ العلماء ہند کی کوششوں سے جیل میں بند سینکڑوں افراد کی ضمانتیں ہوچکی ہیں۔
جمیعۃ علماء ہند کے 26 ویں اجلاس عام کے موقع پر جو 13 مئی 2000ء دھلی کے رام لیلا میدان میں منعقد ہوا تھا فداۓ ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنے صدارتی خطاب میں فرمایا تھا:
"آج ہمارا ملک انتہائی سنگین حالات سے گزر رہا ہے اس وقت مرکزی قیادت کی باگ ڈور ایک ایسی پارٹی کے ہاتھوں میں ہے جس کی رگوں میں آر،ایس،ایس، جیسی فسطائی ٹرریسٹ پارٹی کا زہریلا خون دوڑ رہا ہے۔جو ملک کی اقلیتی اکائیوں کو اپنے اندر جذب وضم کرنے یا سرزمین ہند سے ان کے نام و نشان مٹا دینے کے لئے نت نئے حربے استعمال کر رہی ہے، منصوبہ کے مطابق ملک کے جمہوری و سیکولر ڈھانچے کو تبدیل کر دینے کی تیاریاں سرکاری پیمانے پر جاری ہیں۔ سرکار کے زیر سایہ آر، ایس،ایس بجرنگ دل اورہندو جاگرن منچ کے رضا کار ڈھٹائی کے ساتھ تمام ہندوستانیوں کے مفادات کے بجائے صرف ایک مخصوص طبقے کے مفاد اور بالاتری کے فروغ و قیام کی مہم زور و شور سے چلائی جا رہی ہے۔
ان دہشت پسند فسطائی تنظیموں کی نظر میں ملک کا سیکولر نظام اور اس کا بنیادی جمہوری ڈھانچہ کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہےاور متحدہ ہندوستان کی تشکیل و تعمیر کے لیے ملک کے مخلص رہنماؤں اور وسیع النظر آئین سازوں نے جو آئین ہند مرتب کیا ہے، اسے مسخ کر کے ایک ایسا دستور نافذ کرنے کے درپے ہیں’ جس کے ذریعے وہ ایک ایسے ہندوستان کو وجود میں لانا چاہتی ہیں، جس میں صرف اور صرف آر، ایس،ایس کی بالادستی اور ملک کے دیگر سارے لوگ ان کے محکوم اور باجگزار ہوں، چنانچہ آر، ایس ایس کے فکری و قومی رہنما گوالکرنے ایک موقع پر صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنی غیر ملکی سوچ اور مزاج بدل کر ہماری قومی زندگی کے عام دھارے میں شامل ہوجائیں۔
برادرانِ ملت! بلا شبہ آپ کے دستوری حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، مذہبی عبادت گاہوں سے آپ کو محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ آپ کے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے سرچشموں کو خشک کرنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں، ایسے وحشتناک حالات میں آپ کو اور آپ کی وساطت سے ملک میں آباد ایک ایک بچہ کو یہ پیغام پہنچا دینا چاہتا ہوں کہ حالات کی سنگینی سے دل گیر اور خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنے اسلاف کی طرح پامردی جرأت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیجئے۔ اپنے ملکی، مذہبی، تعلیمی، ثقافتی حقوق کی حفاظت کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کیجئے۔”
جن خدشات کا اظہار حضرت فداۓ ملت علیہ الرحمہ نے آج سے ٢٣ سال قبل کیا تھا انہیں ناگفتہ بہ حالات سے آج ہمارا ملک ہندوستان جوجھ رہا ہے پچھلے سال ماہ جولائی میں دہلی ہائی کورٹ نے ملک میں یکساں سول کوڈ کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز کو اس سمت میں اقدامات کرنا چاہئے اور یہ ملک میں سول کوڈ لاگو کرنے کاصحیح وقت ہے۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران ، ہائی کورٹ نے کہا کہ ملک اب مذہب، ذات پات اور طبقہ کی تفریق سے بالاتر ہو چکا ہے لہذا یہاں یکساں سول کوڈ نافذ کئے جانے کی ضرورت ہے۔

جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے کہا تھا کہ آج کا ہندوستان مذہب، ذات، کمیونٹی سے بالاتر ہو چکا ہے۔ جدید ہندوستان میں مذہب اور ذاتوں کی بندشیں تیزی سے ٹوٹ رہی ہیں، اس طرح ایک ہم خیال معاشرہ ترقی کر رہا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 44 کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس کے تحت یکساں سول کوڈ کی طرف اقدامات اٹھائے جائیں۔
اسی طرح کا یکساں سول کوڈ کا مسئلہ ایک دفعہ حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دور صدارت میں پیش آیا تھاکہ ہندوستان کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ نے ایک انفرادی معاملہ میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو توجہ دلائی تھی کہ وہ جلد سے جلد ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کر دے،یہ فیصلہ ١٠/مئ ١٩٩٥ءکو سنا گیا۔اس فیصلہ کے آتے ہی جمیعۃ علماء ہند نے مجلس عاملہ کا ایک اجلاس مراد آباد میں یکم جون ١٩٩٠ءکوبلایا،پورے دن اس موضوع پر ممبران نے بحث کی اور اس کے بعد مندرجہ ذیل قرارداد منظور کی۔
” مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس ایک بار پھر یہ اعلان کر دینا اپنا اسلامی فریضہ سمجھتا ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے، اور اس کے منصوص احکام ناقابلِ ترمیم و تنسیخ ہیں۔”مسلم پرسنل لا” یعنی نکاح طلاق وغیرہ قرآن و حدیث سے منصوص احکام ہیں، اس لئے مسلم پرسنل لا میں ترمیم تنسیخ اور کامن سول کوڈ کی تجویز مسلمانوں کے مذہب میں کھلی مداخلت ہے چونکہ ہمارا ملک جمہوری اسٹیٹ ہے جس میں ہر باشندہ کو ہر قسم کے سارے حقوق حاصل ہیں اور آئین ہند میں واضح الفاظ میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہاں کے ہر باشندے کو مکمل مذہبی و لسانی آزادی حاصل ہوگی، اس کے باوجود یکساں سول کوڈ کا مطالبہ دستور ہند سے کھلا انحراف ہے، جس کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔
جمعیتہ علماء ہند کا یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں قانون و انصاف کے بجائے گردو پیش کے تاثر کی کار فرمائی ھے، اس لیے ضرورت ہے کہ اس فیصلے پر خالی الذہن ہو کر نظر ثانی کی جائے تاکہ ملک کی عدالت عالیہ کا وقار قائم رہے اور وہ سیاسی بازیگروں کا کھلونہ نہ بنے۔
مجلسِ عاملہ جمیعۃ علماء ہند کا یہ اجلاس باورکرتا ہے کہ آئین ہند کی بنیادی دستور و اصول کے مقابلے میں رہنما اور رہبر اصولوں کی چنداں حیثیت نہیں ہے، اس لیے بنیادی اصولوں کو رہبر اصولوں پر کسی حال میں بھی قربان نہیں کیا جا سکتا، پھر رہبر اصولوں میں یکساں سول کوڈ کے علاوہ نشہ بندی، لازمی تعلیم، صحت عامہ وغیرہ کی بھی ہدایت کی گئی ہے، مگر آج تک کسی پارٹی یا جماعت نے ان امور کی جانب کوئی توجہ نہیں کی، اس ملک میں یکساں سول کوڈ کا نعرہ مسلمانوں کو چڑھانے کے لیے وقتاً فوقتاً بلند کیا جاتا ہے۔
مجلس عاملہ جمعیتہ علماء ہند کا حکومت ہند سے مطالبہ ہے کہ وہ دستور میں دیے گئے مذہبی و لسانی حقوق کے تحفظ کا کھلے لفظوں میں اعلان کرکے اور اس بات کا بھی بندوبست کرے کہ اس رہنما اصول کا سہارا لے کر اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں۔
جمیعۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے صرف یہ قرارداد منظور کرکے اطمینان نہیں کیا بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس نے سپریم کورٹ کی حکومت ہند کو یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی ہدایت کو مداخلت فی الدین قرار دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ یکساں سول کوڈ کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے دارالحکومت دہلی میں ٤/ جولائی ١٩٩٥ء کو ایک کل ہند کنوینش بلایا اس کنونشن میں مجلس عاملہ کے فیصلے کے مطابق ٤( جولائی ١٩٩٥ کو نئی دہلی تال کٹورہ اسٹیڈیم میں جمعیۃ علماء ہند کے زیراہتمام یکساں سول کوڈ مخالف کنونشن منعقد کیا گیا، ملک کےگوشہ گوشہ سے ہزاروں علماء کرام اور دانشوران ملت اور ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں نے اس کنونشن میں شرکت کی، اجلاس کی صدارت مولانا سید اسعد مدنی صدر جمعیتہ علماء ہند نے فرمائی، مسلم قائدین اور جلیل القدر علماء کرام اور دانشوران ملت نے یکساں سول کوڈ کی مخالفت میں پر جوش تقریریں کیں،اور ہر مقرر نے دو ٹوک لفظوں میں اس خیال کا اظہار کیاکہ مسلمانوں کے عائلی قوانین میں مسلم پرسنل لا صرف سماجی ضابطہ یا قومی رسم و رواج نہیں بلکہ جس طرح تمام مذہبی احکام ہیں ان قوانین کی وہی حیثیت ہے، اس لئے مسلمان اس میں کسی طرح کی ترمیم و تنسیخ کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا، اگر بالفرض دفعہ ٤٤ کے تحت یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے تو مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔
حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا کہ!
” ہمارا ملک ہندوستان دستوری اعتبار سے جمہوریت اور سیکولرزم کا پابند ہے اور ہر سیاسی جماعت یہاں تک کہ بھاجپاجیسی کمیونل پارٹی بھی جمہوریت اور سیکولرزم کا نعرہ بلند کرکے ہی کرسی اقتدار تک پہنچتی ہے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے یا کسی ملک کو سیکولر اسٹیٹ کہہ دینے سے وہ صحیح معنوں میں جمہوری اور سیکولر ہو جائے گا۔”
ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے،معلوم ہوا کہ جمہوریت اور سیکولرازم کی جو روح ہے وہ اس کے ڈھانچے میں نہیں ہے، شکل و صورت میں وہ ملک جمہوری اور سیکولر اسٹیٹ ہے، لیکن جمہوریت اور سیکولرزم کے جوبنیادی اصول اور خصوصیات ہیں وہ یہاں عنقا ہیں۔ آپ نے فرمایا! حقیقی جمہوریت تو وہ آزادی ضمیر وآزادی رائے ہے جو دین و مذہب کے دائرے میں کسی قسم کی زور زبردستی کو روانہ رکھے حقیقی جمہوریت تو یہ ہے کہ رنگ و نسل، دولت وثروت کا ہر امتیاز مٹا کر یہ اعلان کرے کہ کلکم بنوآدم و آدم من تراب، سچی جمہوریت کے یہ وہ زریں اصول ہیں جو دستور ہند میں واضح الفاظ میں موجود ہیں، مگر اب تک کی ساری حکومتیں جمہوریت کے ان بنیادی اصولوں کو پامال کرتی چلی آ رہی ہیں، ان کے لئے پریس اور پارٹیوں کی مکمل آزادی ہی نہیں بلکہ سرکاری وسائل و ذرائع ابلاغ پوری طرح ان کی وکالت کرتے ہیں، گویا کہ دستور نے انہیں اس کا حق دے دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جتنی سازشیں اور کوششیں کی جا سکتی ہیں اور کرائی جا سکتی ہیں ان سے دریغ نہ کریں۔”
