جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے! ظفر امام قاسمی

بالآخر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ ضلع کشن گنج کے جس تاریخ ساز انعامی و تربیتی پروگرام کا مہینوں سے بہ شدت انتظار تھا کل مورخہ 13/ جون 2023؁ء مطابق 23/ذی قعدہ 1444؁ھ بروز منگل ایک شاندار انعامی و تربیتی پروگرام کا انعقاد کرکے انتظار کے اس سفینے کو ساحل پر لنگرانداز کردیا گیا۔
پروگرام کا وقت صبح 9/ بجے سے دوپہر کے 1/ بجے تک طے تھا،مگر بارانِ رحمت کی دھواں دھار بوچھار نے بر وقت پروگرام شروع ہونے نہ دیا اور پروگرام تقریبا ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہو سکا۔
اس تاریخ ساز پروگرام کے انعقاد کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ سالِ گزشتہ شعبان المعظم کے مہینے میں کئی سال کی مسلسل تگ و دو اور اَن تھک جاں کاہیوں کے بعد اکابرینِ کشن گنج کی محنت رنگ لائی اور  جمعیة علماء کشن گنج کے فعال و زیرک سکریٹری و ترجمان،رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کشن گنج کے جنرل سکریٹری مخدوم مکرم حضرت اقدس مفتی مناظر صاحب نعمانی قاسمی مدظلہ کی قیادت میں رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند سے مربوط مدارس کا سالانہ اجتماعی امتحان عمل میں آیا،ویسے تو حضرت مفتی صاحب نے بروقت اہلِ مدارس کو مساہمین کے نتائج ارسال کردئے تھے تاہم حوصلہ افزائی کے لئے اس کا انعامی پروگرام کرنا باقی تھا جو کل شہر کشن گنج کے ایک قدیم اور بافیض ادارہ مدرسہ تجوید القرآن محلہ کاغذیہ میں نمونۂ اسلاف حضرت اقدس الحاج مولانا غیاث الدین صاحب مدظلہ العالی کی زیر صدارت اور حضرت مخدومِ گرامی مفتی مناظر صاحب کی زیر نظامت عمل میں آیا۔
عزیزی حافظ ذیشان سلمہ متعلم مدرسہ محمودالمدارس کشن گنج کی پرُکیف تلاوت اور مدرسہ تجوید القرآن کے استاذ گرامی بلبل بنگال قاری محمد فردوس صاحب کی نغمگیں نعتِ نبیﷺ سے پروگرام کا باضابطہ آغاز ہوا،اس کے بعد تاثرات کا دور شروع ہوا اور یکے بعد دیگرے اکابرین کو مدعو کیا گیا، سب سے پہلے محبوبِ ملت جمعیة علماء بہار کے صدر محترم حضرت اقدس الحاج مفتی جاوید اقبال صاحب قاسمی نے مسندِ خطابت کو زینت بخشتے ہوئے تربیتی خطاب فرمایا جس میں آپ نے بالخصوص اہلِ مدارس کو اس چیز کی تلقین کی کہ ” آپ کے مدرسے کے طلبہ کا امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوکر انعام کا حقدار بننا یہ آپ کے اور آپ کے مدرسے کے لئے کافی نیک نامی اور فخر کی بات ہے اس لئے آپ کو بھی چاہیے کہ آپ بھی ان بچوں اور ان کے اساتذہ کی حتی الامکان حوصلہ افزائی کریں، انہیں انعام و اکرام سے نواز کر اپنی نظر میں ان کے قد کو بڑھائیں“۔
آپ کے بعد حضرت مولانا مشفق صاحب مظاہری ناظم مدرسہ محمود المدارس ڈائز پر تشریف لائے اور آپ نے امتحان کا آنکھوں دیکھا حال لوگوں کو سنایا کہ یہ امتحان کتنا صاف اور شفاف رہا،اور حضرت مفتی صاحب نے کس حاضر دماغی اور چابک دستی کے ساتھ امتحان کے اس نظام کو مرتب کیا۔
