ہاں میں رجب طیب اردگان ہوں۔۔۔!
نازش ہما قاسمی (ممبئی اردو نیوز)
ہاں! میں رجب طیب اردگان ہوں، جی ہاں میں ترکی کا سابق وزیر اعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان ہوں۔۔۔ میری پیدائش 26فروری 1954کو استبول میں ہوئی۔ میری اہلیہ کا نام امینہ گلبرن اردگان ہے۔ میری چار اولادیں ہیں، جن میں دو لڑکے احمد براق، نجم الدین بلال اور دو لڑکیاں اسرا و سمیہ ہیں۔میرے والد محترم کا نام احمد اردگان ہے جو بحری کپتان تھے۔ میری والدہ کا نام تنزیل اردگان ہے۔ میں ترکی کا بارہواں منتخب صدر ہوں۔میں نے سیاست میں 1984میں حصہ لیا اور ویلفیئر پارٹی کا ضلعی صدر منتخب ہوا۔ 1994-1998 تک استنبول کا میئر رہا۔ 1998میں ویلفیئر پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی اور مجھے چار ماہ کی جیل ہوئی۔ پھر میں نے اگست 2001میں اسلامی جماعت (جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی) کی بنیاد رکھی اور 2002 میں میری پارٹی نے انتخاب میں برتری حاصل کی پھر میں ملک ترکی کا 25واں وزیر اعظم منتخب ہوا۔ میں تین بار وزیر اعظم رہا اس کے بعد 10اگست 2014کو صدر منتخب ہوا اور تاحال صدر ہوں۔
میری تعلیم مضامین ڈاٹ کام پر شائع مولانا خواجہ فرقان علی قاسمی کے مضمون کے مطابق ’’مدرسہ قاسم پاشا سے میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر 1965 میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔اس کے بعد استنبول امام خطیب ہائی اسکول میں ماہرین سے تعلیم حاصل کی اور 1973 میں میٹرک پاس کیا۔اسی طرح دیگر اضافی مضامین کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایوب ہائی اسکول سے ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد مرمرہ یونیورسٹی کے کامرس و اکنامکس کے شعبہ میں داخلہ لیا اور1981 میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔پھر جامعہ سینٹ جانز، گرنے امیریکن یونیورسٹی، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول، اور جامعہ حلب کی جانب سے مجھے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے نوازا گیا‘‘۔
ابھی میں صرف ترکی کا ہی صدر نہیں ہوں بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے اربوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہوں۔۔ان کی امید ہوں۔۔۔ان کی آس ہوں، ان کا اعتماد ہوں۔۔۔ان کا بھروسا ہوں۔۔۔ ان کا خیر خواہ ہوں۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جسے اقتدار سے ہٹانے کےلیے کئی بار کوششیں کی گئیں؛ تاکہ مسلمانوں کی آواز کوئی اُٹھانے والا زندہ نہ رہے۔ سب سے بڑی کوشش 15جولائی2016میں کی گئی جس میں 161 افراد ہلاک اور 1140زخمی ہوگئے تھے۔ سرکاری دفاتر اور سرکاری ٹی وی پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔۔ لیکن میں نے اسکائپ کے ذریعے قوم کو آواز دی۔ قوم جو مجھ سے والہانہ محبت کرتی ہے اس نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے راتوں رات اس بغاوت کو ختم کردیا اور صبح فجر کی نماز میں استنبول کی سڑکیں نمازیوں سے بھر گئیں۔ نماز فجر کے ساتھ انہوں نے نماز شکرانہ ادا کیا ۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں؛ جو ٹرمپ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ہے، جو اسرائیل کے جابر و ظالم حاکم نیتن یاہو کو سرعام دہشت گرد کہتا ہے ۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جس نے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ تم ایک دہشت گرد ہو ،تم مقہور فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کرتے ہو، یہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا، اور ہم اس کو کبھی نہیں بھولیں گے، تم جو کچھ بھی کررہے ہوں اسرائیلی عوام بھی اسے پسند نہیں کرتے‘‘۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جس نے پوری دنیا کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر نکتہ چینی کرنے والوں فلسطینیوں کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔شامیوں کی زندگی کی شام ہورہی ہے اس پر کیوں کچھ نہیں کہتے؟ کیوں چپ ہو؟ کہاں ہے تمہاری انسانیت؟۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جس نے ٹرمپ کو فون کرکے کہا کہ ’’غزہ میں اپنی سرزمین پر مظاہرہ کرنے والے انسانوں کو بھاری اسلحہ سے نشانہ بنانے والے اسرائیل کو کچھ نہ کہنا اور ہم پر نگاہیں گاڑنا غیر مخلصانہ موقف کی واضح ترین دلیل ہے‘‘۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جس کا ملک ترکی اب خطہ مشرق وسطی میں ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ ایک ایٹمی ملک کا مالک ہوں۔۔۔لہذا اب دشمنان اسلام اوقات میں رہ کر باتیں کریں،کیوں کہ میں ترکی کا ہوں، ترکی بہ ترکی جواب دینے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا ان شاءاللہ۔
ہاں میں وہی اردگان ہوں جس نے ترکی کو ترقی عطا کی۔ یوروپ کا مرد بیمارترکی آج ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دارالسلطنت قسطنطنیہ (استنبول )آج رنگینی بکھیررہا ہے۔ آبنائے فاسفورس اور اس کی قدرتی بندرگاہ ’’شاخ زریںـ‘‘کے کنارے موجود یہ شہر لاکھوں سیاحوں کا مرکز ہے۔ترکی کی اقتصادیات اسی شہر پر منحصر ہیں ۔ سلطنت عثمانیہ کی باقیات یہیں ہیں۔ ہماری عظمتِ رفتہ کو آواز دینے والی خستہ حال عمارتیں بھی یہی موجود ہیں جو ان شاء اللہ بہت جلد اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرلیں گی ۔ اور پھر سے دنیا میں خلافت قائم ہوجائے گی۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جو فلسطینیوں کی حمایت میں بولتا ہوں۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جودنیا کی سب سے بڑی آزاد جیل غزہ پٹی کے لیے امداد روانہ کرتا ہوں۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جو برمی مسلمانوں کی دادرسی کے لیے بے چین رہتا ہوں۔ بنگلہ دیش حکومت کو مجبور کرتا ہوں کہ انہیں پناہ دے، تمام اخراجات میں برداشت کروں گا۔ ہاں میں وہی طیب اردگان ہوں جو شامی مسلمانوں کے لیے دنیا سے لڑ رہا ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں شام سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو پناہ دے رہا ہوں ۔ ان کی رہائش کے لیے کیمپ لگا رہا ہوں۔ انہیں کوئی پریشانی نہ ہو اس کے لیے میں خود وہاں جاکر ان کی دادرسی کررہا ہوں۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں جس کے اپنے بھی دشمن ہیں پرائے بھی دشمن ہیں۔ میں چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں ہوں۔ ہاں میں وہی اردگان ہوں، جو ایک بار پھر خلافت عثمانیہ کو بحال کرناچاہتا ہوں؛ تا کہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان پریشان نہ رہیں؛ لیکن اس راہ میں لاکھوں رکاوٹیں ہیں۔۔۔لاکھوں پریشانیاں ہیں۔۔۔میں اس وقت پوری دنیا کی راہ کا روڑہ ہوں۔ سبھی مجھ سے خوفزدہ ہیں۔ سبھی مجھے برطرف کرناچاہتے ہیں؛ لیکن سلام ان ترکی زندہ دلوں پر جو مجھے اتنی محبت دیتے ہیں۔ میرے لیے جان تک نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں ان کی محبتیں لاکھوں عداوتوں پر بھاری پڑ جاتی ہیں اور میں خدا کے فضل وکرم سے محفوظ رہتا ہوں۔
ہاں میں وہی اردگان ہوں جو ۱۴ مئی ۲۰۲۳ کے صدارتی الیکشن میں پچاس فیصد ووٹ کا تناسب نہیں پاسکا تھا لیکن ۲۸ مئی کو دوسرے راونڈ میں اکثریت کا ہندسہ عبور کرکے عظیم ترکیہ کا پھر سے صدر منتخب ہوگیا، مجھے شکست دینے کے لئے اور سرخ پرچم ہلالی کو سرنگوں کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں،دجالی میڈیا نے ترکیہ کے غیرت مند عوام کے ووٹوں کو ضائع کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈے اپنائے لیکن خدا نے ترکیہ سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی دعائیں قبول کرلیں ان شاء اللہ عظیم آیاصوفیہ سمیت پورے ترک جمہوریہ میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں گونجیں گی، نام نہاد جدید ترکیہ کے بانی کمال اتاترک کے حامی، شامی پناہ گزیں کےمخالف اب کچھ نہیں بگاڑ سکتے جس طرح میں پہلے عالمی پلیٹ فارموں پر امت مسلمہ کی آوازیں بلند کرتا تھا اب مزید شدت اے اسے اٹھاونگا ان شاء اللہ۔
Comments are closed.