موجودہ حالات میں جبکہ مسلمانوں کی آواز کو اور ان کی طاقت کو بے وزن کیا جارہا ہے ‌فرقہ پرستی کی سرپرستی اوپری سطح سے کی جارہی ہے ایسے حالات میں جمیعۃ علماء ہند کو ایک نئی سیاسی مسلم پارٹی بنانے کی سخت ضرورت ہے ۔کیوں کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے کے مسلم قوم نہ تو اسلامی مفادات کو برقرار رکھ سکتی ہےاور نہ ذاتی مفادات کو چنانچہ ہندوستانی مسلمانوں کو متحد رکھنے کے لیے علماء کو تمام علمی و دینی فرائض انجام دیتے ہوئے ملکی سیاست میں عملی طور پر حصہ لے کر قوم کی صحیح رہنمائی کرنا نہایت ضروری ہے۔
ممبئی میں ہونے والے اجلاس میں جمیعۃ علماء ہند کو یہ تجویز پاس کرنی چاہیے۔
اسی طرح اصلاح معاشرہ کے پروگرام میں مزید وسعت پیدا کی بھی ضرورت ہے۔
جمیعۃ علماء ہند کے اصلاح معاشرہ کے پروگرام کے تحت ہر گاؤں،قصبہ اور شہروں کے محلے میں اصلاح معاشرہ کمیٹی تشکیل دینی چاہیے اور اس کو ہمہ گیر خدمات کے لائق زمینی سطح پر بنائ جاۓ۔کیوں کہ مدھیہ پردیش میں حضرت مولانا محمداحمد خان صاحب صدر جمیعۃ علماء مدھیہ پردیش نے ناچیز کے مشورہ سے احقر کی کتاب خوشگوار ازدواجی زندگی سے جامعہ اسلامیہ مسجد ترجمہ والی میں اصلاح معاشرہ کے بینر تلے خواتین کے لئے تعلیمی اور تربیتی کورس کا سلسلہ "خوشگوار ازدواجی زندگی” کے عنوان سےشروع کیا ہے جس کا نہایت مثبت رزلٹ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے ہی اسی طرزپر ہر محلہ میں بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم کے رسالے سے عقائد کا عملی مشق بھی منظم انداز میں کرایا جائے تو اس سے بھی ملت اسلامیہ کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔
ملک کی تقسیم کے بعد محمد علی جناح نے پاکستان میں ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ! "میں ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا جنازہ پڑھ چکا ہوں۔” محمد علی جناح نے یہ بات چاہے جس سیاسی مقصد کے تحت کہی ہو لیکن ان کے اس بات میں دم تھی کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کا جنازہ ہی بچا تھا جس کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری علمائے کرام کے کاندھوں پر تھی،اگر اس وقت علماء اور ملی جماعتوں کی قیادت نہ ہوتی تو مسلمانوں کا حال بھی اسپین کی طرح ہوتا،جہاں تاریخی مسجد قرطبہ کو چرچ میں بدل دیا گیا اور پورے اسپین میں ایک شخص بھی نہ بچا جو خدا کا نام لے سکے۔
آزادی کی لڑائی کے آخری دور میں یہ دیکھا گیا کہ تشدد کے بجائے گاندھیائ تحریک،اجلاس اور احتجاجی جلسے، جلوس، کانفرنس نہایت نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور ان کے اثر سے ملک کو آزادی ملی۔ اس لیے جب آزادی کے بعد جمہوریت کا قیام عمل میں آیاتو یہ طریقہ ایک مجرب نسخہ بن گیا، دنیا بھر میں اجلاسوں احتجاجوں نے وہ کام کیا جو کبھی بھی خون خرابے سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا ۔ ہندوستان کی مسلم جماعتوں نے بھی یہی طریقے اختیار کیے، امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، جمعیتہ علماء ہند اور دیگر تنظیموں نے آزادی کے بعد اپنے مطالبات کو لے کر ہزاروں جلسے کیے۔ یہ جلسے کانفرنسیں اور سیمینارز نہ صرف سرکار سے مطالبے کے مؤتر ہتھیار ہیں بلکہ اس کے ذریعے مسلم قوم کے ٹوٹے ہوئے حوصلے اور ان میں اتحاد کی اسپرٹ اور اکسیری صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جمیعۃ علماء ہند کے اس عظیم الشان اجلاس کو بھی ماضی کے اجلاس کی طرح کامیابی وکامرانی سے ہمکنار کرے۔

Comments are closed.