امتحان کے نظام کی ترتیب اس طرح سے پروئی گئی تھی کہ کسی بھی ذمہ دار کو انگشت نمائی کا موقع میسر نہ آئے بایں طور کہ امتحان کے پانچ مراکز قائم کئے گئے تھے،اور ہر مرکز میں شرکت کرنے والے مساہمین کو تین فروع میں بانٹا گیا تھا،اور ممتحنین کی ترتیب یوں بنائی گئی تھی کہ ایک ممتحن ایک مرکز میں جس فرع کا امتحان لےگا وہی ممتحن دوسرے مرکز میں اسی فرع کا امتحان لےگا،اور دورانِ امتحان ممتحنین کے سامنے صرف ایک کورڈ اور مقدارِ خواندگی رکھی گئی تھی،ممتحن اس بات سے بےخبر کہ اس بچے کا نام کیا ہے؟یا پھر یہ کہ یہ کس ادارے کا طالب علم ہے کورڈ نمبر کے حساب سے مساہمین کو بلاتا اور بلا کسی تمہید کے ان سے سوالات پوچھ کر ان کو روانہ کردیتا،اور اِس بات کا کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہ رہے کہ میرے مدرسے کے طالب علم کا نام پہلے کیوں آیا یا نمبر اتنا لیٹ کیوں آیا وغیرہ، حضرت مفتی صاحب نے اس اعتراض کا حالتِ اعتراض میں پہونچنے سے پہلے ہی گلا دبا کر کام تمام کردیا تھا بایں طور کہ طلبہ کے ناموں کی ترتیب حروفِ تہجی کے اعتبار سے رکھی گئی تھی،اب مساہم کا مقدر اس کو چاہے جس نمبر کا سکندر بنادے یہ اس کا اپنا مقدر ہے،الغرض رابطہ ضلع کشن گنج کا پہلا امتحان وہ بھی اتنی شفافیت اور بےداغی کے ساتھ یہ صرف اور صرف مخدوم گرامی حضرت مفتی صاحب کی حاضر دماغی،بیدار مغزی اور چابک دستی ہی کا حصہ ہے،اور یہ عظیم کارنامہ آپ کی ذات پر پھبتا بھی ہے،اللہ آپ کو عمرِ خضر عطا کرے۔
اِس امتحان کے تئیں بچوں کے اندر کیا ولولہ اور کیا شوق تھا اس کا اندازہ حضرت مولانا مشفق صاحب کے بعد مسندِ خطابت کو زینت بخشنے والی،زبان و بیان میں یدِ طولی رکھنے والی ایک مایہ ناز ہستی حضرت مولانا فیض الرحمن صاحب ندوی بانی و مہتمم مدرسہ جامعہ اسلامیہ کشن گنج کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے،آپ نے فرمایا کہ ”جب اس امتحان کی تاریخ کا اعلان منصۂ شہود پر آیا اور ہم نے اپنے مدرسے کے معصوم اور ننھے بچوں کو بلاکر یہ شعر سناتے ہوئے کہ    ؎
یہ بزمِ مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
ان کے شوق کو مہمیز لگائی تو ان کا نیم خواب شوق انگڑائی لیتا ہوا مکمل بیدار ہوگیا،نیز جب ان کو اس امتحان کی اہمیت سے روشناس کرایا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ جو کوئی بھی اس امتحان میں اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کرےگا اس کو تو جو انعام ملنے کا ہوگا وہ ملےگا ہی،مگر اس کے لئے سب سے بڑا انعام یہ ہوگا کہ اس کا نام ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے دفتر میں جمع ہوجائےگا،اتنا سنتے ہی وہ فرشتہ صفت بچے پڑھائی میں ایسے مست ہوگئے جیسے کہ بورڈ کے کسی بڑے امتحان دینے کی تیاری کرنے لگ گئے ہوں،چلتے پھرتے ان کا مشغلہ پڑھنا بن گیا، یہی نہیں امتحان میں کامیابی کے لئے وہ اللہ کے بےحد قریب بھی پہونچ گئے،مغرب سے کافی وقت پہلے وہ مسجد پہونچ جاتے اور دعاؤں میں اس طرح سے مشغول ہوجاتے کہ ان کی ہچکیاں اور گھگھیاں بندھ جاتیں اور وہ بےساختہ سجدے میں گرکر اپنی کامیابی کے لئے اپنے رب کو منانے لگ جاتے“ ( بحمداللہ جامعہ اسلامیہ کشن گنج کے دو نوخیز طالب علموں نے کامیابی حاصل کی اور انعام کے مستحق قرار پائے)
اس کے بعد پٹنہ سے تشریف فرما ہوئے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار کے جنرل سکریٹری کل کے انعامی پروگرام کے مہمان خصوصی حضرت مولانا خالد انور صاحب پورنوی کا کلیدی خطاب ہوا، آپ نے اپنے کلیدی خطاب میں نہایت جامع گفتگو فرمائی،آپ نے اپنے خطاب میں مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کرام کی تربیت پر کافی زور دیا اور ان کی نفسیات کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ برتاؤ کرنے کی تلقین کی۔
اب باری آئی جگر تھام کر بیٹھنے کی یعنی تقسیم انعامات کی،یہی وہ کڑی تھی جو اس پروگرام کا لب لباب تھی،جس کے لئے اس پروگرام کو سجایا اور سنوارا گیا تھا،تقسیمِ انعامات کی ترتیب یوں بنائی گئی تھی کہ تمام مراکز سے پوزیشن لانے والے مساہمین میں سے ہر فرع کے  ٹاپ ٹین کا انتخاب کیا گیا تھا،یعنی تمام مراکز کے ہر فرع میں کامیاب ہونے والے مساہمین میں سے انعام کا مستحق صرف ان کو قرار دیا گیا تھا جو نمبرات کے اعتبار سے ٹاپ ٹین میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
انعامات میں ہر کامیاب مساہم کو ایک ایک بیگ،ایک ایک جوڑے کپڑے اور کچھ کتابیں دی گئیں،اقصی ایڈورٹائزنگ کے مالک جناب مولانا ابوسالک صاحب ندوی کی جانب سے مسابقہ میں شرکت کرنے والے تمام مساہمین کو قلم کاپی کے مختصر مگر گراں قدر انعام سے نوازا گیا،اسی طرح ممتحنین حضرات مفتی حسن احمد قاسمی استاذ مدرسہ اشرف العلوم رحمن گنج،قاری شارق انور صاحب اساذ دارالعلوم بہادرگنج اور قاری صابر عالم صاحب استاذ جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج اور راقم الحروف (راقم الحروف اس پورے امتحان میں معاون کی حیثیت سے شریک رہا تھا) کی ایک ایک شیلڈ کے ذریعے سے عزت افزائی کی گئی،علاوہ ازیں دارالعلوم بہادرگنج،جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج،جامعہ جعفریہ مدنی نگر سرائے کوڑی اور جامعہ محمودالمدارس کشن گنج کو نشانِ امتیاز سے بھی سرفراز کیا گیا،یہ چار وہ مدارس تھے جن کے کم از کم 9 طلبہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے تھے۔
انعامات کی ریس میں سب سے آگے سیمانچل کے سب سے نامور،قدیم،بافیض اور دینی درسگاہ اور مرکزی ادارہ دارالعلوم بہادرگنج کے شہسواروں نے بازی ماری،جس طرح یہ ادارہ لوگوں کی نگاہوں میں مرکز بنا ہوا ہے کل اس کے سپوتوں نے حقیقت میں بھی اس کے مرکز ہونے کو ثابت کرکے دکھادیا،اور وہ اس طرح سے کہ ہر فرع کے ٹاپ تھری پر دارالعلوم ہی کے طلبہ قابض رہے،یعنی کسی بھی فرع میں دوسرے ادارے کے طلبہ مجموعی نمبرات میں دارالعلوم کے طلبہ کو مات نہ دے سکے، دارالعلوم کے ان ہونہار اور خوش نصیب طلبہ نے کل دارالعلوم کا سر سرِمحفل فخر سے بلند کردیا تھا، دارالعلوم کے طلبہ نے اس بزم مے سے ہاتھ بڑھا کر مکمل طور پر مینا اپنے قبضے میں کرلیا تھا،یہ دیکھ کر وہاں موجود ہر زبان پر دارالعلوم کی مضبوط تعلیم،عمدہ تنظیم،اور اس کی مرکزی حیثیت کے ترانے رقص کناں تھے،حضرت مفتی مناظر صاحب قاسمی نے یہ اشتہار دیا تھا کہ ہر فرع کے سب سے اعلی نمبرات حاصل کرنے والے طالب علم کے متعلقہ استاذ کو بھی خلعتِ فاخرہ سے سرفراز کیا جائےگا،بحمداللہ یہ تمغہ بھی مکمل طور پر دارالعلوم بہادرگنج ہی کے حصے میں آیا کیونکہ ہر فرع کے اول نمبر پر دارالعلوم ہی کے طلبہ قابض تھے،یہی نہیں امتحان میں شریک 23 مربوط مدارس کے تقریبا آٹھ سو طلبہ میں سے دارالعلوم کے ہی ایک ہونہار طالب علم عزیزی افتخار احمد سلمہ لوچا ( متعلقہ مفتی عبد اللہ صاحب ) نے سب سے اعلی نمبرات حاصل کرکے ممتاز ہونے کا سہرا اپنے سر سجایا، دارالعلوم کے وہ خوش نصیب اساتذہ جن کو انعام میں ایک شاندار بیگ،ایک عمدہ جوڑا کپڑا اور کئی سو روپیوں کی کتابیں ملیں ان میں سے دارالعلوم کے سب سے باوقار اور تجربہ کار استاذ جناب حضرت قاری سالم انظر صاحب،جناب مولانا ارشاد صاحب اور جناب مفتی عبد اللہ صاحب تھے،اور وہ باکمال طلبہ جنہوں نے دارالعلوم کے سر کو فخر سے اونچا کیا ان کے نام یہ ہیں:
فرع اول میں کامیاب ہونے والے طلبہ:محمد وسیم کھیکھاٹ اول پوزیشن،محمد خوشتر مسجد گڑھ دوم پوزیشن متعلقان قاری سالم انظر صاحب،محمد نور الہی بھورداہ متعلقہ قاری شارق انور صاحب
فرع دوم میں کامیاب ہونے والے طلبہ: محمد ذیشان بھورادہ اول پوزیشن متعلقہ مولانا ارشاد صاحب،محمد اشرف قدم گاچھی دوم پوزیشن متعلقہ حافظ نورالحق صاحب،محمد شاہ فرحان جھالا سوم پوزیشن متعلقہ قاری حسین صاحب۔
فرع سوم میں کامیاب ہونے والے طلبہ: محمد افتخار لوچا اول پوزیشن متعلقہ مفتی عبداللہ صاحب،محمد اشرف سونتھا دوم پوزیشن متعلقہ مولانا عبدالسبحان صاحب،محمداحسان کٹہل باڑی سوم پوزیشن متعلقہ قاری شارق انور صاحب۔ اللہ تعالی ادارے کو مزید ثمر آور بنائے۔
اب انعامات کی تقسیم کا سلسلہ تھم چکا تھا،باری تھی مہمانِ ذی وقار رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار کے صدر محترم حضرت مولانا مرغوب صاحب قاسمی کے مسندِ خطابت کو زینت بخشنے کی،حضرت والا نے تجویدی اصول اور قرأتی نکات کے متعلق کافی قیمتی باتوں کی طرف رہنمائی فرمائی اور ساتھ یہ بھی وعدہ فرمایا کہ ان شاء اللہ آئندہ اساتذہ کی ٹریننگ کے لئے عنقریب ہی کوئی لائحۂ عمل تیار کیا جائے گا۔
اور پھر اخیر میں اس انعامی پروگرام کے صدر محترم کی مختصر تربیتی کلمات اور دعا پر اس تاریخ ساز تربیتی و انعامی پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔
میں نے اپنی اس تحریر میں اس چھوٹے سے پروگرام پر کئی جگہ اس کے ”تاریخ ساز“ ہونے کا مہر چسپاں کیا ہے وہ اس لئے کہ یقینا اگر اس نوبنیاد میخانے کے چھلکتے جام اور لبریز مینا سے جرعہ نوشی کا یہی سلسلہ برقرار رکھا گیا اور اس مےخانے کے شرابِ طہور سے مے کشی کا عمل جاری رکھا گیا تو ان شاء اللہ یہی چھوٹا سا پروگرام سرزمینِ کشن گنج پر ایک ایسی تاریخ رقم کرنے کا ذریعہ بنےگی جس سے اب تک یہ سرزمین محروم تھی اور جس کے انتظار میں اس خطہ کی آنکھیں پتھرانے کے قریب ہوگئی تھیں۔

ظفر امام،کھجورباڑی
دارالعلوم بہادرگنج
14/ جون 2023؁ء

Comments are closed.